عہد ساز افسانہ نگاراقبال متینؔ



عہد ساز افسانہ نگاراقبال متینؔ
ڈاکٹر عزیز سہیل
رات خواب میں ہم نے اپنی موت دیکھی تھی
اتنے رونے والوں میں تم نظر نہیں آئے
(اقبال متین)
    جناب اقبال متین 5مئی 2015ء کی صبح9بجے اس دارفانی سے رخصت کر گئے۔اقبال متین ؔ اردو ادب کا ایک بڑا نام تھا ،وہ ہند وپاک کے ممتاز افسانہ نگار تھے جنھوں نے اپنے فن کی بدولت نام کمایا تھا۔دراصل ان کا انتقال اردو والوں کے لئے ایک بڑا نقصان ہے شائد کے پھر کوئی اردو کا ایسا جیلہ پیدا ہویا نہ ہو۔
    اقبال متینؔ اردو ادب کے ایک نامور افسانہ نگار ،شاعر، خاکہ نگاراور ناول نگار ہیں ان کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتاتھا وہ اردو افسانہ نگاری میں ایک منفرد اور امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ اقبال متینؔ کی شخصیت نے نہ صرف ہندوستان، پاکستان بلکہ عالمی سطح پر اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔انہوںنے اپنے افسانوں کے ذریعہ تاریخ کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو ہمارے اردو ادب کے سرمایہ میں اضافہ کا باعث ہیں جن کی تحریروں کے مطالعہ سے زندگی کی حقیقتوں کی وضاحت ہوتی ہے اور ساتھ ہی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے قاری کو واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
    اصل نام سید مسیح الدین( اقبال متین)ؔ2/فروری1929ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔والد کانام سید عبدالقادر ناصر اور والدہ کانام سیدہ آصفیہ بیگم تھا۔ انہوں نے انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم حاصل کی۔ اقبال متینؔ کو بچپن سے ہی ادبی ماحول میسر آیا۔اقبال متینؔ کے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے ہوتاہے لیکن انہوںنے شاعر سے زیادہ افسانہ نگار کی حیثیت سے مقبولیت کی منزلیں طئے کی ہیں لیکن ان کی شخصیت صرف افسانوں کے حد تک محدود نہیں رہی بلکہ شعر و شاعری میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ اقبال متین کی پہلی نظم ''کب تلک'' 1942ء ماہنامہ سب رس حیدرآباد میں شائع ہوئی تھی ایک اور نظم ''کیوں'' جو کہ جون1942ء میں ماہنامہ ''ارم'' میں شائع ہوئی۔ 1942ء میں ایک نظم ''تین پیکر''ماہنامہ سب رس حیدرآباد میں شائع ہوئی۔ بہرحال اقبال متین پہلے شاعر ہیں بعد میں افسانہ نگار۔ ان کی پہلی کہانی ''چوڑیاں'' جو ''ادب لطیف'' لاہور میں جون 1945ء کو شائع ہوئی۔ رسالہ''ادب لطیف'' لاہور کے مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جو اردو افسانے کے صف اول کے لکھنے والوں میں امتیازی خصوصیت رکھتے تھے اور یہ رسالہ بھی اس دور کے اہم رسالوں میں اپنی منفرد پہچان بنائے ہوئے تھا۔ گویا کہ اقبال متین کی کہانی کا اس رسالہ میں شائع ہونا ان کے لئے تو ایک اعزاز سے کم نہ تھا اور ساتھ ہی ان کے مستقبل کے لئے ایک سند بھی حاصل ہوگئی تھی ۔''ادب لطیف'' کے بعد ان کی کہانیاں''ادبی دنیا'''' نیادور''اور ''افکار'' میں شائع ہونے لگی تھیں۔
     اقبال متین ؔکا شمار بھی اردو کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتاہے وہ ایک لمبے عرصہ سے اردو افسانہ نگاری کے ذریعہ اردو ادب کے فروغ میں اپنا نمایاں رول اداکررہے تھے۔ اقبال متین ؔنے اپنے افسانوں کے اسلوب کی انفرادیت اور رومانی انداز کے ذریعہ اپنی منفرد پہچان بنائی ہے ان کے افسانوں کا انداز خود نوشت کا ساہے۔
    مخدوم ؔمحی الدین اقبال متین کی افسانہ نگاری کی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
    ''اقبال متین اپنے گردوپیش کی زندگی سے واقعات اور کردار چنتا ہے ۔ قدرت بیان اور تیز قوت مشاہدہ کی مدد سے ان میں ایسا رنگ بھرتا ہے کہ معمولی واقعات اور کردار غیر معمولی دلکش بن جاتے ہیں۔'اجنبی'،'ملبہ'،'گریویارڈ'،'گرتی دیواریں'،'بیمار'اور دام ہر موج اس کی بے شمار کامیاب اور مشہور کہانیوں میں سے چند ایسی کہانیاں ہیں جن میں زندگی کے حسن اور اس کی ڈھکی چھپی قباحتوں اور فرد، سماج کی کشمکش کی نقاشی اور پردہ کشائی بڑی چابک دستی سے کی گئی ہے۔ اس کی کہانیاں سماجی ناانصافیوں سے نفرت، ہمدردی اور زندگی سے پیار کرنا سکھاتی ہے۔'' ١؎
    زندگی کے گہرے مشاہدے اور انسانی فطرت نفسیات کے عمیق مطالعہ نے ان کے افسانوں میں پختگی اور گہرائی پیدا کردی ہے ۔ اقبال متین پچھلے 5دہوں سے زائد عرصہ سے افسانے لکھ رہے تھے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہمیں نظر آتاہے اور ساتھ ہی افسانوں کااسلوب بہت ہی سہل اور اثر انداز ہوتاہے اب تک ان کے 7سے زائد افسانوں کے مجموعہ شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں جن میں اجلی پرچھائی1960ئ، نچا ہوا البم 1973ئ، خالی پٹاریوں کا مداری1977ء ، آگہی کے ویرانے 1980ئ، مزبلہ1989ء ، میں بھی فسانہ تم بھی کہانی 1993ء ، شہر آشوب2003 ء قابل ذکر ہیں۔
    اقبال متین کے تمام افسانوں کو بہت زیادہ مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ''اقبال متین کے افسانے'' کے عنوان سے انہوں نے اپنے(7)افسانوی مجموعوں سے 62افسانوں کومنتخب کرکے ایک کتابی شکل دی ہے جو سنہ 2009ء میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے ۔ اقبال متین کے فن پر ہندوستان اور پاکستان کے معتبر رسالوں نے اپنے خصوصی گوشے شائع کئے ہیں جن میں قابل ذکر''ماہنامہ صبا حیدرآباد1958ء ''، ماہنامہ سب رس حیدرآباد1990ئ، ماہنامہ سب رس حیدرآباد1995ء ، ماہنامہ قومی محاذ اورنگ آباد اکتوبر2004ء ، ماہنامہ حیات دہلی اپریل2006ء اور سہ ماہی بادبان کراچی 2010ء قومی زبان حیدرآباد،اکٹوبر 2012ء اور ماہنامہ تمہید نظام آباد،جنوری 2013 قابل ذکر ہیں۔
    ان افسانوں کے مجموعوں اور مختلف رسالوں کی خصوصی اشاعتیں اقبال متین ؔکے فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار ہے۔
    اقبال متین کے نظریہ سے متعلق سلیمان اریب لکھتے ہیں:
''اقبال متین فکر کے لحاظ سے رومانی اور عقیدے کے لحاظ سے ترقی پسند ہے لیکن وہ ادب میں کسی ازم کا قائل نہیں۔ اس کا خیال ہے کہ ادب کو پہلے ادب ہونا چاہئے پھر سب کچھ اور جو اچھا ادب ہوگا وہ کسی رنگ کا ہوتے ہوئے بھی سب کے لئے قابل قبول ہوگا۔ اس میں درد مندی بھی ہوگی اور انسان دوستی بھی اور ا س میں غم ذات سے لے کر غم کائنات تک ہر غم کیلئے گنجائش ہوگی۔ اگر ادب کی متذکرہ بالا تعریف کی تائید میں اقبال متین کی کوئی کہانی پیش کی جائے تو آپ کو اس میں اچھے ادب کی بہت سی خوبیاں مل جائیں گی۔٢؎
     اقبال متین کی کہانیاں اورافسانے اپنے مواد ، فن اور تکنیک وانداز بیان کے اعتبار سے اردو افسانوی ادب کا قیمتی سرمایہ ہے ۔
اقبال متین کا شعری مجموعہ ''صریر جاں'' 2006ء میں شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے ۔    اقبال متین نے افسانے، شاعری کے علاوہ ناول، خاکے، مضامین بھی لکھے ہیں۔ ان کا ناول ''چراغ تہہ داماں1976ئ'' ، ''سوندھی مٹی کے بت1995ئ''(خاکے)، ''باتیں ہماریاں''2005ء (یادیں)، ''اعتراف وانحراف2006ئ''(مضامین )، ''اجالے جھروکے میں 2008ء ''(مضامین ) شائع ہوکر مقبول عام ہوچکے ہیں۔
     اردو میں کسی معروف شاعر یا ادیب پر لکھی گئی تنقیدی کتابوں کو یکجا کرکے کتابی شکل دینے کی راویت بھی اب عام ہونے لگی ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش اتر پردیش سے طارق سعید نے کی ہے اور انہوں نے ''چراغِ تہہ ِداماں۔ تفہیم و تعبیر'' کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے ۔جس میں بر صغیر کے نامور افسانہ نگار اقبال متین کے ایک شاہکار ناولٹ '' چراغ تہہ داماں'' پر اردو ناول کے اہم نقادوں اور اردوادب کے نامور ناقدین کے تنقیدی مضامین شامل کیاہے۔ ان مضامین کے مطالعے سے قاری کو اقبال متین ؔکے اس متنازعہ سمجھے جانے والے ناولٹ پر اردو تنقید کے مختلف اسالیب کی روشنی میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔اقبال متینؔ اردو کے صف اول کے افسانہ نگار کے طور پرادب کی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔لیکن وہ ایک اچھے شاعر،خاکہ نگاراورناول نگار بھی ہیں۔ اوروہ پچھلی نصف صدی سے زائد عرصہ سے اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ناول کے فن کے ٹہراؤ کے زمانے میں انہوں نے ''چراغِ تہہ ِداماں'' جیسا ناول لکھا جو 1976ء میں شائع ہوا ۔ اور اردو کے ادبی حلقوں میں اپنے منفرد اور متنازعہ موضوع کے سبب مشہور ہوگیا۔     
    اقبال متینؔ کا ادبی سفر نصف صدی سے زائد عرصہ پر مشتمل تھا انہوںنے اس لمبے عرصہ میں اپنے افسانوں اور شاعری کے ذریعہ اردو ادب خاص کر ہندو پاک میں بہت مقبول ہونے والی شخصیت کا اعزاز حاصل کیا ۔ اقبال متینؔ کے فن پر مختلف اداروں کی جانب سے انہیں ان کی ادبی خدمات پر مختلف ایوارڈس و سند عطا کئے گئے جن میںمولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ،2009ء اترپردیش اردواکیڈیمی،مخدوم محی الدین ایوارڈ،2003ء آندھراپردیش اردو اکیڈیمی،غالب ایوارڈ(برائے اردو نثر)2010ء غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی،سنگت شکاگو ایوارڈ،2005ء حلقہ ارباب ذوق شکاگو،بسٹ اردو اسکالر ایوارڈ،2000ء پٹی سری راملو تلگویونیورسٹی ،اعترافِ ادبی خدمات ایوارڈ،1993ء آندھراپردیش اردو اکیڈیمی شامل ہیں۔
ہم ایک عظیم افسانہ نگار 'ناول نگار'ادیب و شاعر اور ان سب سے بڑھ کر ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگئے۔
انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔اللہ ان کی مغفرت فرماے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرماے۔     میں بھی جہاں سے اس طرح اٹھ جاؤں گا متینؔ
        جس طرح ترک رکھ کے اٹھا ہوں کتاب میں
                
                ٭ ٭ ٭
حوالہ:
١ؔ؎ مخدوم ؔمحی الدین،سرورق، اجلی پرچھائیاں1960ئ
٢؎سلیمان اریب ،دیباچہ،اجلی پرچھائیاں1960ئ

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے