تبصرہ:سخن شناسی مصنف: مقبول احمد مقبول






سخن شناسی(تنقیدی مضامین(
مصنف:ڈاکٹرمقبول احمدمقبول

مرتب: محمدعظمت الحق              
  مبصر: ڈاکٹرعزیزسہیل
جنوبی ہند کے ادبی منظرنامہ میں اپنی تحریروں کے حوالے سے ایک نام کافی مقبول ہوا ہےجس کواردودنیا مقبول احمدمقبول ؔکے نام سے جانتی ہے۔ مقبول احمدمقبولؔ کا تعلق پیشہ درس وتدریس سے ہے اور پچھلے تین دہوں سے شعروادب کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔تصنیف”سخن شناسی“دراصل مقبول احمد مقبول کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس کوان کے لائق فرزند محمدعظمت الحق نے بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔ اس کتاب کو قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی نے اپنی مالی اعانت سے شائع کیاہے۔
زیر نظر کتاب کو محمدعظمت الحق اپنی والدہ محترمہ کے نام معنون کیاہے۔موضوعات کے اعتبار سے اس کتاب کو جملہ چارابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے باب کو”غزل“کا عنوان دیاگیا ہے جس میں 8 مضامین شامل ہیں۔ جن کے عنوانات اس طرح ہیں،کلاسیکی ادب کا باکمال: شاعررشیداحمدرشید،شیخ الاسلام اختر کچھوچھوی کا رنگِ تغزل‘،ابن صفیؔ:بہ حیثیت شاعر‘، ابرارؔ نغمی کی غزلیہ شاعری پرایک نظر، صالح اقدار کا امین حبیب راحت حبابؔ،محفوظ اثرؔ کی غزل گوئی‘،شاعرِ دیدہ ور:حبیب سیفیؔ،قلندر صفت شاعر:عمراکرام۔
اس کتاب کا دوسرا باب ”رباعی“ کے عنوان سے شامل ہے جس کے تحت 5مضامین،اردورباعی کا ایک مسیحی شاعر:نامی ؔنادری‘ نادمؔ بلخی کی رباعی گوئی کا فنی محاکمہ‘ ممتازومنفرد رباعی گو:راشد آذرؔ‘ نامیؔ انصاری کی رعبایات کا تنقیدی جائزہ‘ شاہ حسین نہری: بحیثیت رباعی گو،شامل ہیں۔
زیر نظر کتاب کے باب سوم کو”نظم“کے عنوان سے شامل کیا گیاہے جومضامین اس باب میں شامل ہیں وہ یہ ہیں جدید ترنظم کا نمائندہ شاعر قاضی سلیم‘ ریاض اختر ؔادیبی کی دوہا نگاری‘ شاعر اطفال:حافظ ؔکرناٹکی‘ خوبصورت فکرواحساس کا شاعر:ڈاکٹر طاہر ؔرزاقی‘ عاجزؔ ہن گھن گھاٹی کی مذہبی شاعری۔
اس کتاب کے باب چہارم کو”مجموعی قدرشناسی“کا عنوان دیاگیا ہے۔ جن میں ڈاکٹرقطب سرشارؔ: فکروفن کے آئینہ میں‘ اسلمؔ مرزا: ہمہ جہت فن کار‘نثاراحمدکلیمؔ:صوفیانہ فکر کا حامل ادیب وشاعر،مضامین شامل ہیں۔
زیرنظر کتاب کے آغاز میں دیباچہ کے عنوان سے ایک”مضمون“ شامل ہے جس کو محمدعظمت الحق (مرتب)نے لکھا ہے۔ جس میں انہوں نے مقبول احمدمقبول کی علمی وادبی خدمات کاتذکرہ کیاہے ساتھ ہی مقبول احمد مقبول ؔکی شعروشاعری کے آغاز اوران کی تصانیف پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔مرتب کتاب نے اس تصنیف کی اشاعت میں آنے والی دشواریو ں کوبھی بیان کیا ہے۔ ڈاکٹرمقبول احمدمقبول ؔکی تحقیقی وتنقیدی صلاحیتو ں کے متعلق وہ لکھتے ہیں:”اللہ رب العزت نے ڈاکٹرمقبول احمدمقبول ؔکوتنقیدی وتحقیقی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔ اس لیے انہو ں نے خود کو صرف تخلیق شعر تک محدود نہ رکھا بلکہ تنقید وتحقیق وتجزیہ وتبصرے جیسے میدانو ں میں بھی اپنے اشہب قلم کودوڑایا۔ تنقید وتحقیق سے آپ کی ذہنی مناسبت اورگہری دلچسپی کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی پہلی کتاب جوشائع ہوئی ہے وہ شعری مجموعہ نہیں بلکہ پی ایچ.ڈی کے لیے لکھا گیاتحقیقی وتنقیدی مقالہ تھا“۔
اس کتاب میں شامل پہلے باب کا پہلا عنوان ”کلاسیکی غزل کا باکمال شاعر“ رشیداحمدرشیدؔ کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں رشیداحمدرشیدؔ کی شخصیت کا تفصیلی تعارف پیش کیاگیاہے اور ان کے فن شعرگوئی پر باریک بینی سے نظرڈالی گئی ہے اور ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیاگیاہے۔ اس متعلق مصنف مقبول احمد مقبول نے رشیداحمدرشیدؔ کوسچا فنکارقراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ”رشیداحمدرشید ایک سچے فنکار اوربلندمرتبہ سخن ورتھے۔ فکر کی تازگی‘تخیل کی بلندگی‘ فن کی پختگی‘ زبان کے لطف وبیان کے حسن کے اعتبار سے ان کی غزلیہ شاعری اور کلاسیکی شعری ذخیرہ میں ایک حسین اضافہ ہے۔ رشیداحمدرشیدؔ کی غزل میں وہ تمام فنی خصوصیات پائی جاتی ہیں جوبہترین غزل کا خاصہ رہی ہیں۔ اسلوب سادہ ہونے کے باوجود پرکار ہیں۔ کئی اشعار ایسے ہیں جو”از دلِ خیز دبردلِ ریزد“ کی شان کے حامل ہیں“۔اس باب میں شامل دیگر مضامین بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے انفرادیت رکھتے ہیں۔
اس کتاب میں شامل دوسرے باب رباعی کے تحت پہلا مضمون ”اردورباعی کا ایک مسیحی شاعر نامی ؔنادری“کے عنوان سے شامل ہے۔ اس مضمون کے ابتداء میں اردوزبان وادب کےارتقاء میں ادباء وشعراء کےخدمات کا تذکرہ کیا گیاہے۔ ساتھ ہی فورٹ ولیم کے حوالے سے ڈاکٹرجان گلگرکسٹ کی اردو کے فروغ میں کی گئی خدمات کاجائزہ لیاگیا ہے‘انجمن پنجاب کا تدکرہ بھی اس میں شامل ہے،ساتھ ہی آزاد ہند کے دوران اردو کے جومسیحی شعراء گذرے ہیں ان کے نام گرامی بھی شامل ہیں۔ اس مضمون میں نامی ؔنادری کا مختصر اََ تعارف دیاگیا ہے ساتھ ہی ان کی شعری وادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے فن کاجائزہ لیاگیاہے۔ اس متعلق مصنف کایہ خیال ہے کہ ”نامیؔ نادری کی رباعیوں کی ایک امتیازی خصوصیت ان کی بے پناہ روانی‘ سلاست‘حلاوت اور فنی پختگی ہے چوں کہ داغؔ اس اسکول سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے زبان کا لطف بھی محسوس کیاجاسکتا ہے۔ اوزان‘ مترنم اورمطبوعہ استعمال کیے ہیں“۔ اس باب میں شامل تما م ہی مضامین رباعی گو شعراء کے فن اور فنکاری کا اعلی نمونہ ہیں۔
زیرنظر کتاب کا باب سوم نظم کے عنوان سے شامل ہے جس کا پہلا مضمون ”جدید نظم کا نمائندہ شاعر قاضی سلیم“ہے۔ اس مضمون میں بھی حسب روایات مصنف نے اردوشاعری سے متعلق ایک تمہید باندھی ہے ساتھ ہی قاضی سلیم کی شاعری کاآغازو ارتقاء اوران کے فن کاتنقیدی جائزہ لیاہے۔ قاضی سلیم کی نظم گوئی سے متعلق ڈاکٹر مقبول احمد مقبول نے لکھا ہے ”قاضی سلیم کی تمام نظمیں (بہ استشنائے چند) علامتی اوراشارتی ہیں۔ نئے نئے استعارات اور نئی نئی تشبہیات سے انہو ں نے اپنی نظمو ں کوانفرادیت عطا کی ہے۔ ”دھرتی تیرا مجھ سا روپ“ ان کی شاہکارنظموں میں سے ہے۔ اس نظم میں انہوں نے دھرتی کے اندرپوشیدہ اندھے‘گہرے کھڈ‘پاتال اورلاوے کواپنے قلب وروح کے زخموں اوردل کی بے قراری سے تشبیہ دی“۔ اس باب کا ایک اور مضمو ن ریاض اختر ؔادیبی کی دوہا نگاری کافی اہمیت کا حامل ہے۔
اس کتاب کا آخری حصہ باب چہارم مجموعی قدرشناسی سے تعلق رکھتا ہے جس میں پہلا مضمون ریاست تلنگانہ کے ضلع محبوب نگر سے تعلق رکھنے والے ممتازادیب وشاعر ڈاکٹرقطب سرشار کے فکروفن سے متعلق ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹرقطب سرشار کا شخصی تعارف بہت ہی مختصر اََ پیش کیا گیا ہے لیکن ان کی شاعری کا ایک بھرپورجائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹرقطب سرشار کی شاعری سے متعلق مضمون نگار لکھتے ہیں ”کئی فکرانگیز اشعار قطب سرشار کے کلام میں پائے جاتے ہیں۔ ان اشعار میں پیغام ہے‘درس ہے اور دعوت خود احتسابی ہے لیکن مکمل شعریات اور فنی حسن کے ساتھ فنی حسن وشعریات کوانہوں نے کہیں مجروح ہونے نہیں دیا۔ خطاب وبیان اور شاعری اور فن میں یہی تو فرق ہے۔ قطب سرشار کی شاعری تعمق ِ فکر اور تہداریت کی حامل ہے۔“اس باب کے دیگر دو مضامین‘ اسلمؔ مرزا: ہمہ جہت فن کار‘نثاراحمدکلیمؔ:صوفیانہ فکر کا حامل ادیب وشاعر،میں ان شخصیات کی مجموعی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخر میں مصنف کا شخصی تعارف بھی شامل کتاب ہے۔اس کتاب میں شامل مضامین کومصنف نے تحقیقی اعتبار سے مختلف حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے جس کی تفصیلات حوالہ جات میں دی گئی ہے۔ان مضامین کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقبول احمد کی تحقیقی وتنقیدی صلاحیتوں کا خوب انداز ہوتا ہے
اس کتاب کی اشاعت پرمصنف اور مرتب دونو ں کومبارک باد دی پیش کی جاتی ہے۔ یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے بھی کہ ان میں  جن اصناف سخن کو موضوع بناکر تحقیق وتنقید کے ذریعہ، غزل‘رباعی‘نظم کے نامور شعراء کی مجموعی قدر شناسی کی گئی ہیں۔ مقبول احمدمقبولؔ نے بڑی محنت سے اورتحقیق وتنقید کے بعدان مضامین کوعملی جامہ پہنایاہے۔ اس سے بڑی کوشش ان کے فرزندمحمد عظمت الحق نے انجام دی کہ اپنے والد کے مختلف موقعوں پرشائع ہونے والے مضامین کواخبارات ورسائل کے ذریعہ جمع کرکے انھیں ترتیب دئے کر ایک بڑا تحقیقی کام انجام دیاہے۔ جس پردونوں والد اورفرزند کوپھر ایک بار مبارک باد پیش کی جاتی ہے۔ امیدہیکہ مرتب کتاب محمدعظمت الحق اپنے ادبی ورثہ کو پیش نظررکھتے ہوئے ادبی میدان میں اپنی بہتر خدمات انجام دیں گے۔ 160صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت 160روپئے رکھی گئی ہے۔ جس کو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز دہلی نے شائع کیاہے۔ جو ہدیٰ بک ڈسٹربیوٹر پرانی حویلی حیدرآبادیا شعبہ اردو اودے گری کالج اودگیر مہاراشٹرا سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے