کلام اقبال اور قرآن



کلام اقبال اور قرآن

ڈاکٹر عزیز سہیل

    فطرت کا قانون ہے کہ جب دنیا میں ظلمت کے اندھیرے چھا جاتے ہیں تو ان ہی اندھیروں میں سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست دکھانے کے لیے روشنی کی کرن پیدا ہوتی ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال کے بارے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے وقت کی پیداوار تھے اور اپنے عہد کی تاریکی مٹانے کے لیے انہوں نے اپنے فکر و فن کو استعمال کیا۔کلام اقبال کا خلاصہ تفسیر قرآن ہے اور قرآن رہتی دنیا تک ہدایت سے بھٹکی انسانیت کے لیے راہ راست کا پیغام ہے۔ دنیا میں انسان کسی مشین کو درست استعمال کرنے کے لیے ہدایات پر مبنی کتابچہ تیار کرتا ہے اسی طرح اللہ نے انسان کو اس زمین پر اطاعت الٰہی کے ساتھ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے جو ضابطہ حیات جو دستور عطا کیا وہ قرآن کریم ہے۔اگر انسان اس عظیم ہدایت نامے کے مطابق چلیں تو انہیں دونوں جہاں کی کامیابی نصیب ہو اور اگر اس کے خلاف چلیں تو ہر جگہ ناکامی ملے گی۔قرآن کا پیغام ہر زمانے میں اہل علم حضرات کے ذریعے انسانوں تک پہونچا ہے اور تاریکی میں ڈوبے انیسویں صدی کے ہندوستان میں قرآن کے پیغام کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے زندہ جاوید کردیا۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جس گہرائی سے قرآنی افکار کو پیش کیا اور اسے انسانیت کی فلاح و بہبود کا راستہ قرار دیا اس سے کہا جاتا ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے پیغمبری کی۔ اقبال ؒ نے امت مسلمہ کو خاص طور سے اور ساری انسانیت کو عام طور سے بیدار کرنے کے لئے اپنی شاعری کوخطابت اور پیام سے مملو کیا۔ ان کا پیغام خدا ئی دین اورقانون کو اپنی ززندگیوں میں نافذکرنا تھا،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اپنی شاعری کے ذریعے خدا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے پیدا کئے گئے تھے ،اقبال کے کلام کے مطالعہ سے ہمارے اندر ایک جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے اور زندگی کو زندگی بنانے کی تحریک پیدا ہوتی ہے ،ان کی شاعر ی میں اسلامی تعلیمات کی بھرپورعکاسی ہوتی ہے ۔علامہ اقبال کو قرآن مجید سے قلبی لگاو، تھا وہ قرآن مجید کو اپنی اور دوسروں کی زندگی میں عملی طور دیکھنا چاہتے تھے ۔
    علامہ اقبال کی فکری اسا س قرآن مجید ہے ان کی فکر کا محور قرآن ہے،ان کی سوچ کامبدا قرآن ہے علامہ اقبال داعی قرآن ہیں ،اقبال کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی ترقی،عروج و زوال سب قرآن سے جڑا ہے ۔ جس شخص نے اپنی شاعری کو قرآن کا محور بنایا اس کا اس انقلابی کتاب سے لگاؤ بچپن سے تھا اور بڑا عجیب تھا۔ اقبال کی قرآن سے جذباتی وابستگی کے بارے میںان کے بچپن کے ایک واقعہ کا اکثر محقیقن نے ذکر کیا ہے ،پروفیسرقاری محمد طاہر نے اس واقعہ کو اپنے مضمون ''فکر اقبال کی اساس'' میں یوں بیان کیا ہے:    
    ''علامہ اقبال کی اوائل عمری کا یہ واقعہ بڑا معروف ہے کہتے ہیں کہ میرا معمول تھاکہ میں صبح تلاوت کلام اللہ بالجہر کیا کرتا تھا۔والد صاحب فجر کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے گھر آتے مجھے تلاوت کرتے دیکھتے لمحہ بھر توقف کرتے اور پاس سے گزرجاتے ،ایک روز گزرتے ہوئے میرے پاس آکر بیٹھ گئے ،کہنے لگے یہ تم کیا پڑھ رہے ہو مجھے اس غیر معمولی سوال پر تعجب ہوا اور ملال بھی کیوں کہ انہیںمعلوم تھا کہ میں قرآن مجید پڑھ رہا ہوں ۔اس لئے سوال بے معنی لگا،میں نے جواب میں کہا قرآن مجید پڑھ رہا ہوں،فرمانے لگے تم جو کچھ پڑھ رہے ہو اسے سمجھتے بھی ہو ،میں خاموش رہا ،والد صاحب اٹھے اور چلے گئے ،اس واقعہ کے بعد ایک روز انہوں نے مجھے پاس بلایا اور کہا بیٹا قرآن مجید وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس پر اس کا نزول ہو،جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ قرآن مجید تمہارے قلب پر اتر رہا ہے،اس کیفیت کے بغیر تلاوت کا مزہ نہیں اور تم قرآن مجید کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے ،اگر تم تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ تم پر نازل ہو رہا ہے،یعنی اللہ خود تم سے ہم کلام ہے تو یہ تمہارے رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔
        (فکر اقبال کی اساس،روزنامہ پاکستان٢٨نومبر2016)
    تب ہی سے علامہ نے قرآن کے معنی ومفہوم کو سمجھنے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کا تہیہ کرلیاتھا۔اس پس منظر میں علامہ کا یہ شعر دیکھیں ؎
        ترے ضمیرپہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
        گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
    علامہ اپنے اس شعر میں درس دے رہے ہیں کہ جب اپنے دل ودماغ میں نزول قرآن کا تصور واحساس نہ ہوتب تک ہم قرآن کے نزول کے مقصداوراس میں پنہاں راز کو حاصل نہیں کرسکتے،کسی بھی مقصد کو حاصل کرنا ہے تو آدمی کے اندر تڑپ ،جستجو،بے چینی اور محنت کا ہونا ضروری ہے ،خود علامہ نے اپنے ایک شعر میں اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ
         کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
         ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
    علامہ اقبال کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر قرآن مجید کا دکھائی دیتا ہے جس سے اقبال نے اثرلیا ،اقبال کا کلام اللہ سے بہت زیادہ شغف تھا،قرآن سے ان کا تعلق بہت زیادہ مثبوت تھا ،قرآن مجید سے علامہ اقبال کے تعلق سے متعلق مولانا علی میاں لکھتے ہیں؎
    ''علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور وفکر اورتدبر و تفکرکرتے گزاری،قرآں مجیدپڑھتے ،قرآن سوچتے ،قرآن بولتے ،قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انھیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا اس سے انھیں ایک نیا یقین،نئی روشنی ،اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی جوں جوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیاان کی فکر میں بلندی اورایمان میں زیادتی ہوتی گئی ،اس لئے قرآن ہی ایک ایسا جاوید کتاب ہے جوانسان کو علم اور ابدی سعادت سے بہرہ ور کرتا ہے ''(نقوش اقبال،ص٦٢)
    ابو محمد مصلح نے کتاب ''قران اور اقبال''میں اقبال کی شاعری کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ؎
    ''بے شک اقبال منظر عام پر بحیثیت ایک شاعر ہی کے جلوہ گر ہوئے لیکن بہت جلد ان کی شاعری نے ایک پیام کا ہیولٰے اختیار کرلیا اور پھر اخیر دم تک وہ ایک پیام رساں ہی رہے ،اقبال کی نثر ،نظم فلسفہ ،تصوف اور قومیت جو کچھ بھی ہے اس پر قرآن کا پر تو پڑا ہے اور اس کا بیشتر حصہ قرآنی ہے ،اقبال کا شاعری سے مقصد قرآن تھا ''۔
     اور حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن مجید انسانی زندگی کے ظاہر و باطن کو سنوارنے کا بہترین آئینہ ہے،اگر ہم واقعی سنجیدگی سے کام لیں اور قرآن مجید جو کہ ہمارے لیے سراسر ہدایت کا سرچشمہ ہے اسی کو سامنے رکھ کر اپنی زندگیوں کو گزاریں تو ہماری دنیا وآخرت کامیاب ہی کامیاب ہے۔
    شمس تبریز خاں علامہ اقبال کے کلام پر اسلامی چھا پ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں؎
    ''اقبال کے یہاں جذبہ اور خیال کی مثالی ہم آہنگی پائی جاتی ہے،ان کے قلب و نظر کا گوئی گوشہ ئایسا نہیں ہے جو ایمان ویقیں کے نور سے روشن نہ ہو،اور جس پراسلامیات کی چھاپ نہ لگی ہو،اقبال نے ہر صنف سخن میں طبع آزامائی کی ہے علم و ادب ،مذہب وتہذیب،معیشت و معاشرت ،تاریخ وسیاست کے ہر پہلو سے بحث کی ہے اور انھیں اپنے افکار کا موضوع بنایا ہے لیکن ان سب میں کوئی چیز مشترکہ کہی جاسکتی ہے تو وہ ان کی اسلامیت اور مومنانہ انداز نظر ہے،جو ان کے علوم و فنون کی ہر شاخ میں اس طرح رواں دواں ہے کہ'شاخ گل میںجس طرح باد سحرگاہی کانم!''(نقوش اقبال)
    علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں اسلامی بیداری اور اسلامی فکر کو پروان چڑھانے کا بہت ہی خوب کارنامہ انجام دیا ہے،ساتھ ہی مسلمانوں میں خود اعتمادی کی بحالی کے لیے انہوں نے احساس خودی کے تصور کو عام کیا،بلند اڑان اڑنے والے شاہین جیسے پرندے کو اپنی شاعری میں استعارہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک دعوت فکر دی ہے ۔
    مولانا علی میاں ندوی نے اقبال کی شخصیت اور اسلامی فکر سے متعلق لکھا ہے ؎
    ''میں سمجھتا ہوں کہ علامہ اقبال وہ شاعر ہیںجن سے اللہ تعالی نے اس زمانے کے مطابق بعض حکم وحقائق کہلوائے ہیں جو کسی دوسرے معاصر شاعر و مفکر کی زبان سے نہیںادا ہوئے میرا خیال ہے کہ پیغام محمدؐی بقائے دوام امت مسلمہ کے استحکام اور اس کی قائدانہ صلاحیت عصری نظریات اور فلسفہ کے بے مائگی پر ان کا پختہ عقیدہ سے ان کی فکر میں وضاحت اور پختگی آئی ہے اور ان کی خودی کی تعمیر ہوئی ہے اس معاملے میں وہ خاص کر ان دینی علوم کے ان فضلاء سے بھی آگے ہیںجو مغربیت کی حقیقت سے واقف نہیںاور نہ انھیں اس کہ حقیقی اغراض و مقاصداور تحریک سے گہری واقفیت ہے ''(نقوش اقبال)
    مولانا علی میاں ندوی کے اس اقتباس سے اقبال کی عظمت اور فکر کی بلندی اور اسلامی نظریہ کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے ،ان کی شاعری اسلامی فکر کو بیدار کرتی ہے،مسلمانوں کی بھولی ہوئی تاریخ کو علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے دوبارہ یاددلایا ہے ،عظمت رفتہ کی بحالی کو بھر پور کوشش کی ہے ۔
    علامہ اقبال کی شاعری قرآن مجید کی سچی تعلیمات کی علمبردار ہے ،علامہ نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے اور انھیںبارہا اپنا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی ہے ،علامہ کے سامنے اسلام کی پوری تاریخ تھی ،اور کس طرح مسلمان اقتدار سے آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہوئے ان اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں؎ؔ
        وہ معززتھے زمانہ میں مسلماں ہوکر
        اور تم خوار ہوئے تارک قراں ہوکر
    ہمارے ابا و اجداد قرآن کو تھام کرنصف سے زائد دنیا پرحکمرانی کی تھی ،جہاں خدا کی زمین پر خدا کا قانون نافذ تھا لیکن افسوس ہم نے خدا کے پیغام کو بھلا دیا اور ذلت ہمارا مقدر بن گئی ،آج بھی اگر ہم صدق دل سے اللہ کے دین پر چلتے ہوئے قرآن مجید کے احکام و ہدایت پر عمل پیرا ہوجائے توپھر سے اللہ کی مدد ہمیں حاصل ہوگی اور دین و نیا میں
سرخ رو ہوں گے۔
    ہمارے درمیان کی نااتفاقی اور عدم اتحاد پر علامہ کا یہ شعر ملاحظہ کریں؎
         حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
         کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
    عصرحاضر میں ہمارے اندر اتحاد و اتفاق کی بہت زیاد ضرورت ہے ،ہمارا خدا ایک،حرم ایک، قرآن ایک ،لیکن ان سب کے باوجودہم میں اتحاد کی کمی ہے، ہم متحد نہیں ہمارا شیرازہ بکھرا پڑا ہے اور اسی عدم اتحاد کی وجہ دنیا بھر میں ہم پسپا ہورہے ہیں ستائے جارہے ہیں اور ہم پر ظلم و ستم ڈھایاجارہا ہے ،ضرورت ہے کہ قرآن مجید کو ہم مضبوطی سے پکڑ ھ لےں اور اتحاد و اتفاق سے کا میابی کی طرف رواں دواں ہوں۔اپنے ایک اور شعر میں علامہ نے یہی خیال کو پیش کیا ہے، ملاحظہ ہو؎    
         ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
        ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
    علامہ اقبال مومن کی سچی تصویر کو اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے ؎
         یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
        قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن
    دراصل یہ راز کسی کو نہیں معلو م کے جو خدا کے سچے اور مخلص بندے ہیں وہ بظاہر قرآن کی تلاوت کرتے نظر آتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں قرآں کا سچا نمونہ(ماڈل ) ہیں۔مومن کی زندگی قرآن کی ترجمانی ہے ۔قرآن مجید میں سورہ مومنون کی ابتدا ء میں مومنین کی صفات اور اوصاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اقبال نے بھی اپنے شعر میں مومن کی حقیقت کو واضح کیا ہے،انہوں نے مرد مومن کا تصور بھی پیش کیا ہے ۔
    علامہ اقبال کی شاعری میں خودی کا تصور بھی نمایاں نظر آتا ہے ،اقبال مرد مسلماں کو اپنی شاعری کے ذریعے یہ پیغام دئے رہے ہیں ؎                        قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
         اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار
    علامہ اقبال در س دے رہے ہیںکہ مسلمانوں کو قرآن کی گہرائی میں ڈوب کر قرآن کے پیغام کو سمجھنا چاہئے قرآن دراصل ساری انسانیت کے لئے ہدایت و رہنما ہے،اگر اس کے معنی و مطلب کو ہم سمجھ پائے تو مشکل نہیں کہ ہم کوایک نیا طرز زندگی حاصل ہو جس پر چل کر ہم دنیا وآخرت کی کامیابی کو اپنا مقدر بنا سکتے ہیں۔
    علامہ اقبال ایک مفکر ،مدبر،داعی اسلام ،سچے عاشق رسولؐتھے،انہوںاپنی شاعری کے ذریعے سوائی ہوئی قوم کو بیدار کرنے اور ان کو عظیم مقصد کے لئے تیار کرنے کا کام بڑی خوبی سے انجام دیا۔اللہ کے رسول حضرت محمد ؐ سے انسیت تھی، سچا عشق تھا ۔علامہ کا یہ شعر ملاحظہ ہو؎
        نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
     وہی قرآں وہی فرقاںوہی یٰسیںوہی طاہا
    علامہ اقبال نے اس شعر میںنگاہ عشق و مستی میںاول اور آخر شخصیت،ہستی،ذات ِحضرت محمد ؐ کو قرار دیا ہے جن کے اخلاق قرآن کا سچا نمونہ تھے۔جن کو اللہ رب العزت نے رحمت العلمین بنا کر بھیجا تھا۔شکوہ جواب شکوہ میں علامہ اقبال نے حضرت محمد ؐ سے سچی محبت اور انسیت کا کیا خوب اظہار کیا ہے ؎    
        کی محمد ؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
         یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
    قرآن کریم انسانیت کی کامیابی کا دستور ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس دستور انسانیت کو صاحب کتاب پیغمبر انسانیت حضرت محمد مصطفی ؐ کے ذریعے انسانوں تک پہونچایا۔ اور ان کے مبارک طریقہ زندگی کو رہتی دنیا تک انسانیت کی کامیابی کا ضامن قرار دیا۔ اسی لیے اقبال نے کی محمد سے وفا کہہ کر یہ حقیقت بیان کردی کہ قرآن کو صاحب قرآن سے سمجھنا ہے اور ان کے مبارک طریقہ حیات کو ہی اپنی حقیقی کامیابی کا ضامن سمجھنا چاہئے۔    علامہ اقبال نے نظم شکوہ میں خدا کے گھر کعبتہ اللہ کو اپنے سجدوں سے آباد رکھنے اور کلام اللہ قرآن مجید کو سینوں میں محفوظ رکھنے کی بات کو کیا خوب بیان کیا ہے ؎             تیرے کعبے کو جبینوںسے بسایا ہم نے
        تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
اقبال نے اس نظم کے ذریعے عالم اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کی مکمل تصویر کھینچی ہے ،ساتھ ہی مسلمانوں کی پستی و زوال کی شکایت خدا رب العزت سے کی ہے اور مندرجہ بالا شعر میں خدا سے شکایت کی ہے کہ ہم نے تیرے گھریعنی کعبہ میں اپنی عبادتوں کے ذریعے اس کو آباد رکھا اور اس کی حفاظت کی ہے ساتھ ہی تیرے کلام کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا ہے اس کے باوجود بھی توہم سے ناراض ہے اور ہماری وفاداری پر تجھے شک ہے ۔
    علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی عظمت کی وجہ سے مسلمانوں کو دنیا بھر میں شان و شوکت نصیب ہوئی تھی، قرآن کی تعلیمات کا ہی اثرتھا کہ مسلمان چاند و تارے کی مانند اس جہاں میں جگ مگا رہے تھے ۔
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
    وہی مسلماں جس نے اس کہکشاں میں مومنانہ صفات کی وجہہ چاند وتارے کی مانند چمکنے والے آج اس دنیا کے دلدادہ ہوگئے ہیں اور اپنی تعلیمات کو بھولا دیا ہے ۔ اقبال کی فکر کے محور قرآن سے ان کی وابستگی کی یہ کچھ مثالیں ہیں جو ان کے کلام سے اجاگر ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری کے مختلف ادوار میںان کا رحجان مختلف رہا شاعری کے پہلے دور میں انہوں نے غزلیں لکھی ،بچوں کی نظمیں اور دیگر موضوعاتی نظمیں لکھیں،دوسرے دور کی شاعری کا تعلق فلسفہ خودی سے رہا،اس دور میں علامہ نے بیرون ملک حصول تعلیم کے لیے قوت صرف کی ،اس دور میں ان کے کلام میںکچھ تبدیلی واقع ہوئی اور وہ پیامبرانہ شاعری کرنے لگے ،تیسرے دور میں علامہ کی شاعری میں فارسی کے اثرات نمایاں طورپر محسوس کئے جاسکتے ہیں ،اس دور میں علامہ کی شخصیت ایک سچے عاشق رسولؐ کی حیثیت سے نمایاں ہوئی ،اس دور میں علامہ نے بہت سی نظمیں لکھی جس میں ایک جوش ولالہ عزم محکم دکھائی دیتا ہے اور اسلام و مسلمانو ں کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے ،چوتھے اور آخری دور میں اقبال کی شاعری میں فلسفہ خودی کا نمایاں اثر نظر آتا ہے ۔علامہ اقبال مفکر اسلام ہیں انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوںکے زوال کے اسباب کو ڈھونڈ نکالا ہے اور ان کی ترقی اور کامیابی کے راز کو بیان کیا ہے ،ان کی فکر کا اسا س قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات ہیں،انہوں نے اسلامی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کا اساس قرآن مجید کو بتا یا ہے ۔
محمد ؐ بھی تیرا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
    آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبال نے جس طرح اپنی حیات میں قرآن کے اعجاز کو سمجھ لیا تھا۔ آج ہدایت سے بھٹکی انسانیت تک اسی قرآن کے اعجاز کو عام کیا جائے اور اقبال کی فکر کو مختلف زبانوں میں پیش کرتے ہوئے کلام الٰہی سے ان کی اٹوٹ وابستگی کی حقیقت جانی جائے۔تب ہی ہم اقبال کے حقیقی شاہین کہلائے جاسکتے ہیں۔

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے