فتح مکہ اسلامی تاریخ کی عظیم کامیابی



فتح مکہ اسلامی تاریخ کی عظیم کامیابی

ڈاکٹر عزیز سہیل،حیدرآباد
       ماہ رمضان المبارک میں جہاں اللہ رب العزت نے روزوں کو فرض کردیاوہیں انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے قرآن مجید کو بھی نازل فرمایا۔یہ ماہ مقد س اسلامی تاریخ کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے،اس ماہ مبارک میں اسلام اور کفر کی پہلی جنگ،”جنگ بدر“ ۱۷ رمضان۲ہجری کو ہوئی جس میں ۱یک ہزار مسلح افواج پر صرف ۳۱۳ اہل ایمان نے فتح پائی۔جو باطل پر حق کی فتح تھی۔جنگ بدر کی کامیابی کے 6سا ل بعد اسلامی تاریخ کی عظیم کامیابی فتح مکہ کی صورت میں اللہ نے مسلمانوں کو عطا کی۔20رمضان المبارک ۸ہجری کو اللہ رب العزت نے جنگ کے بغیر ہی مکہ کی فتح مسلمانوں کودی۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی جانب سے صلح حدیبیہ کے معاہدہ کی خلاف وزری کئے جانے کے بعد مدینہ میں 10رمضان المبارک کو دس ہزار مسلمانوں کے لشکر کوجمع کیا اور مکہ کے لئے کوچ کیا،ابوسفیان نے فتح مکہ کے دن ہی اسلام قبول کیا۔فتح مکہ کے موقع پر ہی کعبہ کے بتوں کو منہدم کیا گیا۔
      ۵ہجری میں جو بڑی جنگ غزوہ احزاب(جنگ خندق)ہوئی اس کے دوسرے سال اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ 6ہجری میں خانہ کعبہ کی زیارت کا ارادہ فرمایا۔مکہ سے ہجرت کرکے 6سال کا وقفہ ہوچکا تھا،مسلمان میں مکہ کی زیارت کے لیے بے چینی پائی جاتی تھی، اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ 14سو مسلمان مکہ کی زیارت کے لئے چلنے تیار ہوئے۔اس بات کی خبر مشرکین قریش کو ملی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی زیارت کے ارداہ سے مکہ آنا چاہتے ہیں،انہوں نے مسلمانوں کو مکہ کی زیارت سے روکنے مکہ سے باہرجنگ کی تیاری شروع کردی۔اِدھر مدینہ سے اسلامی قافلہ مکہ کے لئے روانہ ہوا اورمکہ سے کچھ فاصلے پر حدیبیہ کے مقام تک پہنچ گیا۔حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین قریش کی جنگ کی تیاری کی اطلاع ملی آپ ؐ نے قریش کو پیام روانہ کیا کے ہم جنگ کے لئے نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے آرہے ہیں۔قریش نے اس بات سے انکار کیا اور مسلمانوں کو زیارت کا موقع دینے کے لئے تیا رنہیں ہوئے۔آپؐ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو صلح اور بات چیت کے لئے مکہ روانہ کیا، قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بات نہیں مانی اور انہیں مکہ سے واپس جانے نہیں دیا گیاوہیں روک لیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واپس نا آنے پر مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوگئی کس نے یہ خبر دی کہ مشرکین مکہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔اس خبر سے اسلامی قافلہ میں ان کے خون کا بدلہ لینے کی تڑپ پیدا ہوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تما م صحابہ رضی اللہ عنہا سے جنگ سے منہ نہ موڑنے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کی بات پر بیعت لی۔یہ بیعت تاریخ میں ”بیعت رضوان“ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
     اس بیعت سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔”اے نبیؐ،جولوگ تم سے بعیت کررہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کررہے تھے،ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا،اب جو اس عہد کو توڑے گااس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا اور جو اس عہد کو وفا کرے گا،جو اس نے اللہ سے کیا ہے اللہ عنقریب اس کو بڑا جر عظیم عطافرمائے گا۔(سورہ الفتح،آیت10)
     قبل اس کے جنگ ہواطلاع آئی کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ صلح کی شرائط کی بات کرکے واپس ہوچکے ہیں،چند شرائط پر صلح ہوئی۔ان میں یہ باتیں شامل تھی کہ اسلامی قافلہ مدینہ واپس جائے گا،اس سال زیارت کا موقع نہیں دیا جائے گا بلکہ مسلمانوں کو اگلے سا ل زیارت کے لئے آنا ہوگا اور صرف تین دن قیام کی اجازت رہے گی۔ہتھیار ساتھ نہ لائیں،مکہ میں موجو مسلمانوں کو مدینہ جانے کی اجازت نہیں ہوگی اگر کوئی کافر یا مسلمان مکہ سے مدینہ آئے تو اسے واپس بھیج دیا جائے اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ آئے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا،عرب قبیلے والوں کو اجازت ہوگی کے وہ مسلمانوں اور کافروں سے جس سے چاہے معاہدہ کرلیں۔اور یہ معاہدہ دس سال کے لئے ہوگا۔یہ وہ شرائظ تھی جس پر معاہدہ کیا گیا،معاہدہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کے یہ معاہد ہ تو پورا کا پورا مشرکین قریش کے منشاکے مطابق تھا جبکہ یہ مسلمانوں کے حق میں نہیں تھا۔
     بہر صورت صلح کی تکمیل ہوئی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر اپنی قربانیاں کرنے کا حکم دیا۔آپ ﷺ نے بھی قربانی کی اور بال منڈوائے۔اور تین دن قیام کے بعد مدینہ واپس ہوئے۔اس دوران صلح حدیبیہ سے متعلق سورہ فتح ناز ل ہوئی۔  انا فتحنالک فتحَامبینَا
سورہ فتح کی ابتدا ء میں کہا گیا کہ ”اے نبی ؐ،ہم نے تم کو کھلی فتح عطاکردی تاکہ اللہ تمھاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم اپنی نعمت کی تکمیل کردے اور تمھیں سیدھا راستہ دکھائے(سورہ الفتح،آیت ۱،۲)
        ان آیت میں صلح حدبیہ کے ساتھ فتح کی خبر دی گئی،حالانکہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات کھٹک رہی تھی کہ ہم نے تو مشرکین قریش کی شرائط کو تسلیم کرلیا۔پھر یہ کیسی کامیابی ہوئی،کامیابی کے اثرات تو فوری نظر نہیں آئے لیکن کچھ وقت کے بعد یہ بات عیاں ہوگئی یہ عہد تو واقعی کامیابی کا مژدہ تھا۔اس معاہدہ کا نتیجہ یہ ہوا کے مشرکین مکہ مدینہ آتے گئے مسلمانوں کے طرز زندگی،حسن اخلاق سے متاثر ہوکر جاتے تھے۔اس معاہدہ کے چندماہ میں ہی بہت سے کافروں نے اسلام قبول کیا اور اسلام کا دائرہ وسیع ترہوتا گیا۔یہ وہ فتح تھی جس کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
      معاہدہ کی ایک سال تکمیل کے بعدسات ہجری میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ کعبے کی زیارت کی۔اس دوران مشرکین مکہ نے طرح طرح سے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی۔قبیلے بنو بکر اور خزاعہ کی لڑائیاں بھی معاہدہ کی برقراری کے لئے مسئلہ بن گئی۔ان حالات کے پیش نظر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قاصد کو مشرکین قریش کے پاس روانہ کیا اور معاہدہ کا پاس و لحاظ رکھنے کو کہا اور ان کے سامنے تین باتیں رکھیں ”بنو بکر اور قریش خزاعہ کے جن لوگوں کو قتل کیا ہے ان کاخون بہا ادا کیا جائے،یا، قریش بنوبکر کی تائید نہ کریں،یا، پھر صلح حدیبیہ کو توڑ دیں“۔مشرکین قریش نے تیسری شرط قبول کی اور معاہدہ کو ختم کرنے کی بات کہی قاصد واپس آگیا۔لیکن ان کو اپنے اس فوری ااور غلط فیصلے پر ندامت ہوئی انہوں نے ابوسفیان کو اپنا سفیر بناکرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات قبول نہیں کی اور معاہدہ ختم ہوگیا۔
    حضرت محمد صلی علیہ وسلم نے ان سب حالات کے پیش نظر خانہ کعبہ جہاں برائیاں روزانہ بڑھ رہی تھی،مشرکین سے خانہ کعبہ کو حاصل کرنے کا ارادہ کیا اور جنگ کی تیاریوں کا آغاز کردیا جو قبیلوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہد ہ کیا تھا ان سے بھی شرکت کرنے کو کہہ دیا گیادیکھتے ہی دیکھتے تقریباََ دس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کی قیادت کی اور یہ لشکر ماہ رمضان المبار ک کی10تاریخ ہجرت کے آٹھویں سال مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوا۔
       مشرکین قریش کو اس لشکر کے کوچ کی اطلاع نہیں تھی تب تک اطلاع ملتی اسلامی لشکرمکہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔اس کی اطلاع پاکر ابو سفیان نے چھپ کر مکہ کے قریب اسلامی لشکر کا نظارہ کررہے تھے گرفتا کرلیے گئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلیم کے سامنے پیش کئے گئے۔ابوسفیان نے اسلام مخالف سرگرمیوں میں اہم کردارادا کیا تھالیکن اللہ کے رسول ﷺنے ان کی سب غلطیوں کومعاف فرمایا۔اور ابوسفیان کو چھوڑ دیا گیا لیکن وہ مکہ واپس نہیں ہوئے بلکہ اسلام کے دائرے میں شامل ہوگئے اور انہوں نے اسلام قبول کیا۔20رمضان المبارک ۸ہجری 629ء کو اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہوا اور بغیر جنگ کے مکہ  فتح ہوگیا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سالاروں کو حکم دیا کہ کس کو بھی قتل نا کیا جائے۔قریش کے چند ایک قبیلوں نے مزاحمت کی لیکن وہ ناکام ہوگئی،اس میں چند مشرکین قتل ہوئے اورباقی بھاگ نکلے۔اس موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ جو اپنے گھروں میں بندرہے اس کے لئے امن ہے،جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے اس کے لئے بھی امن ہے اور جو کعبہ میں چلا جائے اس کے لئے بھی امن ہے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں داخل ہوئے اور لوگوں کو اطمینان ہو گیا تو کعبہ کے پاس آئے اور اس کا طواف کیا۔ اثنائے طواف کعبہ کے ارد گرد موجود بتوں کو اپنے پاس موجود تیر سے گراتے اور پڑھتے جاتے: (ترجمہ: حق آن پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے) کعبہ میں بتوں کی تصویریں آویزاں اور ان کے مجسمے نصب تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بھی ہٹانے اور توڑنے کا حکم دیا جس کی تعمیل کی گئی، جب نماز کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال ابن رباح کو حکم فرمایا کہ کعبہ کے اوپر چڑھ جائیں اور اذان دیں؛ بلال کعبہ کے اوپر چڑھے اور اذان دی۔اور اللہ کے گھر جس کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کی تھی۔تمام بتوں سے پاک کردیا گیا۔مکہ میں اسلام کا پرچم لہرادیا گیا۔مکہ میں توحید کا نعرہ بلند ہوا۔اللہ کے رسول ﷺ نے تکبیریں کہیں کعبہ کا طواف فرمایااور نماز ادا کی۔مکہ کی فتح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تاریخی خطبہ دیا۔جس کاذکر احادیث میں آیا ہے۔  
  ایک اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے،کوئی اس کا شریک نہیں ہے،اس نے اپنا وعدہ سچا کیا،اس نے اپنے بندوں کی مدد کی اور تمام جتھوں کو تنہا توڑ دیا۔ہاں سن لو تمام مفاخر،تمام پرانے قتل اور خون کے بدلے اور تمام خوں بہا سب میرے قدموں کے نیچے ہیں صرف کعبے کی تولیت اور حجاج کو پانی پلانا اس سے مستشنیٰ ہیں۔اے اہل قریش! اب خدا نے جاہلیت کا غرور اور نسب پر فخر کرنا مٹادیا تمام لوگ،آدم ؑ مٹی سے بنے تھے،پھر قرآن کی آیت پڑھی۔لوگو! میں نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے سے پہچان لیے جاؤ،لیکن خدا کے نزدیک شریف وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔اللہ جاننے والا اور باخبرہے(سورہ حجرات۔۲۰)بحوالہ(ابوسلیم محمدعبدالحئ ،حیات طیبہ۔سید سلیمان ندوی،رحمت عالمﷺ)
   یہ تھا فتح مکہ کا واقعہ جو ماہ رمضان مبارک کی ۲۰تاریخ کو پیش آیا۔اس واقعہ سے ہم کو اس بات کا درس ملتا ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے۔آدمی کو صبر سے کام لینا چاہئے۔ فتح مکہ سے قبل صلح حدیبیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا پتہ دیتی ہے۔ آپ ﷺ نے آنے والے حالات کا اندازہ کیا تھا۔ اور قرآن میں بھی اللہ نے مسلمانوں کو فتح مبین کی بشارت دی تھی۔ جنگ بدر ہو کہ فتح مکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اطاعت الہی اور اطاعت نبوی ﷺ کی عظیم مثال پیش کی۔ جس کی وجہہ سے مسلمانوں کو ظاہری حالات کے خلاف فتح ہوئی۔ حضور اکرم ﷺ نے رسالت کے اعلان کے بعد دس سال جن قربانیوں سے مکہ میں آزمائش بھری زندگی گزاری اور اسلام کی دعوت دیتے رہے اور آپ کی دعوت پر نثار صحابہ کرام نے بھی بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ مدینہ ہجرت اور اسلام کی سربلندی اور فتح مکہ یہ وہ اسلامی واقعات ہیں جو رہتی دنیا تک دعوت دین کے ساتھ چلنے والے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں کہ مسلمان ہر حال میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کمر بستہ رہیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں علمائے حق کی سرپرستی میں دین کی دعوت کے فریضے کو انجام دیتے رہیں۔ اگر حق کی دعوت کے لیے بہت زیادہ دشواری ہو تو ہجرت کی سنت بھی ہے جس میں اللہ کی مدد کے وعدے ہیں۔ فی زمانہ عالم اسلام میں مسلمانوں کو سچی رہبری اور حکمت کے ساتھ دعوت دین کے فریضہ کو انجام دینے کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کے معمولات زندگی اور طرز عمل درست ہونا چاہئے۔جو وعدہ کیا گیا پورا کرنا چاہئے جب کوئی بات کریں سچ بولیں،ہماری باتوں میں ہمدردری انسانیت ہونی چاہئے۔اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں برداروطن میں پائی جاتی ہیں ان کا ازالہ حکمت اور محبت کے ساتھ کیا جائے۔ابنائے وطن کے دلوں میں جگہ بنائی جائے،لوگوں کو معاف کرنا سیکھیں اپنے عمل سے ایسا پیغام دیں کے لوگ متاثر ہوئے بغیر نا رہے پائیں۔
     ملک اور دنیا کے موجودہ حالات میں ہم کواللہ رب العزت پر توکل کرنے کی ضرورت ہے اس سے مدد طلب کرنے کی ضرورت ہے،ان حالات میں سب سے پہلے ہمار ے معمولات کا درست ہونا ضروری ہے ہمارا رویہ اور اخلاق درست ہونے چاہئے۔اللہ رب العزت ہم سب کو اسلام پر قائم رہنے،نمازوں کی پابندی کرنے،اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور دعوت دین کے پیغام کو بردان وطن میں عام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین 
          صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
    نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟            
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرےقرآنکو سینوں سے لگایاکس نے ؟ 
تھےتو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو ؟
          ہاتھ  پر  ہاتھ  دھرے  منتظر  فردا  ہو!                    (علامہ اقبالؒ)

ایک تبصرہ شائع کریں

4 تبصرے

if you have any doubts.Please let me know