'' اکیسویں صدی اردو ادب چیلنجز اور ان کا حل''




'' اکیسویں صدی اردو ادب چیلنجز اور ان کا حل''
شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج میں منعقدہ دوروزہ قومی اردو سمینار کا رپورتاژ
ڈاکٹر عزیز سہیل

    اردو شعر وادب کی اکثر محفلیں روایتی ہوتی ہیں جو تھوڑے سے عرصے میں بھلادی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ محفلیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ ایسی ہی ایک یادگار اردو کی محفل شہر نظام آباد میں گرراج گورنمنٹ کالج میں 5اور6فروری کومنعقد ہونے والا دوروزہ قومی اردو سمینار تھا۔ جس کا موضوع'' اکیسویں صدی اردو ادب چیلنجز اور ان کا حل'' تھا۔ ےہ قومی اردوسمینار یوجی سی کے زیر اہتمام شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ نے منعقد کیا۔ ضلع نظام آباد ا بتداء سے ہی تاریخی ،تہذیبی ،ادبی اور مذہبی مر کز رہا ہے۔ اردو زبان و ادب کے معاملے میں شہر نظام آباد حیدرآباد کے بعد اور علاقہ تلنگانہ کا سب سے بڑا اور زرخیز علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ آزادی ہند کے بعد سے ہی یہا ں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے آئے دن مشاعرے ادبی اجلاس اور د ےگر سر گر میاں انجام دی جا تی رہی ہےں ۔ ےہا ں ٢٠ سے زائد ادبی انجمنیں قا ئم ہیں جنکے ذریعہ سے اردو ادب کے فروغ کی کوششیں جاری ہیں ۔نظام آباد سے٥ روز نامے ١٠ ہفتہ وار اخبارات شائع ہو تے ہیں اور ساتھ ہی تقریباََ دس ماہنامہ رسالے جاری ہو تے ہیں جن میں تین تا چار بچوں کے ادب سے متعلق ہیں ۔ نظام آبادمیں اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج تیزی سے جاری ہے۔ جس سے اس علاقہ میں اردو کی ترقی اور ادب کو وسعت حاصل ہو رہی ہے۔ اس علاقہ میں تلنگانہ یونیورسٹی کا قیام ٢٠٠٦ء میں عمل میں آیا۔شہرنظام آباد میں ایک قدیم ڈگری کا لج قائم ہے جس کا قیام ١٩٥٦ء میں گرراج کالج کے نام سے عمل میں آیا جو ١٩٦٠ء میں حکومت آندھراپردیش کے زیر انتظام آگیا ١٩٨٦ء سےیہاں پر اردو میڈیم کی تعلیم کا آغاز عمل میں آیا اس کا لج کو
NAAC نے پہلی مرتبہBکا مقام دیا ہے اور یہ خود مختارادارے کے طور پر کام انجام دئے رہا ہے۔
اہلیان نظام آباد اور گرراج کالج کی یہ خوش قسمتی رہی کہ اسی شہر سے وابستہ ایک ہونہار سپوت اردو کی مشہور زمانہ اور صحافت میں کا تجر بہ رکھنے والی شخصیت ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی لکچرر اردو کا ظہیر آباد سے تبادلہ نظام آبادعمل میں آیا۔ جو کہ اب صدر شعبہ اردوکی حیثیت سے گرراج کالج میں اپنی خدمات انجا م د ے رہے ہیں۔ نظام آباد آمد کے بعد انہوں نے کالج میں اردو کی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ادبی پروگرام سمپوزیم اور سمیناروں کا سلسلہ شروع کیا چنانچہ یو جی سی گرانٹس کمیشن کی جا نب سے (سی پی ای گرانٹس) کی منظوری کے بعد انہوں نے دو روزہ قومی سمینا بتاریخ ر ٥اور ٦ فروری ٢٠١٣ء بروز منگل وچہارشنبہ کو گولڈن جو بلی آڈیٹوریم گرراج کالج نظام آباد میں' اکیسویں صدی اردو ادب چیلنجز اور ان کا حل'' کے موضوع پر کامیابی سے منعقد کیا۔ ڈاکٹراسلم فاروقی نے اردو اساتذہ سے اپنے روابط اور اردو حلقوں سے وابستگی اوراپنی خدادا دصلا حیتوں کو استعمال کرتے ہوے اس سمینار کے کامیابی کےلئے دن رات محنت کی۔ ان کی محنتوں کے صلے میں سمینار توقع کے بر خلاف نہ صرف کامیاب رہا بلکہ نظام آباد میں ایک تاریخ رقم کر ڈالی کیو نکہ اس سمینا ر میں ایک طرف تو مختلف قومی و ریاستی یونیورسٹیوں کے صدر شعبہ اور پروفیسر س نے شرکت کی ساتھ ہی ملک بھر کے مختلف علاقوں سے آئے رےسر چ اسکالرس کی ایک بڑی تعدادنے اپنے اپنے مقالے اس سمینار میں پیش کیے جو کے نظام آبادکےلئے ایک اعزاز رہا۔
گر راج کالج کے گولڈن جوبلی آڈیٹوریم میں ٥ فروری٢٠١٣ء بروز منگل ١٠ بجے صبح' اکیسویں صدی اردو ادب چیلنجز اور ان کا حل'' کے عنوان سے سمینار کا افتتاح علامہ اقبال کی دعا
ــــــ ـــ'' یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے ''سے ہوا جس کو برادر عبداسلام قمر نے پیش کیا۔اس کے بعد عرفانہ بیگم،عشرت بیگم، زاہدہ بیگم نے قومی ترانہ '' سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا'' پیش کیا۔ سمینار کا افتتاح پروفیسر محمد انور الدین شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کیا۔جنا ب عابد علی لکچررکامرس نے افتتاحی اجلاس کی نظامت کی اور ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کنوینر سمینار نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا ۔ انہو ں نے گرراج کالج اور شعبہ اردو کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی اور سمینار کے انعقاد کے مقاصد کو بیان کیااور کہا کہ آج ہر اردو میڈیم طالب علم کے سامنے یہ سوال غیر یقینی کیفیت پیدا کرتا ہے کہ اردو سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کے مستقبل کا کیا ہوگا ؟لیکن پریشانی کی کو ئی بات نہیں دور حاضر میں اردو والوں کےلئے مواقع پہلے سے کہیں حوصلہ افزا ہیں اور اردو ادب بھی نئی صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہورہا ہے ۔ انہو ں نے مزید کہا کے ہمارا ماحول یہ ظاہر کرتا ہے کے ہماری مادری زبان اردو ہے لیکن ہم اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم میں تعلیم دلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ضرورت اس بات کی ہیں کہ ہم اردو زبان میں اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں اور انکی صلا حیتوں میں اضافہ کریں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے ابتدائی کلمات کے بعد گرراج کالج کے پرنسپل پروفیسر ایس لمبا گوڑ نے شعبہ اردو کی جانب سے منعقدہ دو روزہ سمینار کےانعقاد پر مبارکباد پیش کی اور کہا کے اردو زبان ایک میٹھی زبان ہے جسکے الفاظ میں شیرنی پائی جا تی ہے اردو شاعری کے ذریعے دل کو راحت و سکون میسر آتا ہے انہوں نے کہا کہ دیگر زبانوں کا بھی احترام کیا جانا چاہیے اور انہوں کہا مولانا آزاد اردو یونیور سٹی کے تعاون سے شعبہ اردو گرراج کالج کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
پروفیسر نسیم الدین فریس صدر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآبادنے سمینار سے بہ حیثیت مہمان اعزازی مخاطب کرتے ہوے کہا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ دیگر قومیں بھی اردو زبان بولتی ہیں اردو کے ابتدائی دور کے لکھنے والوں میں غیر مسلمین کی بھی بڑی تعداد نظر آتی ہیں جن میں پریم چند،کرشن چندرعصر حاضر میں گوپی چند نارنگ وغیرہ شامل ہیں اور اردو کی آبیاری میں ساری قومیں شامل ہیں اردو صحافت نے آزادی ہند کےلئے جدوجہد کی ہے اور ساتھ ہی قربانیاں بھی پیش کی ہے انہو ں نے سمینار کے موضوع کو ایک اہم ایجنڈہ قرار دیا ۔ اور اس چیلنجنگ موضوع کے انتخاب اور سمینار کے انعقاد پر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کو مبارک باد دی اور کہا کہ یہ رہتے تو ضلع میں ہیں لیکن اپنی تحریروں اور روابط سے ساری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔پروفیسر محمد انور الدین شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے بہ حیثیت مہمان خصوصی اپنے خطاب میں اس دو روزہ سمینار کو دور حاضر کا ایک اہم عنوان اور منظم و بہتر ین قراردیاجسکے ثبوت کے طور پر یہ وسیع ہال تنگ دامنی کا شکوہ کررہاہے انہوں نے ڈاکٹر اسلم فاروقی اور پرنسپل ایس لمبا گوڑ کو مبارکباد پیش کی اس چیلنجز بھرے عنوان پر مقالے لکھوانا اور فنڈ فراہم کرنے کو ایک کارنامہ قرار دیا۔جناب تبسم فریدی ایڈیٹر مارننگ ٹائمز نظام آبادنے سمینا ر کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ اردو زبان دراصل ہندوستان کی زبان ہے جو سارے عالم میں انگریزی کے بعد سب سے زیادہ بولی جاتی ہے دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں اردو بولنے والے لوگ بستے ہیں اردو زبان کی اپنی خصوصی خاصیت اس کی شیریں زبانی ہے انہو ں نے مادری زبان میں بچوں کو تعلیم حاصل کر نے کا مشورہ دیا۔
پروفیسر مظفر شہ میری صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کلیدی خطبہ دیا انہو ں نے اپنے خطاب میں کہا کہ دور حاضر میں سمینار بھی اب غیر طرحی مشاعرے کی طرح منعقد ہورہے ہیں لیکن یہ دو روزہ سمینار ا پنے مو ضوع کے اعتبارسے خصوصیت کا حامل ہے اور شرکاء کی تعداد یہ احساس دلاتی ہے کہ یہ ایک کامیاب اردو سمینار ہے اورامید ہے کہ اس سمینار کے مباحث اور نتائج اردو دنیا کو نئی روشنی دیں گے۔ اردو کو انفار میشن ٹکنالوجی سے جوڑنا دراصل وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے انہو ں نے کہا کہ اردو قواعد کو زندہ رکھنا ہے تو اس میں دیگر زبانوں کے الفاظ کو شامل نہ کریں اور اپنی زبان کے قواعد کو نہ چھوڑ یں زبان سے محبت پیدا کریں ہمیں چاہیے کہ ہر فرد کم از کم دس افراد کو اردو سکھائے تاکہ ہماری زبان اور ہمارا رسم ا لخط زندہ رہے۔ انہو ں نے مزید کہا کہ املے کا مسئلہ بہت بڑا ہے املے کی درستگی کےلئے بی ایڈ کے نصاب میں طلباء کےلئے لسانیات کو شامل کیا جانا چاہیے آخر میں انہو ں نے حروف تہجی کی تعداد کو متعین کرنے کےلئے ایک بین الاقوامی سمینا ر کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس بات کو متفقہ طور پر تسلیم کیا جائے کہ اردو کے حروف تہجی آخر کتنے ہیں ۔پاپولر لٹریچر بھی اب تھوڑا تھوڑا ختم ہو رہا ہے اس پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ساتھ ہی بچوں میں مطالعہ کا ذوق پےدا کرنا چاہیے۔خطبہ صدارت کے بعد تمام مہمانوں کی گلپوشی اور شال و مومنٹو پیش کیے گئے۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتا ڑ نے شکریہ ادا کیا۔
سمینار کے پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر محمد انور الدین اور ڈاکٹر نسیم الدین فریس نے کی۔اس اجلاس میں ڈاکٹر فضل اللہ مکرم چیر پرسن بورڈ آف اسٹیڈز اورینٹل کالج عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے اردو صحافت نئے رحجانات اور نئے چیلنجز ، ڈاکٹر سلمان عابد اسسٹنٹ پروفیسر اردو آرٹس کا لج حیدرآبادنےاردو تعلیم اور روزگار کے مواقع،محمدمصطفی علی سروری اسوسیٹ پروفیسرشعبہ ترسیل عامہ و صحافت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے اردو جرنلزم اور روزگار کے مواقع پر اپنا اپنا مقالہ پیش کیاا ور اردو اور روزگار کے مواقع بیان کئے اور اردو صحافت کے بدلتے رجحانات پر روشنی ڈالی۔جبکہ جناب تبسم فریدی ایڈیٹر نظا م آباد مارننگ ٹائمز نے گرراج کالج میں اردو میڈیم کے قیام اور اردو صحافت کے غیرجانب دارارنہ رول پر روشنی ڈالی۔ دوسرے ا جلاس کا آغاز دو پہر ٣ بجے بعد طعام عمل میں آیا نظامت ڈاکٹر محمد ناظم علی پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتا ڑ نے کی، دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر محمد انور الدین اور پروفیسر مجیدبیدار نے انجام دی۔اس اجلاس میں ١٤ مقالے پڑھے گئے۔ڈاکٹر محمد ابرارلباقی صدر شعبہ اردو ساتاواہانا یونیور سٹی کریم نگر نے اردو رباعی اور اخلاقی قدریں، ڈاکٹر شیخ سلیم صدر شعبہ اردو انوارلعلوم کا لج حیدر آباد نے کالجوں میں اردو نصاب مسائل اور تجاویز،ڈاکٹر نشاط احمداسسٹنٹ پروفیسر یونیورسٹی آف حیدرآباد نے غضنفر کی ناو ل نگاری کا جائز،ڈاکٹر نثاراحمد اسسٹنٹ پروفیسر ایس وی یونیورسٹی تروپتی نے'اردو اور انفارمیشن ٹکنالوجی ،ڈاکٹر محمد عتیق اقبال اردوآرٹس کالج حیدرآباد نے'' فنی ترجمہ اور اس کی قسمیں' ،'ڈاکٹر حمیرہ سعید این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگرنے اردوافسانے میں خواتین کے مسائل ،ڈاکٹر محمد ناظم علی پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ'نے زبانوں کی تہذیب اور اردو، ڈاکٹر صفدر عسکری پرنسپل گورنمنٹ ڈگر ی کالج آرمور نے انیس کے مر ثیوں میں اخلاقی قدریں، ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی گرراج کالج نظام آبادنے انفار میشن ٹکنالوجی اور اردو،'ڈاکٹر طیب خرادی بنگلورنے اردو طنزومزاح میں سماجی عناصر کرناٹک کے حوالے سے ' ڈاکٹر محسن جلگانوی ایڈیٹر اوراق ادب اعتمادحیدرآبادنے اردو صحافت کے مسا ئل ،ڈاکٹر گل رعناا سسٹنٹ پروفیسر'تلنگانہ یونیورسٹی نظام آبادنے اردو طنزومزاح اور عصر حاضر کے مسائل،ڈاکٹر اطہر سلطانہ اصدر شعبہ اردوتلنگانہ یونیورسٹی نظام آبادنے اردو اور قومی یکجہتی''ڈاکٹر موسیٰ اقبا ل اسسٹنٹ پروفیسر تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد نے'' اردو افسانے کی روایت اور ارتقاء'' جیسے موضوعات پر مقالے پیش کئے ۔ پروفیسر مجیدبیدار نے ان مقالوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر عنوان کی اپنی ایک انفرادیت ہے جسطرح سے حکومت نے خواتین کو٣٣فےصد تحفظات فراہم کیا ہے اسی طرح اس سمینا ر میں ٣٣ فیصد سے زائد خواتین نے مقالے پڑھے ہیں۔ انہوں نے اکیسویں صدی اردو چیلنجز اور ان کا حل کے عنوان پر مجموعی جائزہ لیا۔پروفیسر محمد انور الدین شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے صدارتی خطا ب میں ١٤ مقالہ نگاروں کاانفرادی ' تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیاکہا کہ ان ١٤ مقالہ پیش کرنے والو ں میں میرے ٨ شاگرد ہیں جنہوں نے اپنی محنت و لگن سے اردو کے در پیش مسائل اور ان کا حل تلاش کر نے کی کوشش کی ہے۔پہلے دن کا پروگرام ٥ بجے شام اختتام کو پہنچا۔ڈاکٹر محمد ناظم علی نے شکریہ ادا کیا۔مقالہ نگاروں کو مہمانان خصوصی کے ہاتھوں سند اور مومنٹو پیش کئے گئے۔
اردو سمینار ہو 'مہمان شہر میں ہوں اور مشاعرہ نہ ہو یہ اردو محفلوں کی روایت ہی نہیں۔ اسی بات کے پیش نظر سمینار میں شرکت کے لئے آئے مہمانوں اور مقامی محبان اردو کی خواہش پر ایک نجی محفل شعر کا اہتمام کیا گیا۔٥ فروری کی شب ٩ بجے رضاء گیسٹ ہاوس پر جہاں مہمانوں کے قیام کا انتظا م تھا ایک محفل مشاعرہ کا اہتمام عمل میں لایا گیا جسکی صدارت پروفیسر مجید بیدارنے کی۔مہمانان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر محسن جلگانوی ایڈیٹر اوراق ادب اعتمادحیدرآباد' محمد تقی الدین ایڈیٹر ورق تازہ ناندیڑ'ڈاکٹر شجاعت علی ایس آر ٹی یو نیور سٹی ناندیڑنے شرکت کی مہمان شعراء پروفیسر مجید بیدار، ڈاکٹر محسن جلگانوی ' کبیر ا حمد شکیل، شیخ احمد ضیاء، عبدالقدوس رضوان بودھن نے اپنا کلام پیش کیا۔مقا می شعراء میں ڈاکٹر ضامن علی حسرت، سید ریاض تنہا،عبدا لرحیم قمر، اشفاق اصفی، شریف اطہر،سو زنجیب آبادی ،عبدالقیوم نقیب،جلال الدین اکبر،شعیب نظام آبادی،چکر نظام آبادی اور رضی شطاری نے اپنے کلام سے سامعین کو محظو ظ کیا۔ رات دیرگئے مشاعرہ چلتا ر ہا سا معین کی ا یک بڑی تعداد نے اس مشاعرے سے استفادہ کیا۔ نظامت سید ریاض تنہا نے انجام دی۔ مشاعرے سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محسن جلگانوی اور پروفیسر مجید بیدار نے کہا کہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی اپنے وطن نظام آباد آمد کے بعد اردو کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ احباب کو جوڑنے کا کام کر رہے ہیں۔ اردو کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ان کی مخلصانہ کوشش کا لوگ ساتھ دیں۔
دو سرے دن١٠ بجے صبح گولڈن جو بلی آڈےٹورےم گرراج ڈگری کا لج مےں قومی اردوسمینار کے تیسرے اجلاس کا عبد الرحمن بیگ کی نعت سے آغاز عمل میں آیا۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر مجید بیدار'ڈاکٹر فضل اللہ مکرم نے کی۔ ڈاکٹر محمد ابرارالباقی اور ڈاکٹر شیخ سلیم مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے۔ نظامت ڈاکٹر اسلم فاروقی نے انجا م دی۔ اس اجلاس میں ١٤ مقالے پڑھے گئے جن میں محمد تقی ایڈیٹر ورق تازہ ناندیڑنے' اردو صحافت کے مسائل اور ان کا حل ،ڈاکٹر شجاعت علی ایس آر ٹی یو نیور سٹی ناندیڑ  ،یورپ میں خواتین کا افسانہ (ہجرت کے حوالے سے)،ضامن علی حسرت پی ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالرعثمانیہ نے ،غو ث خوامخواہ مزاحیہ شاعری اور عصر حاضر کا سماج ' محمدعبدالعزیزسہیل پی ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالرعثمانیہ'اکیسویں صدی میں غیر افسانوی ادب مسا ئل اور امکانات ،سید حامد پی ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالرعثمانیہ'اردو ڈراما اور ہمارا سماج ،شمیم سلطانہ پی ایچ۔ڈی ریررچ اسکالرمولانا آزاد اردو یونیورسٹی، عصر حاضر اور بچوں کا ادب ،مریم فاطمہ پی ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالرتلنگانہ یونیورسٹی' عصر حاضر میں خواتین کے مسائل اور ایک مثالی عورت اقبال کی نظر میں، محمد عبدالعزیز پرنسپل کریسنٹ جونئیر کالج نظام آباد،فکراقبال کی آفاقیت ،ا افتخار فہد پی ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالرتلنگانہ یونیورسٹی ،اردو زبان وکمپیوٹر ٹکنالوجی ،تبسم سلطانہ ایم فل ، اردو زبان اور رسم الخط کا تحفظ اور ہماری ذمہ دارایاں،محمد عبدالبصیر لکچرار ، ضلع نظام آباد میں اردو شعر و اد ب،نشا ط فاطمہ پی اےچ۔ڈی ریسرچ اسکالرتلنگانہ یونیورسٹی،اردو ادب اور ذہن سازی،واحد نظام آبادی ، صفی اورنگ آبادی بحیثیت استاد شاعر کے، محمد محبوب ریسرچ اسکالر، اردو ادب میں ما ںکا ذکر شامل ہیں۔ پرو فیسر مجید بےدار نے ان مقالوں پر تبصرہ فرمایا۔ اکیسویں صدی میں ان مو ضوعات کو وقت کی ایک اہم ضرورت قراردیا۔ انہوں نے کہا کے اردو زبان و ادب کے فروغ کےلئے جو تجاویز یہاں بیاں کی گئی اس کو حکو مت تک پہنچایا جائے اور اردو زبان و ادب کے ان چیلنجز کو قبول کرتے ہوے ادب کے فروغ کےلیے کو شش کی جانی چاہے۔ افتتاحی اجلاس کے فوری بعد اختتامی اجلاس منعقد ہوا۔جس میں جناب تبسم فریدی ایڈیٹر مارننگ ٹائمز نظام آباد ایس لمبا گوڑ پرنسپل ڈاکٹر فضل اللہ مکرم ، پرو فیسر مجید بیدارنے شرکت کی 'جسکی صدارت جناب نصیر الدین صاحب نے کی اور اردو کے مسائل کے حل کے لئے اردو اساتذہ اور اداروں کو آگے آنے پر زور دیا۔ مقالہ نگاروں کو مہمانان خصوصی کے ہاتھوں سند اور مومنٹو پیش کئے گئے۔ اس موقع پر یوجی سی کوآرڈینیٹر مسٹر نریش کمار ریاستی صدر اے پی جی سی ٹی اے کی گلپوشی کی گئی۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے شکریہ پر دورزہ اردو سمینار کا اختتام عمل میں آیا۔ سمینار کے انعقاد کے لئے محمد عبدالعزیز سہیل ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی' محمد عابد علی 'سید حسب الر حمٰن'سید وارث علی 'محمد الیاس'میر یوسف علی'عائیشہ سلطانہ وغیرہ نے سر گرم حصہ لیا۔
یہا ں یہ ذکر بےجا نا ہو گا کہ اس سمینار نے نہ صرف شہر نظام آباد بلکہ ریاست آندھراپردیش میں ایک تاریخ رقم کی ہے۔ بالخصوص نئے ریسر چ اسکالر س کو مقالہ پیش کرنے کا مواقع فراہم کیا گیا۔ سمینار کی خاصیت یہ بھی رہی کہ گولڈن جو بلی ہا ل جس میں ٥٠٠ افراد کی گنجا ئش تھی اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہا تھا۔ سمینار میں نہ صرف مقالے پیش کرنے والوں کو سر ٹیفکیٹ اور مو منٹو دئے گئے شریک طلباء و طالبات کو بھی سر ٹیفکیٹ عطا کئے گئے۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی کی کوششوں نے اس سمینار کو کامیابی عطا کی۔ اس سمینار کے کامیاب انعقاد اور فروغ اردو کے لئے ان کی کوشش کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔
میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل مگر
لو گ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گی
ا۔

میں اپنے فن کی بلندی سے کام لے لونگا  

   مجھے مقام نہ دو میں مقام لے لو نگا

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے