تلنگانہ میں اردو کا فروغ،مسائل اور امکانات


تلنگانہ میں اردو کا فروغ،مسائل اور امکانات

ڈاکٹر عزیز سہیل

    ریاست تلنگانہ میں تہذیب و تمدن کو فروغ دینے بھائی چارہ  ,یکجہتی اور امن و امان کے قیام کیلئے حکومت تلنگانہ منصوبہ بند طریقے سے عملی اقدامات انجام دئے رہی امید ہے کہ ہماری یہ ریاست جس سے متعلق ہم نے سنہرے تلنگانہ کا خواب دیکھا تھا ، اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے ۔ضرورت بھی ہے کہ ہم اس ریاست اور ملک کی ترقی کیلئے مل جل کر اتحاد و اتفاق اس ریاست اور ملک کی شیرازہ بندی میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں۔تلنگانہ میں تہذیب وثقافت کا فروغ بھی اہمیت کا حامل ہے۔حکومت تلنگانہ اقلیتوں کی ہمہ جہت ترقی اور اردو زبان کے و فروغ کے اقدامات کے سلسلہ میں سنجیدہ کوشش انجام دے رہی ہے ،اس سلسلہ میں اردو اکیڈیمی تلنگانہ کی خدمات بھی لائق تحسین ہے ،اکیڈیمی کے معزز چیرمین مولانا رحیم الدین انصاری صاحب اپنی صلاحیتوں سے فروغ اردو میں مسلسل سعی وجہد کررہے ہیں حالیہ دنوں اکیڈیمی کے تحت ریاست تلنگانہ کے مختلف محکمہ جات میں اردو آفیسرس کے تقررت عمل میں لائےگئےہیں ،ساتھ ہی گرمائی تعطیلات کے موقع پر ایک اختراعی پروگرام آؤ اردو سیکھیں ریاست بھر کے بیشتر مقامات پر چلائے گئے امید ہے کہ اس پرگرام کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں گے ،اکیڈیمی کی جانب سے ایک اور اختراعی پروگرام نسل نو کو اردو سے جوڑنے سے متعلق شروع کیا گیا وہ یہ بچوں کے لئے ایک رسالہ رو شن ستارے شائع کیا جارہاہے جو اکیڈٰیمی کا قابل دید اقدام ہے ۔ یہاں اردو بحیثیت زبان اول کے پڑھائی جارہی ہے ،حکومت کی جانب سے اردو اساتذہ کو بیسٹ اردو ٹیچر اورطالب علموں کو بیسٹ اردو اسٹوڈنٹ ایوارڈز بھی دئے جارہے ہیں جس سے کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش پر اردو اکیڈیمی کی جانب سے ہر سال یہ ایوارڈز پیش کئے جارہے ہیں۔ تلنگانہ میں اردوتہذیب کی بازیابی حکومت کا اولین مقصد اور پالیسی ہے تلنگانہ کے وزیر اعلی شری کے چندرا شیکھر راؤ ایک اردو دوست حکمران ہے وہ اکثر تقاریر اردو میں ہی کیا کرتے ہیں حتی کہ ان کی دختر شریمتی کے۔ کویتا سابق رکن پارلیمنٹ نظا م آباداور فرزندشری کے۔ ٹی آر بھی اردو زبان میں اچھی تقریر کرتے ہیں یہاں یہ بات بتانا مقصود ہے کہ جب تک اردو زبان کو سرکار ی سرپرستی حاصل نہ ہو اردو کو فروغ حاصل نہیں ہوگا میرا یہ مشاہد ہ ہے کہ پچھلی حکومتوں سے زیادہ تلنگانہ کی یہ نئی حکومت اردو کی ترقی کیلئے سنجید ہ ضرور ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے حکومت سے جو اردو زبا ن کے فروغ کی امید لگا رکھی ہے اس پر کہاں تک عمل ہوگا، تو اس کاآسان سا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ہم جب تک اردو کے فروغ میں سنجیدہ نہ ہوں اور حکومت کو اس کاز کیلئے متحرک نہ کریں تب تک تلنگانہ میں اردو کا فروغ ایک خواب ہی رہے گا اس کیلئے فالوآپ(یادہانی ) کا عمل لازمی ہے۔ تلنگانہ کے وزیر اعلی شری کے۔چندر شیکھر راؤنے تلنگانہ  میں اقلیتوں بالخصو ص مسلمانوں کیلئے 204 اقامتی اسکولس قائم کئے اور آئندہ پانچ برسوں میں دیڑھ لاکھ اقلیتی طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ اقامتی اسکولس گرچہ کہ ا نگلش میڈیم کے ہیں لیکن ان میں اردو اور دینیات کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔اردو بحیثیت زبان اول کے پڑھایا جارہا ہے،امید کے آئندہ چند سالوں میں اقلیتو ں  کی تعلیمی اور معاشی صورتحال حال میں ایک انقلاب بپا ہوگا اردوزبان تلنگانہ میں ایک طاقتور زبان کا درجہ رکھتی ہے اسے زندہ رکھنا ہر شہری کا فرض ہے۔
ڈاکٹر راجندر سچرنے اپنی رپورٹ سچر کمیٹی رپورٹ2005(شائع2006)میں مسلمانوں کی سماجی معاشی حالات کا جائزہ لیا ہے اور حکومت ہند کو سفارشات پیش کئے ہیں اپنی رپورٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے جبکہ موجوہ حالات اردو کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔اس زبان پر توجہ نہیں دی جاتی ،اردو بولنے والے بچے مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں ۔انہوں نے لکھا ہے کہ اردو کو جس طرح سے آئینی حیثیت حاصل ہے آئینی ذمہ داری کے تحت اردو زبان کو اہمیت دی جائے ۔ثانوی تعلیم کی سطح پر لسانی فارمولے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی اصلاح کی جانی چاہئے۔ملک میں اردو کے اعلی معیار کے اسکولس قائم کئے جانے چاہئے ۔اردورائج مختلف ریاستوں میں سرکاری اور سرکاری امدادیافتہ اسکولوں میں اردو کو اختیاری مضمون بنایا جانا چاہئے ۔سچر رپورٹ کے مطابق اردو ذریعہ تعلیم کی صورتحال اترپردیش،جھارکھنڈ،آندھرا پردیش اور بہار میں ابتر ہے ۔کرناٹک اور مہاراشٹرا میں ابتدائی سطح پر اردو میڈیم اسکولوں کی فراہمی بہتر ہے۔
    
حکومت تلنگانہ کی جانب سے مسلمانوں کی معاشرتی ،معاشی اور تعلیمی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مقررہ کرد ہ سدھیرکمیشن 2016نے اپنی رپورٹ میں اردو زبان کو ریاستی سطح پر دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے رواج دینے کی سفارش کی ہے ساتھ ہی اردو زبان کی عمل آواری سے متعلق موثر اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔اس رپورٹ میں اردو کی عمل آواری سے متعلق کہا گیا ہے کہ حکومت اپنی تمام تر اسکیمات کے مواد کو اردو میں شائع کرے ۔مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ انگریزی اور تلگو کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی حکومت کے تمام محکمہ جات کے سائن بورڈس کو بھی لکھا جائے ۔حکومت کی اسکیمات سے متعلق جیسے آنگن واڑی ،صحت عامہ پر رہنمایانہ کتابوں کو اردو میں شائع کروانے کی سفارش کی گئی ہے ۔اردوذریعہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی سفارش کی گئی ہے ساتھ ہی حکومت کے مختلف محکموں میں اردو مترجموں کے تقررا ت عمل میں لانے کی سفارش بھی کی گئی تھی ۔
    
ریاست حیدرآباد میں آصف سادس میر محبوب علی خان کے دور میں اردو کو سرکاری زبان کا موقف حاصل ہوا اور ریاست حیدرآباد میں اردو زبان کے ایک نئی عہد کا آغاز عمل آیا۔26اپریل 1917ء کو نواب میر عثمان علی خان اردو کی پہلی جامعہ ۔جامعہ عثمانیہ کے قیام کا اعلان کیا۔یہ سارے ہندوستان میں اردو ذریعہ تعلیم کی پہلی یونیورسٹی تھی۔یہ علاقائی یونیورسٹی ہے،جو تلنگانہ میں قائم کی گئی تھی ۔۔عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے کوئی81 سال بعد مرکزی حکومت نے حیدرآباد میںمولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا 1998ء میںقیام عمل میں لایا۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا قیام ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت 1998ء میں عمل میں آیا۔یہ یونیورسٹی بھی تلنگانہ میں قائم ہے ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے قیام کا مقصداردو زبان کی ترقی اور فروغ ہے۔نیزِ فاصلاتی و َروایتی طرز میں اردو ذریعہ تعلیم میں تکنیکی و پیشہ ورانہ تعلیم فراہم کرنا ہے۔ ہندوستان بھر سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے یہاںآتے ہیں۔ریاست تلنگانہ میں اردو ذریعہ تعلیم کے بہت سے مواقع دستیاب ہیں دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں یہاں اردو کے اسکولس، جونیئرکالجس،ڈگری کالجس اور یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے بہترین مواقع دستیاب ہیں۔اگر اعلی تعلیم کی سطح پر تلنگانہ میں اردو کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو تلنگانہ کے 31اضلاع میں جملہ 130ڈگری کالجس قائم ہیں جن میں قریباََ 20ڈگری کالجس میں اردو ذریعہ تعلیم کی سہولت دستیاب ہے۔جہاںصرف 3000طلبہ زیر تعلیم ہے۔دیگر خانگی کالجس میں بھی اردو میڈیم کے کورسس کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ڈگری کی سطح پر مزید نئے کالجس کے قیام کی ضرورت ہے ساتھ ہی لیکچرارس کے تقرارت بھی لازماََ ہونے چاہئے،یہاں ہمیں بھی اردو کے طالب علموں میں شعور کو بیدار کرنا ہوگا اور حکومت پر نمائندگی کے ذریعے اردو کالجس کے قیام اور ان کے مسائل کے حل کیلئے نمائندگی ہونی چاہئے۔تلنگانہ میں تقریبا َ 400گورنمنٹ جونیئر کالجس ہیں جن میں 65کالجس میں اردو ذریعہ تعلیم کے مواقع دستیاب ہیں۔اس کے علاوہ تقریباََ 1500خانگی کالجس بھی قائم ہیں یہاں بھی اردو میڈیم کے مزید نئے کالجس کے قیام اور ان کالجس میں اردو میڈیم کے اساتذہ کے تقرارت کیلئے بھی نمائندگی ہونی چاہئے۔
    
تلنگانہ کے اسکولوں میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اردو تدریس کاتشفی بخش انتظام ہے،بورڈآف سکینڈری ایجوکیشن سے ملحقہ اسکول،بورڈ آف انٹر میڈیٹ کے تحت چلنے والے جونئیر کالجس،کمشنر آف کالجیٹ ایجوکشن کی جانب سے چلائے جانے والے ڈگری کالجس اور عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد،کاکتیہ یونیورسٹی ورنگل،تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد،ستاواہنا یونیورسٹی کریم نگر ،حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں بھی اردو ذریعہ تعلیم کا نظم ہے۔ان کے علاوہ پالمورو یونیورسٹی محبوب نگر،مہاتماگاندھی یونیورسٹی نلگنڈہ میں ابھی اردو کا شعبہ قائم نہیں ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے ادراے اور انجمنیں اپنی نمائندگیوں کے ذریعے اردو کے شعبہ کے قیام کیلئے کوشش کریں۔یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ایم اے اردو،سیاسیات،تاریخ،نظم ونسق،معاشیات،سماجیات،سو شیل ورک،ویمنس اسڈیز،ترجمہ
ماس کمیونکیشن،اسلامک اسٹڈیز،کامرس،ایم بی اے،ایم ایڈ اور ایم ایس سی، میتھامیٹکس میں اردو ذریعے تعلیم کے بہتر مواقع دستیاب ہیں،ساتھ ہی ایم فل اور پی ایچ ڈی میں بھی داخلہ کیلئے مواقع دستیاب ہیں۔اس سنٹرل یونیورسٹی میں ریاست تلنگانہ کے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ داخلے حاصل کرنے کیلئے بھی شعور بیدار کرناضروری ہے۔اردو کی تاریخ میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اردو کی جامعہ حیدرآباد میں قائم کی گئی ہے۔
    
تلنگانہ میں اردو کے فروغ و اشاعت میں اردو انجمنوں کا کافی اہم کردار رہا ہے ۔آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد یہاں کی انجمنوں نے اردو کی شمع کو جلائے رکھا ہے،ان میں ادارہ ادبیات اردو کو اولیت حاصل ہے اس کے علاوہ بھی اردو کی انجمنیں اور ادارے اپنے اپنے منصوبوں کے تحت اردو کے فروغ میں نمایاں کردار انجام دئے رہے ہیں۔تلنگانہ میں حیدرآباد کے بعد محبوب نگر اور نظام آباد میں اردو کا خاصا ماحول پایا جاتاہے اردو کی ترقی و بقا کے لئے ادبی ماحول کو برقرار رکھنا بھی وقت کا یک اہم تقاضہ ہے ۔
    
تلنگانہ کی حکومت نے اردو زبان اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے اقدامات کے منصوبے بنائے ہیں نصاب تعلیم میں قطب شاہی اور آصف جاہی حکمرانوں کی تاریخ کو شامل کرنے کی سعی کی جاری ہے ریاستی حکومت کا یہ منصوبہ ہے کہ ' تمام سرکاری ' خانگی اور کارپوریٹ اسکولوں میں اردو کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے گا۔ ریاست تلنگانہ کے یوم تاسیس کی مسرت میں محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے ہر سال تہذیبی و ادبی پروگرامس،مشاعرے وسمینار منعقدکئے جارہے ہیں۔ہندوستان میں ریاستی اردو اکیڈیمیز میں سب سے بڑا بجٹ تلنگانہ کی اردو اکیڈیمی کا ہے' اکیڈیمی کی کئی اسکیمات ہیں جن میں تصانیف شعری مجموعوں کی اشاعت پر مالی تعاون،کتابوں پر انعامات،کتابوں کی خریداری،شاعروںو ادیبوںکو ادبی خدمات پر ایورڈز، اساتذہ اور طلبہ کو بہتر کارکردگی پر ایورڈز،چھوٹے اخبارات کو مالی تعاون،اردو کی انجمنوں کو ادبی سرگرمیوں کی انجام دہی پر مالی تعاون، اردو اسکولوں کیلئے انفراسٹکچر کی فراہمی ،مدرسہ کے طلبہ کیلئے کمپیوٹرس کی فراہمی بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ اردو اکیڈیمی کی جانب سے ماہنامہ قومی زبان کی پابندی سے اشاعت بھی جاری ہے اور اردو اکیڈیمی کی جتنی بھی اسکیمیں ہیں ان میں ہر اسکیم پر صد فیصد عمل کیا جارہا ہے۔ تلنگانہ اردو اکیڈیمی انتہائی فعال اور کارکرد ہے اور ملک بھر میں اس کا رول انتہائی اہم ہے۔
    
تلنگانہ میں اردو صحافت کی تاریخ تقریباَ100سال پرمحیط ہے یہاں اردو صحافت کا آغاز آصف الاخبار سے ہوتا ہے ۔آزادی سے قبل یہاں سے رہبر دکن شائع ہوا کرتاتھااس کے علاوہ ابتدائی دور میں مشیر دکن ،پیام ،سلطنت وغیرہ نے اردو کی ترقی میں کافی اہم رول ادا کیا۔حسن فر خ مرحوم نے آزادی سے پہلے اور بعد اردو خبارات کی اشاعت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ''آزادی سے پہلے اور پچیس تیس سال تک اردو اخبارات کی تعداد اشاعت حیدرآباد میں کچھ زیادہ نہیں تھی مگر ان کے قارئین کی تعداد بہت زیادہ تھی،حالانکہ خواندگی کا تناسب کچھ زیادہ نہیں تھا۔ان دنوں ہر محلے کی ہر ہوٹل میں ،چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو تمام اردو اخبارات آتے تھے۔اور لوگ وہاں گھنٹوں بیٹھ کر انھیں پڑھ لیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ صبح کی اولین ساعتوں سے رات دیر گیے تک جاری رہتا تھا۔ہر اردو اخبار کے دفتر کے پاس دیوار پر لوہے کے فریموں میں اخبارات چسپاں کر دیے جاتے تھے اور وہاں دن بھر اخبار پڑھنے والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اس وقت تمام اردو اخبارات کی مجموعی تعداد اشاعت لگ بھگ تیس ہزار رہی ہوگی۔ مگر ان کے پڑھنے والوں کی تعدادتین لاکھ سے زیادہ ہی رہی ہوگی۔ مگر اب جب کہ اردو اخبارات کی مجموعی تعداد اشاعت دیڑھ لاکھ سے زیادہ ہوگی ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بھی لگ بھگ دیڑھ لاکھ ہی ہوگی۔(اردو صحافت کا عملی پہلو،مژگان نیوز ڈاٹ نیٹ)
    
تحریک آزادی کے بعد جو اردو صحافت ابھری تھی وہ اب روبہ زوال ہے۔ جہاں تیس سال پہلے چار اخبارات کا علیٰحدہ علیٰحدہ سرکیولیشن لاکھ سوا لاکھ سے زیادہ تھا اب وہاں چھ اخبارات کا مجموعی سرکیولیشن دیڑھ لاکھ سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اردو پڑھنے والے اور اردو اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ تلنگانہ میں حیدرآباد کے علاوہ نظام آباد،محبوب نگر، عادل آباد، کریم نگر،ورنگل سے بھی اردو اخبارات کی اشاعت عمل جاری ہے۔
    
بہر حال اس مختصر مضمون میں تلنگانہ میں اردو کی صورتحال کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔معلومات کے ساتھ ساتھ اردو کے فروغ کے سلسلہ میں چند تجاویز کو بھی یہاں اختصار سے بیان کیا جارہا ہے۔
اردو کے فروغ ونفاذ کی چند تجاویز:
٭ تلنگانہ میں اردو زبان کے نفاذ کے لئے اردو کی انجمنوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت ریاست بھر میں اردو کے نفاذ کے لئے راہ ہموار کی جائے ۔
٭تلنگانہ  میں نئے اردو اسکولوں کے قیام کیلئے حکومت تلنگانہ سے نمائندگی ہونی چاہئے اور ان اسکولوں میں اساتذہ کے تقرارت اور انفراسٹکچرکی فراہمی کا بھی مطالبہ ہو۔
٭تلنگانہ میں نئے گورنمنٹ جونیئر و ڈگری کالج کے قیام اور اساتذہ کے تقررات اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا مطالبہ بھی ہو۔
٭تلنگانہ میں قائم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اعلی تعلیم کے حصول کیلئے اردو میڈیم کے طلبہ اور اولیا طلبہ میں شعور کو بیدار کرنابھی لازمی و ضروری ہے۔تلنگانہ کے اردو طلبہ اور اسکالرس کو اردو اکیڈیمی کی جانب سے اسکالرشپ فراہم کی جائے ۔
٭ تمام سرکاری دفاتر ،اسکولس،کالجس ،بازاروں میں اردو سائن بورڈ ز اردو میں لگائے جائیں۔
٭ اردو اکیڈیمی کے تحت تربیت مرکز کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے تحت ملازمتوں کی فراہمی کی رہنمائی بھی کی جانی چاہئے۔
٭اردو کے ادارے اور انجمنوں کو اردو میڈیم اسکولوں اور کالجوں بند ہونے سے بچانے اور فروغ دینے کیلئے ایثار وقربانی اور جہد مسلسل سے کام لینا ہوگا۔
٭حکومت سے اردو اکیڈیمی کے بجٹ میں مزید اضافہ کیلئے مطالبہ کیا جانا چاہئے۔
٭تلگو اکیڈیمی میں جسطرح تلگو کی نصابی کتابیں شائع کی جاتی ہیں اسی طرح ،اردو اکیڈیمی سے اردواسکول،کالجس اور ڈگری کالجس کی نصابی کتابیں شائع کی جائےں۔اس کا بھی مطالبہ ہو۔
٭ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں اردو کے شعبہ کو قائم کیا جائے اور تمام سرکاری اشتہارات اردو اخباروں کو ترجمہ کر کے دیے جائیں۔
٭ اردو اکیڈیمی تلنگانہ کی جانب سے نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے اور طالب علموں کے اندرصلاحیتیں کے فروغ کے لیے اردو شعر وادب کی تربیتی ورکشاپ منعقد کئے جائیں۔
ئ    ٭آج کی یہ صدی سائنس و ٹکنالوجی کی صدی ہے اردو زبان و ادب کو ٹکنالوجی سے جوڑنے کے سلسلہ میں اکیڈیمی کی جانب سے اردو سافٹ ویرس کو متعارف کروایا جانا چاہئے،ساتھ ہی اردو ٹکنالوجی کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے خصوصی مہمات کا بھی انعقاد عمل میں لایا جانا چاہئے۔
    
مجموعی مطالعہ کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ تلنگانہ میں اردو کی موجودہ صورتحال بہت بہتر ہے ۔مگر ضرورت ہے کہ اس میں مزید بہتری لائی جائے اس سلسلہ میں ہمارا کرداربھی اہمیت کا حامل ہے۔
        ''
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی''            

نوٹ:یہ مضمون2019ئ میں لکھا گیا تھا۔جو مختلف رسائل میں بھی شائع ہوا ہے ۔

٭٭٭٭


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے