افاداتِ زورؔ



افاداتِ زورؔ

مرتب: سیدرفیع الدین قادری

مبصر : ڈاکٹر عزیز سہیل


    جنوبی ہندوستان میں عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام اور اردو ذریعہ تعلیم کے آغاز نے اردو زبان و ادب کو پختہ بنیادیں فراہم کی ہیں، جس کی بناء پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اردو کی عمر میں یونیورسٹی کے قیام سے صدیوںکا اضافہ ہوا ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے وابستہ چند نابغہ، شخصیات میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کی خدمات لائق تحسین ہے اور ناقابل فراموش بھی ہےں،ڈاکٹر زور کایہ عظیم کارنامہ ہے کہ جب اردوکو سرکاری زبان کا درجہ حاصل رہااور اردوکوآصف جاہی حکمرانوں کی سرپرستی حاصل تھیں،ایسے دور میںڈاکٹر زور ؔنے اردو کی ترقی اور فروغ کے منصوبے بنائے اور بنیادی کام کا آغاز کیا اور اپنی تنظیمی صلاحیتوں سے افراد کو جوڑا ،ان کے سامنے کام کی اہمیت وافادت کوبیان کیا ،انہوں نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے جس سے ان کی شخصیت اردو دنیا میں زندہ جاوید ہوگئی۔    
    ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ کے لائق و فائق فرزند سید رفیع الدین قادری نے''افادات زورؔ''کے عنوان سے تین جلدوں پر مشتمل حوالہ جاتی تصنیف مرتب کی ہے ،سید رفیع الدین قادری کو تصنیف و تالیف کا ہنر وراثت میں ملا ہے وہ ادب کا اعلی ذوق رکھتے ہیں انہوں نے ڈاکٹرزور کے زمانے طالب علمی سے لے کر آخر ی عمر تک کے سینکڑوں مضامین، تبصرے،مقدمات، دیباچے اور خطبات کو محفو ظ رکھا جو کسی کارنامے سے کم نہیں۔سید رفیع الدین قادری نے ''مضامین زورؔ ''کی دو جلدیں2008ء میں اردو اکیڈیمی کے مالی تعاون سے شائع کی،جو اردوحلقوں میں خوب پسند کی گئی ''افادات زورؔ''جس کی رسم اجرائی 13مارچ 2016ء کو سالار جنگ میوزیم حیدرآباد میں بہ دست جناب سید تراب الحسن پنجتن عمل میں آئی۔
''افادات زورؔ''جلد اول میںخطبات،مقدمات،دیباچے اور پیش لفظ شامل ہیں،جلد دوم میںدکنیات:تاریخ و تمدن زبان وادب کو شامل کیا گیا ہے اور جلد سوم(آخری جلد ) میںتنقید و تبصرے شامل ہیں۔''افادات زورؔ''کا پیش لفظ نامور نقادڈاکٹر محمد ضیا الدین شکیب نے رقم کیا ہے،وہ ڈاکٹر زورؔ کی عالمی حیثیت کو متعین کرتے ہوئے رقمطراز ہیں؎
    ''دکنی ادبیات کی بازیافت اور عالمی طور پردکنےات کے مطالعے کے فروغ کا سہراڈاکٹر زور ہی کے سر جاتا ہے،دکنیات کے علاوہ معاصر اردو علوم و ادب پر ان کی گہری نظر تھی ۔افاداتِ زورؔ معاصر اردو مطبوعات پر ڈاکٹر زور کے تبصروں،دیباچوں ،پیش لفظ۔تقریظات کے علاوہ ان کے خطبات ،مقدمات ،دیباچے اور پیش لفظ کا مجموعہ ہے جس کو ان کے لائق فرزند اور میرے عزیز دوست جناب سید رفیع الدین قادری نے نہایت سلیقے سے مرتب کیا ہے۔''
    ''افادات زورؔ''کے آغاز میںاپنے''تاثرات'' بیان کرتے ہوئے سید رفیع الدین قادری لکھتے ہیں''زورؔصاحب کثیرالتصانیف ادیب و محقق تھے،اس لئے ان کا کام مختلف موضوعات پر رہا۔تمام تحریروں کو یکجا کرنا کھٹن مرحلہ تھا جہاں تک ممکن ہوسکا آپ کی تمام تحریریں یکجا کی گئیں ،اس کام کے لئے کافی تگ و دو کرنی پڑی ،بعض کتابیں تو عنقا ہوچکی ہیں،جو کتابیں نہیں ملیں ان کو والد صاحب کے مسودوں و تحریروں سے یکجا کرنا پڑا جو مرے ہاں محفوظ ہیں''۔
    زیر نظر کتاب کے پہلی جلد میں ،12خطبات 19,مقدمات،51دبیاچے اور 7پیش لفظ کو شامل کیا گیا ہے۔خطبات کے تحت جن 12 خطبات کو شامل کیا گیا ہے ان میں قابل ذکر''خطبہ صدارت،یو م اقبال،جوگیشوری اسمعیل کالج ممبئی28اگسٹ 1938''،خطبہ صدارت ''بزم اردو'' جامعہ عثمانیہ 24فروری 1941ئ،خطبہ صدارت اردو کنونشن برہان پور 29ڈسمبر1957ء و دیگر شامل ہے۔ڈاکٹر زورؔ ایک اچھے قلم کار کے ساتھ ساتھ ایک اعلی خطیب بھی تھے اللہ رب العزت نے بہت سی خوبیاں ان کی شخصیت میں پنہاںکردی تھی وہ اپنی مخاطبت سے لوگوں کا دل جیت لیا کرتے تھے، ان کی تقریر کا ہی اثر تھا کہ لوگوں میں ایک تحریک بپا ہوجاتی اور وہ عملی کام کی طرف متوجہ ہوجاتے۔خطبہ صدارات،یو م اقبالؔ،جوگیشوری اسمعیل کالج ممبئی28اگسٹ 1938''کے خطاب میں علامہ اقبال سے متعلق اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے فرمایاکہ''اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ قدرت نے ان کو ایک الہامی شاعر پیدا کیا تھاان کے کلام کو تصنع،تکلف،یا کسی قسم کی بناوٹ سے کوئی تعلق نہ تھا،اگر ان کی شاعرانہ زندگی کے ارتقاء پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ شروع سے آخر تک ایک فطرتی تسلسل موجود ہے کہیں کوئی مبالغہ،آدرد یا فطرت سے بر گشتگی نظر نہیںآتی،شاعر اپنے زمانے کی پیدوار اور اپنے ماحول کا ترجمان ہوتا ہے اور یہہ مقولہ جتنا اقبالؔ پر صادق آتا ہے شائد کسی اور شاعر پر آسکے''(ص٢٢)
    ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ؔاپنی ذات میں کئی خوبیوں اور انتظامی صلاحیتوں کی حامل رہے،وہ ایک عظیم وبلند پایہ نقاد،محنتی محقق،ماہر دکنیات وصوتیات اور لسانیات تھے۔ان کے عظیم کارناموں میں ایک ادبی تحریک ادارہ ادبیات اردو کا قیام ہے جو 85سالوں سے ادب کے خزانے لوٹا رہا ہے۔
    ''افادات زورؔ''کی دوسری جلد میں دکنیات ،تاریخ و تمدن ،زبان و ادب کو موضوع بنایا گیا ہے جس کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد ضیا الدین شکیب نے رقم کیا ہے۔تاثرات کے تحت اپنی بات مرتب سید رفیع الدین قادری نے لکھی ہے البتہ تعارف کو پروفیسر محمد علی اثر نے پیش کیا ہے۔جس میں ''افادات زورؔ''کی جلد دوم پر نظر ڈالی گئی ہے ۔پروفیسر محمد علی اثر ؔلکھتے ہیں''پیش نظر کتاب افاداتِ زورؔ'' دکنیات جلد دوم جس میں طویل مقالے بھی ہیںاور مختصر مضامین بھی ان میں سب سے اہم مضمون ''گولکنڈہ میں اردو ادب ''ہے اس کے کچھ اجزاء جیسے ''قطب شاہی عہد''،''دکن کا شعری ادب''،اور محمد قلی قطب شاہ عہد ابن خاتون اور ابن نشاطی بھی بڑے اہم ہیں۔ بہ نظر ِغائر مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر زور ؔ گولکنڈہ کے شعر و ادب پرایک علاحدہ کتاب شائع کرنا چاہتے تھے،لیکن کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا،اگرچہ زور ؔصاحب نے اپنی کتاب دکنی ادب کی تاریخ میں ایک باب گولکنڈے کے اردو ادب کے عنوان سے شائع کیا تھا لیکن اس کتاب میں اتنی تفصیل کی گنجائش نہیں تھی''(ص١٣)
    ''افادات زورؔ'' کی دوسری جلد میں تاریخ و تمدن کے تحت 20 مضامین اورزبان و ادب کے تحت 26مضامین شامل ہیں جن کے اہم عنوانات اس طرح ہیں۔عہد بہمنی(١٣٥٠تا١٥٢٥)،قطب شاہی عہد،حیدر آباد کے عاشور خانے،بھاگ متی اور بھاگ نگر،شہر حیدرآباد: اردو کے علمی و ادبی مرکز دکن،بہمنی ادب،بیچا پوری ادب ،مشاہیر گولکنڈہ،عہد ابن خاتون و نشاطی ،ولی اورنگ آبادی وغیر شامل ہیں۔
    ''افادات زورؔ''کی تیسری جلد میں 51موضوعات کے تحت 350سے زائدکتابوںو رسائل پر تنقیدی تبصرے شامل ہیں جن میں ادبی تنقید،جیون چرتر،دنیائے افسانہ ،فلسفہ عجم ،متاع اقبال،کلیات بحری،قابل ذکرہیں ساتھ ہی جن رسائل پرتبصرے شامل ہیں ان میںشہاب، الموسی،آئینہ ادب ،ارشاد، خلیق،آج کل،ساقی ،ادب لطیف ،البلاغ، ادبی دنیا،نقوش ،ساقی،ہمایوں راہی ودیگرشامل ہیں۔
    ''افادات زورؔ'' کی تیسری جلد میں شامل ''ادبی تنقید'' پر ڈاکٹر زور ؔصاحب رقمطراز ہیں۔''لٹریچر انسانی زندگی کی تفسیر ہے،پر عظمت زندگیوں کے حالات اور سوانح زندگی اکثر ان کی بائیوگرافی اور سوانح عمریوں سے معلوم کیے جاتے ہیںلیکن خود مصنف کا قلم اس کی تصنیفات میں جو اس کا کامل مرقع کھینچتا ہے وہ حقیقی اور اصلی ہوتا ہے ۔دوسروں کے قلم صرف اس کے ظاہری خد و خال کا خاکہ کھینچ سکتے ہیں،لیکن قلب کی گہرائیوں میں جو رموز و اسرار مضمر ہیں ان کی تصویر کشی کے لیے جو رنگ درکار ہیںان دوسروں کو میسر آنا دشوار ہے جب کسی کتاب کا آپ مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ مصنف کی ذاتیات غیر مضمر طور پر اس میں اپنی جھلکیاں دکھارہی ہیں گویا تصنیف ایک آئینہ ہے جس میں مصنف مع اپنی قلبی گہرائیوں کے نظر آجاتا ہے''(ص٢٧)    
بہر حال ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ،افسانہ نگار،تنقید نگار،ادبی مورخ،سوانح نگار،ماہر لسانیات،ماہر صوتیات،ماہرمخطوطات شناس،مکتوب نگار،محقق،شاعر،خطیب،مبصرکی حیثیت سے اردو دنیا میں اپنی پہچان بنائی کہ اردو دنیا ان کے عظیم ادبی کارناموں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ڈاکٹر زور ؔکا شمار دنیا کی ان قابل قدر شخصیتوں میں ہوتا ہے جو خود کار فعال اور دوسروں کو حرکت و عمل پر آمادہ و تیار کرتے ہیں۔
    اپنے گردوپیش کے حالات و واقعات سے آگاہ و باخبر معاشرتی اور سماجی ضرورتوں خصوصاََ علمی وادبی مصرفیات سے ایک عالم کو متاثر کرتی ہیں۔ڈاکٹر زورؔ کی ادبی خدمات کے سلسلے میں ہندوستان بھر کی مختلف یونیورسٹیوں میں ان پر تحقیقی کام ہوا ہے اور ہو رہاہے۔اردو کے رسائل نے بھی اپنا حصہ ادا کرتے ہوئے خصوصی گوشے شائع کئے ہیں ۔    ''افادات زورؔ'' کو مرتب کر کے سید رفیع الدین قادری نے اردو ادب پر ایک عظیم احسان کیا ہے تو دوسری جانب اپنے والد محترم کی اردو خدمات کو اردو حلقوں میں دوبارہ روشناس کروایا ہے۔ خصوصاََ ''افادات زورؔ'' ان لوگوں کیلئے بھی اہمیت کی حامل ہیں جو دکنیات پر عبور حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان لوگوں کیلئے بھی جو ڈاکٹر زور پر تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ سید رفیع الدین قادری اگر کسی یونیورسٹی کے تحت یہ کام انجام دیتے تو انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل ہوجاتی ۔ بہر حال سید رفیع الدین قادری صاحب کو اس عظیم اور اہمیت کے حامل تحقیقی کام کیلئے مبارکباد پیش کی جاتی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر زور ؔ صاحب کی شخصیت کے دیگر پہلووں کو بھی وہ اپنی تحریروں سے اردو حلقوں میں روشناس کروائیں گے۔
    ''افادات زورؔ''کی پہلی جلد 500روپئے،دوسری جلد550 روپئے اور جلد سوم 450روپئے رکھی گئی ہے جو ڈاکٹر زو ر فاونڈیشن ،سوماجی گوڑہ، حیدرآباد یا ایوان اردو پنجہ گٹہ روڈ سوماجی گوڑ ہ حیدرآباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔''افادات زورؔ'' ڈاکٹر زور فاونڈیشن اور ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس نئی دہلی کی پیش کش ہے۔9246528932فون نمبرپرربط بھی کیا جاسکتا ہے۔        ٭٭٭٭٭

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے