تبصرہ اور تبصرہ نگاری


\

تبصرہ اور تبصرہ نگاری

ڈاکٹر عزیز سہیل
    فیروز اللغات کے مطابق تبصرہ کے معنٰی تصریح ۔تفصیل اور توضیح کے ہیں،اردو لغت ڈاٹ انفو میں تبصرہ کے معنٰی (لفظاََ) کسی کو کوئی چیز دکھانا، (مجازاً) کسی بات کے متعلق اظہار رائے، بصیرت کا اظہار۔'اردو لغت ڈاٹ انفو پر تہذیب الا خلاق کا یہ اقتباس بھی دیا گیا ہے'تبصرہ کے معنی عیب و صواب دکھانے کے ہماری زبان میں ہو سکتے ہیں۔'' مزید معنٰی کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ کسی کتاب یا رسالے وغیرہ کو پڑھ کر اس کی خوبی یا خامی کے بارے میں رائے دینا۔
تبصرہ (رویو) سے مراد کسی تخلیق ، تالیف یا فن پارے وغیرہ پر ایسی رائے کا اظہار ہے جس میں مذکو رہ چیز کی خوبیوں اور خامیوں کا فنی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا۔ تبصرہ زبانی بھی ہوسکتا ہے اور مطبوعہ صورتوں میں بھی۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں تبصرے کی تعریف کچھ یوں متعین کی گئی ہے:''تبصرہ کسی کتاب یا کسی اور فن پارے پر مطبوعہ جائزے کا نام ہے۔ یہ ایسا مطبوعہ مواد ہوتا ہے جس میں تازہ ترین واقعات ، نئی کتابوں اور دوسرے فنون کی نئی تخلیقات ، واقعات وغیرہ پر مضامین شائع کیے جاتے ہیں اور اس کی اشاعت وقفے وقفے سے ہوتی ہے۔''
Webster ڈکشنری میں تبصرے کی تعریف اس طرح بیا ن کی گئی ہے :''تبصرہ کسی مطبوعہ مواد ،ڈرامائی پیش کش، نمائش یا کسی اور واقعے یا موضوع کے تجزیاتی و تنقیدی جائزے کا نام ہے جو کہ عام طور پر کسی اخبار یا رسالے میں طبع ہوتاہے''۔
    پروفیسر مجید بیدار نے تبصرہ کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:عربی زبان کے لفظ ''بصر'' سے وجود میں آنے والی تراکیب ''تبصرہ'' نہ صرف مذکر لفظ کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہے ،بلکہ کسی زمانہ تک اس کا استعمال تصریح،تفصیل اور توضیح کے لیے استعمال ہوتا رہا ،لیکن عصر حاضر میں ایک خاص انداز کی تحریر کو تبصرہ نویسی کی حیثیت سے شناخت کیا جانے لگا۔اردو میں تبصرہ نگاری کی روایت انگریزی ادب سے پروان چڑھی ۔تبصرہ کے متبادل لفظ کے لیے انگریزی میں
Reviewجیسی ترکیب کا استعمال عام ہے''١؎
    اردو ادب میں تبصرہ نگاری انیسویں صدی عیسوی سے فروغ پائی اس سے قبل دیباچہ کا رواج بھی عام تھا ۔تبصرہ اور دیباچہ دو مختلف صنف ہیں دیباچہ دراصل کتاب کی اشاعت سے قبل کسی مشہور قلمکار ،ادیب سے لکھوا کرکتاب میں شامل کیا جاتا ہے۔جس کا مقصد یہ ہوتا ہےکہ ادیب و ناقدین کتاب پڑھ کر تبصرہ لکھے تاکہ کتاب اشاعت میں ان کی رائے کو شامل کیا جائے ۔جس کے ذریعے نہ صرف کتاب اور مصنف کو متعارف کیا جاتا ہے بلکہ کتاب کے نمایاں خدو خال کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے۔لیکن عصر حاضر میں رپورتاژ نگاری کی اہمیت میں کافی اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ یہ صدی سائنس وٹکنالوجی کی صدی قرار دی گئی اور مزید یہ کہ اس صدی کو ترقی کی صدی بھی کہا جارہا ہے چونکہ انسانی تاریخ میں اس سے زیادہ ترقی کسی اوردور میں نہیں ہو پائی تھی ۔ٹکنالوجی کے زیر اثر صحافت یعنی پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا (ذرائع ابلاغ ) کی ترقی کی بھی راہیں ہموار ہوئی ہیں اور صحافت کی اہمیت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں عوام کے لیے روازنہ وقفہ وقفہ سے معلومات،رہنمائی اور تفریح کا سامان مہیا کیا جاتا ہے ،ان مختلف پروگرام اور مضامین میں تبصرہ نگاری کو بھی شامل کیا جاتا ہے چاہے وہ کتابوں پر تبصرہ ہوا یا فلمی دنیا کی شخصیت یا پھر کوئی سیاستداں،بزنسس مین کی شخصیت ہو یا کوئی پروڈاکٹ اس سے متعلق باقاعدہ طور پر تبصرہ شائع یا نشر کیا جاتا ہے،عالمی سطح پر تبصرہ نگاری کے فن کو خوب مقبولیت حاصل ہورہی ہے ،مغربی ممالک میں تبصرہ نگاری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔سائنس و ٹکنالوجی کے اس عہد میں لوگوں کی توجہ اب اخبارات اور ٹیلی ویژن سے ہٹ کر انٹر نٹ پر مرکوزہوچکی ہے لیکن وہاں بھی ای اخبارات اور یو ٹیوب چینل نے اپنی اچھی جگہ بنالی ہے ایسے میں تبصرہ نگاری کی اہمیت میں بھی خاصاََ اضافہ ہوا۔کتابوں اور رسائل پر تبصرہ ہر آئے دن شائع ہوتے رہے ہیں ہر نئی کتاب کی اشاعت پر کوئی نہ کوئی تبصر ہ اخبارات میں ضرور شائع ہوتا ہے ،مختلف اخبارات کے ادبی ایڈیشن میںپورے اہتمام کے ساتھ تبصرے شائع ہوتے ہیں ہر اخبار کا اپنا معیار ہوتا ہے اسی حیثیت سے ان میں شائع ہونے والے تبصروں کی بھی علحدہ اہمیت ہوتی ہے۔فلمی دنیا میں بھی ہر آنے والی نئی فلم پرتبصرہ ٹی وی پر نشر کیے جاتے ہےں جس سے فلم کی اہمیت اور مقصد سے عوام واقف ہوتے ہیں اور اس فلم کو دیکھنے کے لیے ان کے اشتیاق میں اضافہ ہوتا ہے ۔تبصرہ صحافت کا ایک لازمی عنصر ہے ۔تبصرہ ہر ہونے والی تبدیلیوں سے عوام کو واقف کرواتا ہے اردو ادب میں بھی تبصرہ نگاری اپنی جداگانہ اہمیت رکھتی ہے۔
    محمد اسلم ڈوگر نے تبصرہ اور تبصرہ نگاری کی تعریف اس طرح بیان کی ہے:''تبصرہ لکھنے والا تبصرہ نویس یا تبصرہ نگار کہلاتا ہے جب کہ اس کام کو تبصرہ نویسی کہاجاتا ہے۔ تبصرہ مختصر بھی ہوتا ہے اور مفصل بھی۔ اخبارات میں تبصرہ عموماً مختصرہوتاہے ۔جب کہ جرائد میں کتابوں وغیر ہ پر تفصیل سے بحث کی جاتی ہے ۔اخبارات میں تبصرے کا بنیادی مقصد قارئین کو مذکورہ چیز کے متعلق ضروری معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ مزید براں اخبار چوں کہ عام قارئین کے لیے ہوتاہے ۔وہ مفصل تبصرے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں ۔ مزید براں مختلف موضوعات کی کتب پر چونکہ ایک ہی تبصرہ نگار تبصرہ لکھتا ہے اس لیے وہ تفصیل میں جائے بغیر قارئین کو ضروری معلومات فراہم کرنے پر ہی اکتفاکرتا ہے۔ بعض اوقات ادبی ایڈیشنوں میں کسی فن پارے پر تفصیل سے بحث کی جاتی ہے اور اس کے محاسن اور عیوب کو سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم صحافتی تبصرہ نگاری اور علمی تنقید میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ ''٢؎
    تبصرہ لکھنا بھی ایک فن ہے یہ فن بھی محنت چاہتا ہے اس لئے کہ بغیر کتاب کے مطالعہ کے تبصرہ میعاری نہیں کہلاتا حالانکہ اکثر تبصرہ نگار مصنف کی شخصیت اور کتاب کی فہرست کو مدنظر رکھتے ہوئے تبصرہ کرتے ہیں جس سے کتاب میں شامل مواد کی وضاحت مناسب طور پر نہی ہو پاتی ۔تبصرہ قاری کو اپ ڈیٹ کرتا ہے ۔تحقیق میں مواد کی فراہمی کے سلسلہ میں بھی تبصرہ نگاری کے ذریعے مدد حاصل کی جاسکتی ہے ۔    تاراچرنرستوگی نے تنقید و تبصرے میں اچھے تبصرہ اور مبصر کے اوصاف کو بیان کیا ہے اور ان امور پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:''مصنف کاموقف کیا ہے کلیدی بات کیا ہے جس کا ابلاغ مصنف کے پیش نظر ہے ۔ کتاب میں کتنے ابواب ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو ہر باب کا مرکزی خیال پیش کرتے ہوئے پوری کتاب کی تلخیص پیش کردینی چاہیے۔ مزید براں زیر تبصرہ موضوع سے متعلقہ دیگر معلومات جن کا تبصرہ نگارکو علم ہو اشارتاََ قارئین کو فراہم کردی جائیں تو تبصرہ بہتر سطح کا تصور کیا جائے گا۔ تبصرہ نگار کو اپنی رائے پیش کرنے سے گریز تو کرنا چاہیے مگرنا گزیر سے روگردانی کرنا بھی ارتکاب جرم کے مترادف ہوگا۔ نیا موضوع ہے تو اس کو نیا کہنا ہی چاہیے ۔ اگر کسی موضوع پر نئے زاویے سے روشنی ڈالی گئی ہے تو اس زاویہ نگاہ کی جانب سے قارئین کی توجہ ضر ور مبذول کروانا چاہیے ۔''٣؎
    تبصرہ میں مبصر کتاب کے مطالعہ کے بعد اس کے محاسن و معائب بیان کرتا ہے جس سے قاری کو کتاب کی اہمیت کا اندازہوتا ہے اور اہم معلومات حاصل ہوتی ہے جس سے قاری کو کسی کتاب سے متعلق رائے قائم کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ دراصل کسی کتاب کے وجو د میں آنے کو تخلیق کہا جاتا ہے اوراور محاسن و معائب کا تعلق تنقیدی عمل سے ہے ۔تبصرے میں کتاب کے مندرجات اور اسلوب ِ بیان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور مواد کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔سرسید کی سوانح عمری ''حیات ِ جاوید'' اردو ادب میں اپنی بے شمار خوبیوں اور معنوی محاسن سے قطع نظر ادب آموزی اور تنقید و تبصرہ کی ایک یادگار تالیف ہے۔جس کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے،اس سوانح میں خواجہ الطاف حسین حالی نے انتخاب مواد اور حسنِ اسلوب کے علاوہ تنقیدی شعو ر اور تجزیہ و تبصرہ نگاری کے بہترین نقو ش کو اجاگر کیاہے۔عصر حاضر کے مبصراس کتاب کی رہنمائی میں اپنے اندر اعلی و میعاری تنقیدی صلاحیتوں کو کو فروغ دئے سکتے ہیں۔
    محمد اسلم نے تبصرہ نگاری کیسے کریں کی وضاحت اپنی تصنیف فیچر،کالم اور تبصرہ میں بہتر طور پر پیش کی ہے ملاحظہ ہو:''جن کتابوں پر مفصل یا مختصر تبصرہ مقصود ہے ان کے بار میں اولین تقاضا یہ ہے کہ پوری کتاب پڑھی جائے ۔کتاب پڑھنے کے بعد دیباچہ ایک بار پھر پڑھ لیا جائے تاکہ اس امر کی یاد دہانی ہوجائے کہ مصنف یا مولف یا مرتب نے کس نقطہ نگاہ سے یہ کتاب تصنیف کی یا تالیف کی ہے اسے ترتیب دیا اور اس نے کون سی مشکلات کا ذکر کیا۔مفصل تبصرہ مقصود ہو تو بہتر یہ ہے کہ دوران مطالعہ ۔کتاب کے بعض اہم اور کلیدی یا دلچسپ اقتباسات پر نشانات لگالیے جائیں۔اب تحریر کا مرحلہ آتا ہے سب سے پہلے کتاب کا نام،تبصرے کی سرخی کے طور پر دیںاس کے نیچے کتاب کا رسمی تعارف ہو اس میں کتاب کا نام مصنف یا مولف کا نام ملنے کا پتہ ،صفحات کی تعداد اور قیمت درج کر دیجئے ۔اگر مجلد ہو تو اس کا ذکر دیجئے ۔مفصل تبصر ہ کی صورت میں پہلے دو تین یا چار پیروں میں کتاب کا ملخص نہایت دیانتداری کے ساتھ پیش کریں،اس ملخص میں اقتباسات بھی دےے جاسکتے ہیں۔اس کے بعد کتاب کی خوبیوں کے بارے میں ایک پیرا لکھیں،پھر اس کی خامیوں کا جائزہ لیںاور کوشش کریں کہ جائزہ مدلل ہو آخر میں کتاب کے پروڈکشن کا ذکر کریں۔''٤؎
    بہر حال تبصرہ کا فن اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے تبصرہ نگاری کا فن ایک بہت مشکل اور پیچیدہ کام ہے ۔مبصر کو کسی بھی کتاب پر تبصرہ سے قبل اس کتاب کا مکمل مطالعہ کر لینا چاہئے اور تبصرہ کرتے وقت پورے احتیاط اور غور و فکر سے کام لینا چاہئے۔مبصر کا مقصد صرف کتاب کاتعارف کرنا ہی نا ہو بلکہ وہ کتاب کی خوبیوں اور خامیوں کی طرف اشارہ بھی کرتا رہے ۔کتاب کی اہمیت بھی اس کے پیش نظر رہے ۔تبصرہ نگاری میں مبصر تحقیق و تنقیدکو بروئے کار لائیں اور پور ے انصاف کے ساتھ تبصرہ کرے۔
    محمد اسلم ڈوگر نے اپنی کتاب فیچر ،کالم اور تبصرہ میں تبصرہ نویس کے 10اوصاف کا ذکر کیا ہے جس کو یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔١)فطری رحجان ٢)زبان و بیان پر عبور ٣) قوت فیصلہ ٤)فنی تقاضوں سے آگاہی ٥)غیر جانبداری٦) قوانین سے واقفیت٧)ضابطہ اخلاق سے آگہی٨)شائستگی ٩)اعتدال و توازن ١٠)معاشرتی اقدار
حوالے :١۔پروفیسر مجید بیدار،اردو کی شعری و نثری اصناف،حیدرآباد،2014ء ص256
٢۔محمد اسلم ڈوگر،فیچر کالم اور تبصرہ،مقتدرہ قومی زبان ،پاکستان،1998،ص340
٣۔تاراچرن رستوگی،تنقید و تبصرہ،شان ہند پبلکیشنز،نئی دہلی ،1993ء ص256،257
٤۔محمد اسلم ڈوگر،فیچر کالم اور تبصرہ،مقتدرہ قومی زبان ،پاکستان،1998،ص357,358

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے