ہفتہ، 23 مئی، 2020

اردو شاعری اور عید


اردو شاعری اورعید

ڈاکٹر عزیز سہیل،حیدرآباد

سیکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں مگر
جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو
                عیدکے معنی تہوار،خوشی کے دن،مسلمانوں کے جشن کے روز کو کہتے ہیں،مسلمانوں کی دو عیدیں کافی اہم ہیں عید الفطر اور عیدالاضحی۔ان کے علاوہ عید المومنین،عید میلادالبنیؐ بھی مقبول ہیں۔عید الفطر یعنی رمضان کی عید اور عیدالاضحی یعنی عید قربان۔ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو مسلمان عید الفطر مناتے ہیں،اور اپنے رب کے حضور شکرادا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے سال کے بارہ ماہ میں ایک ماہ،رمضان کا بھی رکھا ہے جو ہمارے لیے رحمت اور سلامتی کا مہینہ ہے جس میں روزوں کے ذریعے خدا کے فضل اور اپنے اندرتقوی کی صفت پیدا کرنے کی ہم کوشش کرتے ہیں، ماہ رمضان خدا تعالی کی عبادت کا مہینہ ہے،اس ماہ میں مسلمانوں میں تقوی کی صفت پیدا ہوتی ہے،دین اسلام سے ان کا لگاؤ بڑ ھ جاتا ہے اور وہ قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرتے ہیں،لہذا عید الفطر کو ہم خدا کے شکر کے طور پر روزوں کی عید کے طور پر مناتے ہیں۔ماہ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی لوگ عید کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ایک ماہ کے مسلسل روزوں کے بعد عید کا دن آتا ہے۔ اس دن لوگ نئے کپڑے پہنتے ہیں۔شیر خرما اور سیویوں سے ایک دوسرے کی تواضع کی جاتی ہے بچے عید پر بہت خوش ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں عیدی ملتی ہے۔ زندگی کی بھاگ دوڑ کے اس دور میں بڑے لوگ بھی اپنے رشتے داروں اور دوست احباب کے گھر جاکر عید ملتے ہیں۔شادی شدہ لوگوں کے لیے بھی عید مسرت کا پیغام لاتی ہے۔ بہو بیٹیاں اپنے اپنے گھروں کو جاتی ہیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہوتی ہیں۔ دعوتیں ہوتی ہیں اور مبارکبادیوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ اور ہر طرف جشن کا سماں ہوتا ہے۔اسلام نے زکوۃ اور صدقہ فطر کا جو طریقہ رکھا اس کا مقصد یہی ہے کہ عید کی اس خوشی کے موقع پر کوئی غریب بھوکا نہ رہے اور سب کے گھر خوشیاں لوٹ آئیں۔ مسلمان اس کا اہتمام کرتے ہیں اس لیے عید امیر و غریب سب کے لیے مسرت و شادمانی کا پیغام لاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ عید کے موقع پر اچھے اچھے مبارکبادی کے پیغامات لکھ کر عید کارڈ ایک دوسرے کو دیا کرتے تھے۔ اب سوشل میڈیا کا زمانہ آگیا ہے اس لیے لوگ عید کارڈکی جگہ خوبصورت بینر بنا کر عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔ اس سال تو ماہ رمضان اور عید کی خوشیاں کرونا وبا اور لاک ڈاؤن کی نذر ہورہی ہیں کہا جارہا ہے کہ لوگ اپنے گھروں پر ہی رہیں اور فون سے ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد پیش کریں۔ ایسے دور میں جب ہم ہماری اردو شاعری کے سرمایے پر نظر ڈالتے ہیں تو عید کے عنوان سے دلچسپ اشعار دکھائی دیتے ہیں۔ شعرائے اردو نے عید کے تہوار اور اس موقع پر پیش ہونے والے جذبات کو پیش کیا ہے۔اردو کے ایسے اشعارجو عید کے موضوع پر ہیں جو زبان زد خاص و عام ہیں ان اشعار اورغیر مقبول اشعار جو عید کے موضوع پر اردو کے اکثر شاعروں نے کہے ہیں۔ آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ان میں مزاحیہ اشعار بھی شامل ہے جو ان  شعراء کی نظموں اور غزلوں سے یہاں نقل کیا گیا ہے،ملاحظہ فرمائیں ؎
 آ ج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے
     راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے  
(آبروشاہ مبارک(
دیکھا ہلال عید تو آیا تیرا خیال
       وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے 
 )نامعلوم(
      ہے عید کا دن آج تو لگ جاؤ گلے سے
         جاتے ہو کہاں جان مری آ کے مقابل
   )   صحفی غلام ہمدانی(
عید میکدے کو چلو دیکھتا ہے کون
    شہد و شکر پہ ٹوٹ پڑے روزہ دار آج
 )سید یوسف علی خان ناظم(
عید آئی تم نہ آئے کیا مزا ہے عید کا
             عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا          (نامعلوم(
عیدکا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
            رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
 )قمر بدایونی(
   مہک اٹھی ہے فضا پیرہن کی خوشبو سے  
          چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے
)محمد اسد اللہ(
اس سے ملنا تو اسے عید مبارک کہنا
                 یہ بھی کہنا کہ مری عید مبارک کر دے            (دلاور علی آزر(
       جو لوگ گزرتے ہیں مسلسل رہ دل سے
                 دن عید کا ان کو ہو مبارک تہ دل سے      
 (عبید اعظم اعظمی(
     سب لوگ دیکھتے ہیں کھڑے چاند عید کا
             مشتاق ہوں میں رشک قمر تیری دید کا          
  )  بہادر شاہ ظفر(
            خزاں میں مجھکو رلاتی ہے یادِ فصلِ بہار                      خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں        (نامعلوم(
اجاڑ ہوگئے عہدِ کہن کے میخانے
گذ شتہ بادہ پرستوں کی یاد گار ہوں میں
پیامِ عیش و مسرّت ہمیں سنا تا ہے
                          ہلالِ عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے         (علامہ اقبال(
دے انہیں جنبش کبھی عہد وفا کے واسطے
اب دیکھئے اداس نگاہوں کو کیا ملے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اسیر قفس ہیں رہا ہونے تو دو
              رہا ہوئے تو ہم عیدیں ہزار کر لیں گے     
(نامعلوم(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      ادھر ہے فصل بہاراں اور ادھر ہے عیدالفطر
                سماں نشاط کا ہے شہر و دشت پر چھایا                (نامعلوم(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے بیگانے گلے ملتے ہیں سب عید کے دن
اور تو مجھ سے بہت دور ہے اس عید کے دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنے والی رتوں کے آنچل میں
   کو ئی ساعت سعید کیا ہو گی
       گل نہ ہو گا تو جشنِ خوشبو کیاٍٍٍ    
    تم نہ ہو گے تو عید کیا ہو گی

 )        پروین شاکر(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساغر صدیقی
چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
اپنی تقدیر کہاں بھول گیا عید کا چاند
ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چبھا، عید کا چاند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     (قطعہ)
ہے روزِ عید' بھلاؤ تمام شکوے گلے
گلے ملو'تو کچھ ایسے'کہ دل سے دل بھی ملے
کدورتوں کو مٹانے کا وقت آیا ہے
بھلاؤ رنجشیں'موقع یہ پھر ملے نہ ملے

ڈاکٹرمقبول احمد مقبول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو آنکھوں میں فقط کرب کے منظر ہیں رواں

عید آئی ہے مگر درد کی سوغات کے ساتھ
۔۔
           ہجر میں عید کے دن یاد کے منظر جاگے
                    تم جو آئے مرے خوابیدہ مقدر جاگے          حلیم بابر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کو تم کاخ نورکرلینا
عید کے دن حضور کرلینا
دشمنی کو بھلا کے اے منان
  ہر گلے شکوے دور کرلین
 )          محبت علی منان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کلچر عید مبارک
انگلش ٹیچ ہیپی عید
انگلش ٹیچر ہیپی عید
جنتا لیڈر اور کلکٹر 
          چیف منسٹر ہیپی عید         
       )اقبال شانہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلشن گلشن عید مبارک
ساون ساون عید مبارک
آؤ یار گلے لگ جاؤ  
           تن من،تن من عید مبارک        
  )   اقبال شانہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھا نہ آباء کا کمایا
اور نہ قسمت سے ہی پایا
پیچ میں کچھ گڑ ملایا
ڈسکو شر خرما بنایا
عید ہم  نے یوں منائی 
                          ماہ رمضان کی دہائی                        
  ( چچا پالموری)

لیبلز:

پیر، 18 مئی، 2020

تبصرہ:سخن شناسی مصنف: مقبول احمد مقبول






سخن شناسی(تنقیدی مضامین(
مصنف:ڈاکٹرمقبول احمدمقبول

مرتب: محمدعظمت الحق              
  مبصر: ڈاکٹرعزیزسہیل
جنوبی ہند کے ادبی منظرنامہ میں اپنی تحریروں کے حوالے سے ایک نام کافی مقبول ہوا ہےجس کواردودنیا مقبول احمدمقبول ؔکے نام سے جانتی ہے۔ مقبول احمدمقبولؔ کا تعلق پیشہ درس وتدریس سے ہے اور پچھلے تین دہوں سے شعروادب کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔تصنیف”سخن شناسی“دراصل مقبول احمد مقبول کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس کوان کے لائق فرزند محمدعظمت الحق نے بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔ اس کتاب کو قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی نے اپنی مالی اعانت سے شائع کیاہے۔
زیر نظر کتاب کو محمدعظمت الحق اپنی والدہ محترمہ کے نام معنون کیاہے۔موضوعات کے اعتبار سے اس کتاب کو جملہ چارابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے باب کو”غزل“کا عنوان دیاگیا ہے جس میں 8 مضامین شامل ہیں۔ جن کے عنوانات اس طرح ہیں،کلاسیکی ادب کا باکمال: شاعررشیداحمدرشید،شیخ الاسلام اختر کچھوچھوی کا رنگِ تغزل‘،ابن صفیؔ:بہ حیثیت شاعر‘، ابرارؔ نغمی کی غزلیہ شاعری پرایک نظر، صالح اقدار کا امین حبیب راحت حبابؔ،محفوظ اثرؔ کی غزل گوئی‘،شاعرِ دیدہ ور:حبیب سیفیؔ،قلندر صفت شاعر:عمراکرام۔
اس کتاب کا دوسرا باب ”رباعی“ کے عنوان سے شامل ہے جس کے تحت 5مضامین،اردورباعی کا ایک مسیحی شاعر:نامی ؔنادری‘ نادمؔ بلخی کی رباعی گوئی کا فنی محاکمہ‘ ممتازومنفرد رباعی گو:راشد آذرؔ‘ نامیؔ انصاری کی رعبایات کا تنقیدی جائزہ‘ شاہ حسین نہری: بحیثیت رباعی گو،شامل ہیں۔
زیر نظر کتاب کے باب سوم کو”نظم“کے عنوان سے شامل کیا گیاہے جومضامین اس باب میں شامل ہیں وہ یہ ہیں جدید ترنظم کا نمائندہ شاعر قاضی سلیم‘ ریاض اختر ؔادیبی کی دوہا نگاری‘ شاعر اطفال:حافظ ؔکرناٹکی‘ خوبصورت فکرواحساس کا شاعر:ڈاکٹر طاہر ؔرزاقی‘ عاجزؔ ہن گھن گھاٹی کی مذہبی شاعری۔
اس کتاب کے باب چہارم کو”مجموعی قدرشناسی“کا عنوان دیاگیا ہے۔ جن میں ڈاکٹرقطب سرشارؔ: فکروفن کے آئینہ میں‘ اسلمؔ مرزا: ہمہ جہت فن کار‘نثاراحمدکلیمؔ:صوفیانہ فکر کا حامل ادیب وشاعر،مضامین شامل ہیں۔
زیرنظر کتاب کے آغاز میں دیباچہ کے عنوان سے ایک”مضمون“ شامل ہے جس کو محمدعظمت الحق (مرتب)نے لکھا ہے۔ جس میں انہوں نے مقبول احمدمقبول کی علمی وادبی خدمات کاتذکرہ کیاہے ساتھ ہی مقبول احمد مقبول ؔکی شعروشاعری کے آغاز اوران کی تصانیف پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔مرتب کتاب نے اس تصنیف کی اشاعت میں آنے والی دشواریو ں کوبھی بیان کیا ہے۔ ڈاکٹرمقبول احمدمقبول ؔکی تحقیقی وتنقیدی صلاحیتو ں کے متعلق وہ لکھتے ہیں:”اللہ رب العزت نے ڈاکٹرمقبول احمدمقبول ؔکوتنقیدی وتحقیقی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔ اس لیے انہو ں نے خود کو صرف تخلیق شعر تک محدود نہ رکھا بلکہ تنقید وتحقیق وتجزیہ وتبصرے جیسے میدانو ں میں بھی اپنے اشہب قلم کودوڑایا۔ تنقید وتحقیق سے آپ کی ذہنی مناسبت اورگہری دلچسپی کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی پہلی کتاب جوشائع ہوئی ہے وہ شعری مجموعہ نہیں بلکہ پی ایچ.ڈی کے لیے لکھا گیاتحقیقی وتنقیدی مقالہ تھا“۔
اس کتاب میں شامل پہلے باب کا پہلا عنوان ”کلاسیکی غزل کا باکمال شاعر“ رشیداحمدرشیدؔ کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں رشیداحمدرشیدؔ کی شخصیت کا تفصیلی تعارف پیش کیاگیاہے اور ان کے فن شعرگوئی پر باریک بینی سے نظرڈالی گئی ہے اور ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیاگیاہے۔ اس متعلق مصنف مقبول احمد مقبول نے رشیداحمدرشیدؔ کوسچا فنکارقراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ”رشیداحمدرشید ایک سچے فنکار اوربلندمرتبہ سخن ورتھے۔ فکر کی تازگی‘تخیل کی بلندگی‘ فن کی پختگی‘ زبان کے لطف وبیان کے حسن کے اعتبار سے ان کی غزلیہ شاعری اور کلاسیکی شعری ذخیرہ میں ایک حسین اضافہ ہے۔ رشیداحمدرشیدؔ کی غزل میں وہ تمام فنی خصوصیات پائی جاتی ہیں جوبہترین غزل کا خاصہ رہی ہیں۔ اسلوب سادہ ہونے کے باوجود پرکار ہیں۔ کئی اشعار ایسے ہیں جو”از دلِ خیز دبردلِ ریزد“ کی شان کے حامل ہیں“۔اس باب میں شامل دیگر مضامین بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے انفرادیت رکھتے ہیں۔
اس کتاب میں شامل دوسرے باب رباعی کے تحت پہلا مضمون ”اردورباعی کا ایک مسیحی شاعر نامی ؔنادری“کے عنوان سے شامل ہے۔ اس مضمون کے ابتداء میں اردوزبان وادب کےارتقاء میں ادباء وشعراء کےخدمات کا تذکرہ کیا گیاہے۔ ساتھ ہی فورٹ ولیم کے حوالے سے ڈاکٹرجان گلگرکسٹ کی اردو کے فروغ میں کی گئی خدمات کاجائزہ لیاگیا ہے‘انجمن پنجاب کا تدکرہ بھی اس میں شامل ہے،ساتھ ہی آزاد ہند کے دوران اردو کے جومسیحی شعراء گذرے ہیں ان کے نام گرامی بھی شامل ہیں۔ اس مضمون میں نامی ؔنادری کا مختصر اََ تعارف دیاگیا ہے ساتھ ہی ان کی شعری وادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے فن کاجائزہ لیاگیاہے۔ اس متعلق مصنف کایہ خیال ہے کہ ”نامیؔ نادری کی رباعیوں کی ایک امتیازی خصوصیت ان کی بے پناہ روانی‘ سلاست‘حلاوت اور فنی پختگی ہے چوں کہ داغؔ اس اسکول سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے زبان کا لطف بھی محسوس کیاجاسکتا ہے۔ اوزان‘ مترنم اورمطبوعہ استعمال کیے ہیں“۔ اس باب میں شامل تما م ہی مضامین رباعی گو شعراء کے فن اور فنکاری کا اعلی نمونہ ہیں۔
زیرنظر کتاب کا باب سوم نظم کے عنوان سے شامل ہے جس کا پہلا مضمون ”جدید نظم کا نمائندہ شاعر قاضی سلیم“ہے۔ اس مضمون میں بھی حسب روایات مصنف نے اردوشاعری سے متعلق ایک تمہید باندھی ہے ساتھ ہی قاضی سلیم کی شاعری کاآغازو ارتقاء اوران کے فن کاتنقیدی جائزہ لیاہے۔ قاضی سلیم کی نظم گوئی سے متعلق ڈاکٹر مقبول احمد مقبول نے لکھا ہے ”قاضی سلیم کی تمام نظمیں (بہ استشنائے چند) علامتی اوراشارتی ہیں۔ نئے نئے استعارات اور نئی نئی تشبہیات سے انہو ں نے اپنی نظمو ں کوانفرادیت عطا کی ہے۔ ”دھرتی تیرا مجھ سا روپ“ ان کی شاہکارنظموں میں سے ہے۔ اس نظم میں انہوں نے دھرتی کے اندرپوشیدہ اندھے‘گہرے کھڈ‘پاتال اورلاوے کواپنے قلب وروح کے زخموں اوردل کی بے قراری سے تشبیہ دی“۔ اس باب کا ایک اور مضمو ن ریاض اختر ؔادیبی کی دوہا نگاری کافی اہمیت کا حامل ہے۔
اس کتاب کا آخری حصہ باب چہارم مجموعی قدرشناسی سے تعلق رکھتا ہے جس میں پہلا مضمون ریاست تلنگانہ کے ضلع محبوب نگر سے تعلق رکھنے والے ممتازادیب وشاعر ڈاکٹرقطب سرشار کے فکروفن سے متعلق ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹرقطب سرشار کا شخصی تعارف بہت ہی مختصر اََ پیش کیا گیا ہے لیکن ان کی شاعری کا ایک بھرپورجائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹرقطب سرشار کی شاعری سے متعلق مضمون نگار لکھتے ہیں ”کئی فکرانگیز اشعار قطب سرشار کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔ ان اشعار میں پیغام ہے‘درس ہے اور دعوت خود احتسابی ہے لیکن مکمل شعریات اور فنی حسن کے ساتھ فنی حسن وشعریات کوانہوں نے کہیں مجروح ہونے نہیں دیا۔ خطاب وبیان اور شاعری اور فن میں یہی تو فرق ہے۔ قطب سرشار کی شاعری تعمق ِ فکر اور تہداریت کی حامل ہے۔“اس باب کے دیگر دو مضامین‘ اسلمؔ مرزا: ہمہ جہت فن کار‘نثاراحمدکلیمؔ:صوفیانہ فکر کا حامل ادیب وشاعر،میں ان شخصیات کی مجموعی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخر میں مصنف کا شخصی تعارف بھی شامل کتاب ہے۔اس کتاب میں شامل مضامین کومصنف نے تحقیقی اعتبار سے مختلف حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے جس کی تفصیلات حوالہ جات میں دی گئی ہے۔ان مضامین کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقبول احمد کی تحقیقی وتنقیدی صلاحیتوں کا خوب انداز ہوتا ہے
اس کتاب کی اشاعت پرمصنف اور مرتب دونو ں کومبارک باد دی پیش کی جاتی ہے۔ یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے بھی کہ ان میں  جن اصناف سخن کو موضوع بناکر تحقیق وتنقید کے ذریعہ، غزل‘رباعی‘نظم کے نامور شعراء کی مجموعی قدر شناسی کی گئی ہیں۔ مقبول احمدمقبولؔ نے بڑی محنت سے اورتحقیق وتنقید کے بعدان مضامین کوعملی جامہ پہنایاہے۔ اس سے بڑی کوشش ان کے فرزندمحمد عظمت الحق نے انجام دی کہ اپنے والد کے مختلف موقعوں پرشائع ہونے والے مضامین کواخبارات ورسائل کے ذریعہ جمع کرکے انھیں ترتیب دئے کر ایک بڑا تحقیقی کام انجام دیاہے۔ جس پردونوں والد اورفرزند کوپھر ایک بار مبارک باد پیش کی جاتی ہے۔ امیدہیکہ مرتب کتاب محمدعظمت الحق اپنے ادبی ورثہ کو پیش نظررکھتے ہوئے ادبی میدان میں اپنی بہتر خدمات انجام دیں گے۔ 160صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت 160روپئے رکھی گئی ہے۔ جس کو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز دہلی نے شائع کیاہے۔ جو ہدیٰ بک ڈسٹربیوٹر پرانی حویلی حیدرآبادیا شعبہ اردو اودے گری کالج اودگیر مہاراشٹرا سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔







لیبلز:

بدھ، 13 مئی، 2020

فتح مکہ اسلامی تاریخ کی عظیم کامیابی



فتح مکہ اسلامی تاریخ کی عظیم کامیابی

ڈاکٹر عزیز سہیل،حیدرآباد
       ماہ رمضان المبارک میں جہاں اللہ رب العزت نے روزوں کو فرض کردیاوہیں انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے قرآن مجید کو بھی نازل فرمایا۔یہ ماہ مقد س اسلامی تاریخ کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے،اس ماہ مبارک میں اسلام اور کفر کی پہلی جنگ،”جنگ بدر“ ۱۷ رمضان۲ہجری کو ہوئی جس میں ۱یک ہزار مسلح افواج پر صرف ۳۱۳ اہل ایمان نے فتح پائی۔جو باطل پر حق کی فتح تھی۔جنگ بدر کی کامیابی کے 6سا ل بعد اسلامی تاریخ کی عظیم کامیابی فتح مکہ کی صورت میں اللہ نے مسلمانوں کو عطا کی۔20رمضان المبارک ۸ہجری کو اللہ رب العزت نے جنگ کے بغیر ہی مکہ کی فتح مسلمانوں کودی۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی جانب سے صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی خلاف وزری کئے جانے کے بعد مدینہ میں 10رمضان المبارک کو دس ہزار مسلمانوں کے لشکر کوجمع کیا اور مکہ کے لئے کوچ کیا،ابوسفیان نے فتح مکہ کے دن ہی اسلام قبول کیا۔فتح مکہ کے موقع پر ہی کعبہ کے بتوں کو منہدم کیا گیا۔
      ۵ہجری میں جو بڑی جنگ غزوہ احزاب(جنگ خندق)ہوئی اس کے دوسرے سال اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ 6ہجری میں خانہ کعبہ کی زیارت کا ارادہ فرمایا۔مکہ سے ہجرت کرکے 6سال کا وقفہ ہوچکا تھا،مسلمان میں مکہ کی زیارت کے لیے بے چینی پائی جاتی تھی، اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ 14سو مسلمان مکہ کی زیارت کے لئے چلنے تیار ہوئے۔اس بات کی خبر مشرکین قریش کو ملی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی زیارت کے ارداہ سے مکہ آنا چاہتے ہیں،انہوں نے مسلمانوں کو مکہ کی زیارت سے روکنے مکہ سے باہرجنگ کی تیاری شروع کردی۔اِدھر مدینہ سے اسلامی قافلہ مکہ کے لئے روانہ ہوا اورمکہ سے کچھ فاصلے پر حدیبیہ کے مقام تک پہنچ گیا۔حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین قریش کی جنگ کی تیاری کی اطلاع ملی آپ ؐ نے قریش کو پیام روانہ کیا کے ہم جنگ کے لئے نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے آرہے ہیں۔قریش نے اس بات سے انکار کیا اور مسلمانوں کو زیارت کا موقع دینے کے لئے تیا رنہیں ہوئے۔آپؐ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو صلح اور بات چیت کے لئے مکہ روانہ کیا، قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بات نہیں مانی اور انہیں مکہ سے واپس جانے نہیں دیا گیاوہیں روک لیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واپس نا آنے پر مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوگئی کس نے یہ خبر دی کہ مشرکین مکہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔اس خبر سے اسلامی قافلہ میں ان کے خون کا بدلہ لینے کی تڑپ پیدا ہوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تما م صحابہ رضی اللہ عنہا سے جنگ سے منہ نہ موڑنے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کی بات پر بیعت لی۔یہ بیعت تاریخ میں ”بیعت رضوان“ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
     اس بیعت سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔”اے نبیؐ،جولوگ تم سے بعیت کررہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کررہے تھے،ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا،اب جو اس عہد کو توڑے گااس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا اور جو اس عہد کو وفا کرے گا،جو اس نے اللہ سے کیا ہے اللہ عنقریب اس کو بڑا جر عظیم عطافرمائے گا۔(سورہ الفتح،آیت10)
     قبل اس کے جنگ ہواطلاع آئی کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ صلح کی شرائط کی بات کرکے واپس ہوچکے ہیں،چند شرائط پر صلح ہوئی۔ان میں یہ باتیں شامل تھی کہ اسلامی قافلہ مدینہ واپس جائے گا،اس سال زیارت کا موقع نہیں دیا جائے گا بلکہ مسلمانوں کو اگلے سا ل زیارت کے لئے آنا ہوگا اور صرف تین دن قیام کی اجازت رہے گی۔ہتھیار ساتھ نہ لائیں،مکہ میں موجو مسلمانوں کو مدینہ جانے کی اجازت نہیں ہوگی اگر کوئی کافر یا مسلمان مکہ سے مدینہ آئے تو اسے واپس بھیج دیا جائے اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ آئے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا،عرب قبیلے والوں کو اجازت ہوگی کے وہ مسلمانوں اور کافروں سے جس سے چاہے معاہدہ کرلیں۔اور یہ معاہدہ دس سال کے لئے ہوگا۔یہ وہ شرائظ تھی جس پر معاہدہ کیا گیا،معاہدہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کے یہ معاہد ہ تو پورا کا پورا مشرکین قریش کے منشاکے مطابق تھا جبکہ یہ مسلمانوں کے حق میں نہیں تھا۔
     بہر صورت صلح کی تکمیل ہوئی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر اپنی قربانیاں کرنے کا حکم دیا۔آپ ﷺ نے بھی قربانی کی اور بال منڈوائے۔اور تین دن قیام کے بعد مدینہ واپس ہوئے۔اس دوران صلح حدیبیہ سے متعلق سورہ فتح ناز ل ہوئی۔  انا فتحنالک فتحَامبینَا
سورہ فتح کی ابتدا ء میں کہا گیا کہ ”اے نبی ؐ،ہم نے تم کو کھلی فتح عطاکردی تاکہ اللہ تمھاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم اپنی نعمت کی تکمیل کردے اور تمھیں سیدھا راستہ دکھائے(سورہ الفتح،آیت ۱،۲)
        ان آیت میں صلح حدبیہ کے ساتھ فتح کی خبر دی گئی،حالانکہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات کھٹک رہی تھی کہ ہم نے تو مشرکین قریش کی شرائط کو تسلیم کرلیا۔پھر یہ کیسی کامیابی ہوئی،کامیابی کے اثرات تو فوری نظر نہیں آئے لیکن کچھ وقت کے بعد یہ بات عیاں ہوگئی یہ عہد تو واقعی کامیابی کا مژدہ تھا۔اس معاہدہ کا نتیجہ یہ ہوا کے مشرکین مکہ مدینہ آتے گئے مسلمانوں کے طرز زندگی،حسن اخلاق سے متاثر ہوکر جاتے تھے۔اس معاہدہ کے چندماہ میں ہی بہت سے کافروں نے اسلام قبول کیا اور اسلام کا دائرہ وسیع ترہوتا گیا۔یہ وہ فتح تھی جس کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
      معاہدہ کی ایک سال تکمیل کے بعدسات ہجری میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ کعبے کی زیارت کی۔اس دوران مشرکین مکہ نے طرح طرح سے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی۔قبیلے بنو بکر اور خزاعہ کی لڑائیاں بھی معاہدہ کی برقراری کے لئے مسئلہ بن گئی۔ان حالات کے پیش نظر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قاصد کو مشرکین قریش کے پاس روانہ کیا اور معاہدہ کا پاس و لحاظ رکھنے کو کہا اور ان کے سامنے تین باتیں رکھیں ”بنو بکر اور قریش خزاعہ کے جن لوگوں کو قتل کیا ہے ان کاخون بہا ادا کیا جائے،یا، قریش بنوبکر کی تائید نہ کریں،یا، پھر صلح حدیبیہ کو توڑ دیں“۔مشرکین قریش نے تیسری شرط قبول کی اور معاہدہ کو ختم کرنے کی بات کہی قاصد واپس آگیا۔لیکن ان کو اپنے اس فوری ااور غلط فیصلے پر ندامت ہوئی انہوں نے ابوسفیان کو اپنا سفیر بناکرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات قبول نہیں کی اور معاہدہ ختم ہوگیا۔
    حضرت محمد صلی علیہ وسلم نے ان سب حالات کے پیش نظر خانہ کعبہ جہاں برائیاں روزانہ بڑھ رہی تھی،مشرکین سے خانہ کعبہ کو حاصل کرنے کا ارادہ کیا اور جنگ کی تیاریوں کا آغاز کردیا جو قبیلوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہد ہ کیا تھا ان سے بھی شرکت کرنے کو کہہ دیا گیادیکھتے ہی دیکھتے تقریباََ دس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کی قیادت کی اور یہ لشکر ماہ رمضان المبار ک کی10تاریخ ہجرت کے آٹھویں سال مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوا۔
       مشرکین قریش کو اس لشکر کے کوچ کی اطلاع نہیں تھی تب تک اطلاع ملتی اسلامی لشکرمکہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔اس کی اطلاع پاکر ابو سفیان نے چھپ کر مکہ کے قریب اسلامی لشکر کا نظارہ کررہے تھے گرفتا کرلیے گئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلیم کے سامنے پیش کئے گئے۔ابوسفیان نے اسلام مخالف سرگرمیوں میں اہم کردارادا کیا تھالیکن اللہ کے رسول ﷺنے ان کی سب غلطیوں کومعاف فرمایا۔اور ابوسفیان کو چھوڑ دیا گیا لیکن وہ مکہ واپس نہیں ہوئے بلکہ اسلام کے دائرے میں شامل ہوگئے اور انہوں نے اسلام قبول کیا۔20رمضان المبارک ۸ہجری 629ء کو اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہوا اور بغیر جنگ کے مکہ  فتح ہوگیا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سالاروں کو حکم دیا کہ کس کو بھی قتل نا کیا جائے۔قریش کے چند ایک قبیلوں نے مزاحمت کی لیکن وہ ناکام ہوگئی،اس میں چند مشرکین قتل ہوئے اورباقی بھاگ نکلے۔اس موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ جو اپنے گھروں میں بندرہے اس کے لئے امن ہے،جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے اس کے لئے بھی امن ہے اور جو کعبہ میں چلا جائے اس کے لئے بھی امن ہے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں داخل ہوئے اور لوگوں کو اطمینان ہو گیا تو کعبہ کے پاس آئے اور اس کا طواف کیا۔ اثنائے طواف کعبہ کے ارد گرد موجود بتوں کو اپنے پاس موجود تیر سے گراتے اور پڑھتے جاتے: (ترجمہ: حق آن پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے) کعبہ میں بتوں کی تصویریں آویزاں اور ان کے مجسمے نصب تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بھی ہٹانے اور توڑنے کا حکم دیا جس کی تعمیل کی گئی، جب نماز کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال ابن رباح کو حکم فرمایا کہ کعبہ کے اوپر چڑھ جائیں اور اذان دیں؛ بلال کعبہ کے اوپر چڑھے اور اذان دی۔اور اللہ کے گھر جس کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کی تھی۔تمام بتوں سے پاک کردیا گیا۔مکہ میں اسلام کا پرچم لہرادیا گیا۔مکہ میں توحید کا نعرہ بلند ہوا۔اللہ کے رسول ﷺ نے تکبیریں کہیں کعبہ کا طواف فرمایااور نماز ادا کی۔مکہ کی فتح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تاریخی خطبہ دیا۔جس کاذکر احادیث میں آیا ہے۔  
  ایک اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے،کوئی اس کا شریک نہیں ہے،اس نے اپنا وعدہ سچا کیا،اس نے اپنے بندوں کی مدد کی اور تمام جتھوں کو تنہا توڑ دیا۔ہاں سن لو تمام مفاخر،تمام پرانے قتل اور خون کے بدلے اور تمام خوں بہا سب میرے قدموں کے نیچے ہیں صرف کعبے کی تولیت اور حجاج کو پانی پلانا اس سے مستشنیٰ ہیں۔اے اہل قریش! اب خدا نے جاہلیت کا غرور اور نسب پر فخر کرنا مٹادیا تمام لوگ،آدم ؑ مٹی سے بنے تھے،پھر قرآن کی آیت پڑھی۔لوگو! میں نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے سے پہچان لیے جاؤ،لیکن خدا کے نزدیک شریف وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔اللہ جاننے والا اور باخبرہے(سورہ حجرات۔۲۰)بحوالہ(ابوسلیم محمدعبدالحئ ،حیات طیبہ۔سید سلیمان ندوی،رحمت عالمﷺ)
   یہ تھا فتح مکہ کا واقعہ جو ماہ رمضان مبارک کی ۲۰تاریخ کو پیش آیا۔اس واقعہ سے ہم کو اس بات کا درس ملتا ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے۔آدمی کو صبر سے کام لینا چاہئے۔ فتح مکہ سے قبل صلح حدیبیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا پتہ دیتی ہے۔ آپ ﷺ نے آنے والے حالات کا اندازہ کیا تھا۔ اور قرآن میں بھی اللہ نے مسلمانوں کو فتح مبین کی بشارت دی تھی۔ جنگ بدر ہو کہ فتح مکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اطاعت الہی اور اطاعت نبوی ﷺ کی عظیم مثال پیش کی۔ جس کی وجہہ سے مسلمانوں کو ظاہری حالات کے خلاف فتح ہوئی۔ حضور اکرم ﷺ نے رسالت کے اعلان کے بعد دس سال جن قربانیوں سے مکہ میں آزمائش بھری زندگی گزاری اور اسلام کی دعوت دیتے رہے اور آپ کی دعوت پر نثار صحابہ کرام نے بھی بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ مدینہ ہجرت اور اسلام کی سربلندی اور فتح مکہ یہ وہ اسلامی واقعات ہیں جو رہتی دنیا تک دعوت دین کے ساتھ چلنے والے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں کہ مسلمان ہر حال میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کمر بستہ رہیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں علمائے حق کی سرپرستی میں دین کی دعوت کے فریضے کو انجام دیتے رہیں۔ اگر حق کی دعوت کے لیے بہت زیادہ دشواری ہو تو ہجرت کی سنت بھی ہے جس میں اللہ کی مدد کے وعدے ہیں۔ فی زمانہ عالم اسلام میں مسلمانوں کو سچی رہبری اور حکمت کے ساتھ دعوت دین کے فریضہ کو انجام دینے کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کے معمولات زندگی اور طرز عمل درست ہونا چاہئے۔جو وعدہ کیا گیا پورا کرنا چاہئے جب کوئی بات کریں سچ بولیں،ہماری باتوں میں ہمدردری انسانیت ہونی چاہئے۔اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں برداروطن میں پائی جاتی ہیں ان کا ازالہ حکمت اور محبت کے ساتھ کیا جائے۔ابنائے وطن کے دلوں میں جگہ بنائی جائے،لوگوں کو معاف کرنا سیکھیں اپنے عمل سے ایسا پیغام دیں کے لوگ متاثر ہوئے بغیر نا رہے پائیں۔
     ملک اور دنیا کے موجودہ حالات میں ہم کواللہ رب العزت پر توکل کرنے کی ضرورت ہے اس سے مدد طلب کرنے کی ضرورت ہے،ان حالات میں سب سے پہلے ہمار ے معمولات کا درست ہونا ضروری ہے ہمارا رویہ اور اخلاق درست ہونے چاہئے۔اللہ رب العزت ہم سب کو اسلام پر قائم رہنے،نمازوں کی پابندی کرنے،اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور دعوت دین کے پیغام کو بردان وطن میں عام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین 
          صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
    نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟            
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرےقرآنکو سینوں سے لگایاکس نے ؟ 
تھےتو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو ؟
          ہاتھ  پر  ہاتھ  دھرے  منتظر  فردا  ہو!                    (علامہ اقبالؒ)

لیبلز:

ہفتہ، 9 مئی، 2020

جنگِ بدر حق وباطل کا پہلا معرکہ


جنگِ بدر حق و باطل کا پہلا معرکہ

ڈاکٹر عزیز سہیل،حیدرآباد
            اسلام اور کفر کی پہلی جنگ کو تاریخ میں ”جنگ بدر“کے نام سے یادکیا جاتا ہے یہ جنگ غزوہ بدر کے نام سے مشہو ر ہے،جو 17رمضان المبار ک 13مارچ 624ء بروز جمعہ بدر کے مقام پر لڑی گئی یہ آپ ﷺ کی قیادت میں دین اسلام کی پہلی لڑائی تھی جس نے حق و باطل کے فرق کو واضح کردیا حالانکہ مشرکین قریش ایک ہزار نفری کے ساتھ جنگ میں شامل تھے، جن میں قریش کے نامور روساء شریک تھے۔جس کی قیادت ابو جہل کررہا تھا اور اسلامی لشکر میں 313مسلمان تھے جو خود اپنے رشتہ داروں سے نبرد آزما تھے جنگ کی کئی ایک وجوہات تھی جیسے مشرکین قریش کااہل مدینہ کو کعبہ کے طواف سے روکنا،مسلمانوں نے مکہ والو ں کے قافلے جو مدینہ سے ہوکر شام کو جاتے تھے روکا تھا، یہ تو وجوہات تھی ہی سب سے اہم وجہ صرف”دین اسلام“تھا اہل قریش کسی بھی حال میں ایک رب کی بندگی سے انکار کررہے تھے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کررہے تھے ان کو”دین اسلام“ کے مقابلہ میں اپنے آباواجداد کا دین پسند تھے اور وہ کسی بھی حال میں کفر کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے،وہ اسلام کا خاتمہ چاہتے تھے ان وجوہات کے درمیان ایک اہم واقعہ نے جنگ کے حالات پیدا کردئے وہ یہ کہ مشرکین قریش کا ایک تجارتی قافلہ جو شام سے مکہ واپس ہو رہا تھا اس قافلہ میں 50ہزار اشرفیوں کی قیمت کی مالیت کامال تھا۔اس قافلہ کے سرداری ابو سفیان تھے،جن کو اس بات کا خدشہ تھا کہ مدینہ کے قریب اس قافلے کو اہل مدینہ لوٹ لیں گے اس ڈرسے انہوں نے ایک قاصد کو فوری مکہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں سے مدد لے کر واپس آئے، اس قاصد نے مکہ جاکر ہنگامہ برپا کردیا کہ مسلمان ہمارے قافلے کو لوٹ رہے ہیں یہ سنناتھا، مشرکین نے فوری اایک ہزار افراد کا لشکر لے کر مسلمانوں کے خاتمے کے لئے جمع کیا اورجنگ کے لئے نکل پڑے،ان حالات کی حضور اکرم ﷺ کو اطلاعات مل رہی تھیں۔حضرت محمدﷺ نے مہاجرین اور انصار کی ایک فوج تیار کی جن کے پاس لڑائی کے لئے ساز وسامان بھی نہیں تھا جن میں صرف دو تین گھوڑے،70اونٹ اور 60صحابہؓ کے پاس زرہیں تھی۔چند تلواریں تھی ان کے مقابلہ میں کفار کا مسلح لشکر تھا جو پورے ساز وسامان سے لیس تھا،البتہ کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس خدا پر ایمان،نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت،دین اسلام کا جوش و جذبہ تھا یہی وہ یقین و اعتماد تھا جو فتح کا باعث بنا۔
            اس جنگ میں اسلامی لشکر کو فتح حاصل ہوئی،اسلامی لشکر کے چودہ مجاہدین نے شہادت پائی جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار شامل تھے،سب سے پہلے حضرت مجع ؓ نے شہادت پائی۔ کفاران مکہ کے لشکر سے 70لوگ مارے گئے جن میں ابوجہل بھی شامل تھا۔مشرکین قریش کے کئی آدمی قید کر لیے گئے۔اس جنگ کی کامیابی میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے آغاز سے قبل اپنے رب سے دعا مانگی جس کے نتیجہ میں اللہ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو روانہ کیا،جس کا تذکرہ قرآن مجید کی سورت الانفال کی آیت نمبر۷تا9 میں آیا ہے۔ 
           یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کررہاتھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمھیں مل جائے گا،تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمھیں ملے۔مگر اللہ کا ارداہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق حق ہوکر رہے اور باطل باطل ہوکر رہ جائے خواہ مجرموں کویہ کتنا ہی ناگوار ہو،او ر وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمھاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔
            جنگ بدر کی کامیابی سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حق حق ہے اور باطل باطل اور اللہ کا دین ہی غالب آنے والا ہے۔اس معرکہ نے مسلمانوں کی ذہنی تربیت میں کافی اہم رول ادا کیا۔مکہ والوں نے مسلمانوں کی آواز کو دبانے کی بہت کوشش کی،دعوت اسلامی سے روکابالاخر اللہ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کامیابی سے ہمکنار کیا۔
             بدر کے معرکہ میں کئی ایک واقعات پیش آئے جس کو کئی مصنفین نے اپنے کتابوں میں درج کیا ہے۔یہاں جنگ بدر سے متعلق دو واقعات کو پیش کیا جارہا ہے۔جنگ بدر میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہیں جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اس موقع پر اسلامی لشکر کے سالار حضرت محمد صلی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”لوگو اٹھواور اس جنت کی طرف لپکو جس کی وسعت زمین و آسمان سے بڑھ کر ہے جو پرہیز گار وں کے لیے بنائی گئی ہے۔یہ سن کر حضرت عمیر بن الحمام ؓنے آہ ِسرد بھری اور حسرت بھری آواز میں کہا۔کاش،میں بھی ان میں سے ہوتا،آنحضرت ؐ نے فرمایا۔تم بھی ان ہی میں سے ہو۔حضرت عمیرؓ جو کہ اپنی جھولی سے کھجوریں نکال کر بھوک کی شدت کو کم کررہے تھے،دفعتاََ ان کے ذہن میں خیال آتا ہے ”ان کھجوروں کو ختم کرنے کا انتظار کون کرے،یہ لمحات تو بہت طویل ہیں“۔اس خیال کے آتے ہی وہ کھجوریں پھینک دیتے ہیں اور تلوار لے کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں صفوں کی صفیں تہ و بالا کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرما لیتے ہیں۔“(کردار کے غازی،ص۱۶،۱۷)
            اس جنگ میں اسلامی لشکر میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی پیچھے نہیں تھے ایک واقعہ کو سراج الدین ندوی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے ”غزوہ بدر کی تیاریاں ہورہی ہیں مکہ کے مشرکوں نے مدینہ پر حملہ کی ٹھا ن رکھی ہے پیارے نبی ﷺ اپنے دفاع کے لیے اسلامی لشکر لے کر بدر کی طرف بڑھ رہے ہیں گیارہ بارہ سال کا ایک بچہ عمیر چھپ کر پیچھے پیچھے چل رہا ہے،بھائی کی نظر پڑتی ہے تو پوچھتے ہیں تم کیوں چھپ کر چل رہے ہو؟ بچہ جواب دیتا ہے مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر رسولِؐ خدا کی نظر مجھ پر پڑگئی تو وہ کم عمری کی وجہ سے مجھے واپس کردیں گے۔اور جہاد میں شرکت کی اجازت نہ دیں گے جبکہ میں اللہ کے راستے میں لڑنا چاہتا ہوں،چھوٹے بھائی کے یہ جذبات دیکھ کر بڑے بھائی کو مسرت ہوتی ہے۔اچانک حضور اکرامؐ کی نظر عمیر پر پڑتی ہے۔آپ ﷺ دیکھتے ہی واپسی کا حکم دیتے ہیں اور فرماتے ہیں ”اے بچے تم واپس جاؤ،جب بڑے ہوجاؤ گے تو لڑنے آنا“۔کیونکہ جنگ بچوں کا کھیل نہیں ہے،یہ تو بڑوں کے لیے بھی نہایت سخت اور مشکل ہے،یہ سن کر عمیر غم کی تصویر بن جاتے ہیں اور رو پڑتے ہیں،یہ دیکھ کر حضور اکرام ؐ کا دل بھر آتا ہے آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو تارے بن کر چمکنے لگتے ہیں اور اس بچہ کو جنگ میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمادیتے ہیں۔یہ نو عمر بچہ بڑی جانبازی سے لڑتا ہے اور جام شہادت نوش کرلیتا ہے۔“(کردار کے غازی،ص۹۲)
              بہر حال اس معرکہ سے ہم کو کئی باتوں کا سبق ملتا ہے۔حق کبھی بھی باطل کے مقابل میں غالب آتا ہے اس کے لئے آدمی کو صبر کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی اپنے رب سے مدد بھی مانگنی چاہئے۔ہمیشہ امتحان کی گھڑی میں ثابت قدم رہنا چاہئے۔یقین و اعتماد میں ہی کامیابی ہے،ایمان مضبوط ہونا چاہئے،شہادت کا بدلہ جنت ہے۔ صحابہؓاکرام نے ماہ رمضان میں بہ حالت روزہ جنگ میں حصہ لیااللہ کی مدد آئی اور فتح نصیب ہوئی،بدر کا پیغام یہی ہے کہ مومن اطاعت الہی،اطاعت نبی ؐ کواختیار کریں،حسب ضرورت اسباب کوبھی استعمال میں لائے لیکن ہر حال میں ہماری نظر اللہ پر رہنی چاہئے تو آج بھی اسباب کے خلاف اللہ کی مددمسلمانوں کے ساتھ مشروط ہے اور مسلمان ضرورباطل کے خلاف سرخ رو ہونگے انشاء اللہ۔
عزم محکم عطا کر خدایا حوصلوں کو نئی روشنی دے
بدر کی کامرانی میں تو ہے توہے خیبر میں عظمت کی دھارا
حق و باطل کے ہر معرکہ میں تو رہا غازیوں کا سہارا
آج بھی ہرطرف کربلا ہے ہم کو شبیر سے تشنگی دی 
سر اٹھائے ہیں ہر سو اندھیرے سب چراغوں کو اب روشنی دے


لیبلز: