منگل، 18 اگست، 2020

گلزار ایک ممتاز شاعر اورکامیاب تخلیق کار

گلزار ایک ممتاز شاعر اورکامیاب تخلیق کار

ڈاکٹرعزیز سہیل

    گلزار 18ا گسٹ1936ء میں
پاکستان کے شہر جہلم کے قریب دینہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سمپیورن سنگھ ہے۔وہ ملک کی تقسیم کے وقت ہندوستان چلے آئے تھے۔ان کی کامیاب شاعری نے انہیں فلمی دنیاکی جانب سفر کرنے کیلئے مجبور کیا۔اور وہ فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے ۔وہ ایک ممتاز شاعر کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ہدایت کار کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔انہوں نے فلموں کیلئے بہترین نغمے لکھے اور اپنی منفردپہچان بنائی۔وہ بیک وقت اردو اور ہندی کے شاعر ہیں۔وہ لمبے عرصہ سے فلمی دنیا سے منسلک ہیں انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے قومی یکجہتی کیلئے کارگر کردار ادا کیا ہے۔ان کے نغمے ہندوسانی فلموںکی پہچان ہے۔گلزارؔ کے نغمے کافی مقبول عام ہیں اور اکثر لوگوں کی زبان زدعام ہیں۔اردو میں گلزار کا شعری مجموعہ'' چاند پکھراج کا''1995ء،دھواں 1997 ء ، یار جلا ہے2009 ء ،پندارہ پانچ پچھتر2010 ء ، اور "دستخط" (اردو کہانیاں) شائع ہو چکی ہیں۔گلزار کی غزلوں کو جگجیت سنگھ نے اپنی آوازمیں گایا تھا جوآڈیو البم "مراسم" کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
    ''گلزار نے بطور ہدایتکار اجازت ، انگور ، دل سے ، معصوم آندھی، پریچے، موسم اور ماچس جیسی فلمیں بنائیں۔ ان کا ٹیلی ڈرامہ مرزا غالب ایک کلاسیک کی حیثت رکھتا ہے۔گلزار نے بطور شاعر بے شمار فلموں میں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی فلمی شاعری میں بھی ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ ان کے انوکھے اور نادر تشہبات کا استعمال ان کے گیتوں میں نئے رنگ بھر دیتا ہے۔ ان کے گیت نہ صرف ماضی میں پسند کیے جاتے رہے ہیں بلکہ آج کے دور میں بھی ان کے گانوں کو نوجوان شوق سے سنتے ہیں۔چندسال قبل ریلیز ہوئی مشہور فلم بنٹی اور ببلی کے سپرہٹ گانے 'کجرا رے' کو نہیں بھولے یا پھر فلم اوم کارا کا انتہائی مقبول گانا 'بیڑی جلائی لے' یا پھر حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم کمینے کا ہٹ نغمہ 'رات کے بارہ بجے' ہو جو آج بھی ٹاپ دس گانوں کی فہرست میں شامل رہتا ہے، گلزار کی قلم سے نکلا ہر نغمہ عوام کے دل و دماغ پر مخصوص چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ فلم سلم ڈاگ ملینئیر کے لیے لکھے گئے گیتوں پر ان کو آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔گلزار نے 20 سے زائدفلم فیئراور سیکڑوں قومی و بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نا م کئے ہیں''۔(گلزار کی شاعری۔اردو پوائنٹ)
    گلزار نے اردو زبان کی خصوصیت ،محبت وار اس کی دلفریبی سے متاثر ہوکر ایک خوبصورت نظم ''اردو زباں '' لکھی جس کے چند مصرعہ ملاحظہ ہو۔
    یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا۔۔۔    مزاگھلتا ہے لفظوں کا زباں پر۔۔۔۔    کہ جیسے پان میںمہنگا قمام گھلتاہے۔۔۔    
    یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا۔۔۔    نشہ آتا ہے اردو بولنے میں۔۔۔۔ گلوری کی طرح ہیںمنہ لگی سب اصطلاحیں۔۔۔۔
    لطف دیتی ہے،حلق چھوتی ہے اردوتو،حلق سے جیسے مے کا گھونٹ اترتا ہے۔۔۔۔۔۔
    گلزارکی شاعری میں تہذیبی ، ثقافتی ،سماجی پس منظرقدرت کی منظر نگاری،حسن کاری،عشق ومحبت،یکجہتی کے پہلونمایاں طورپر محسوس کئے جاتے ہیں۔ان کے نظموں میں انسانی زندگی کے نشیب و فراز ، جذبات واحساسات ، تجربات و مشاہدات کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔گلزار نے اردو شاعری کے ذریعے خوب نام کمایا ہے۔عصر ی منظر نامہ میں فلمی دنیا میں اردو کو زندہ رکھنے والوں میں گلزار کا نام نمایاں طورپر ابھر کر سامنے آتا ہے۔
    گلزار نے جہاں نظمیں لکھی ہیں وہیںغزل کے دامن کو اپنی شاعری کے ذریعے بہت وسیع کیا ہے۔ان کی غزلیں اپنے اندار ایک انفرادیت رکھتی ہیں۔ان کی مشہور غزل سے چند اشعار؎
        گلوںکو سنناذرا تم صدائیں بھیجی ہے    گلوںکے ہاتھ بہت سی دعائیں بھیجی ہیں
        جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں    ہمارا دل ہے اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں
        اگر جلائے تمہیں بھی شفا ملے شاید    اک ایسے دردکی تم کو شعا عیں بھیجی ہیں
    گلزارؔکے فن شاعری اور سلاست اور نغمگی کو بیان کرتے ہوئے غلام شبیر لکھتے ہیں۔
    ''گلزار کی شاعری کی سادگی ، سلاست اور سہل ممتنع اندازادب کے قاری کے قلب اور رو ح کی گہرا ئیوں میں اتر کر اسے مسحورکر دیتا ہے۔ اس نے با لعمو م نظم معر یٰ کو و سیلہء اظہا ر بنا یا ہے۔ اس کے شعری تجربوں میں تر وینی کو خا ص اہمیت حا صل ہے۔گلزار ہی نظم کی اس طرزِ خاص کا مو جد ہے۔ تین مصرعوں پر مشتمل یہ نظم اپنے اختصار اورجا معیت کی بدولت اثر آفرینی میں اپنی مثال آپ ہے۔ گلزار کی بصیرت اور حس مزاح کا امتزاج اس کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔مو جو دہ دور کی زندگی میں جو نا گہا نی مصائب آ تے ہیں، انہیں گلزار نے پورے خلو ص،فنی مہارت اور درد مندی کے ساتھ اپنی شا عری کا مو ضو ع بنا یا ہے۔''(گلزار:ایک مطالعہ،ہماری ویب)
    ایورڈواعزازات:گلزار نے اردو اور ہندی زبانوںمیں شاعری کی ان کے لکھے نغمے لاکھوں افراد کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ انھیں2002ء میں ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ 2004 ء میں ہندوستان کی حکومت کی جانب سے پدما بھوشن ایورڈ سے نوازا گیا۔ان کی خدمات کے سلسلے میں 11ویں اوسِیانز سِنے فین فلم فیسٹیول کی جانب سے 2009ء کا لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دسے سرفرازکیا گیا۔ سال 2013 ء کے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی انھیں عطا کیاگیاجوفلمی دنیا کے شعبہ میں ہندوستان کا اعلیٰ ترین ایوارڈ ہے جو حکومت ہند کی جانب سے سالانہ دیاجاتا ہے۔ یہ ایک قومی اعزاز ہے۔جنوری 2010ء میں ڈینی بوئل کی فلم "سلم ڈاگ ملینئر" کے گیت "جئے ہو" کیلئے گرامی ایوارڈانہیں حاصل ہوا۔ گلزار نے اب تک 20سے زئد فلم فیئر ایورڈ اور سیکڑوں قومی و بین الاقوامی ایورڈ حاصل کرتے ہوئے فلم انڈسٹیز میں اپنی گہری چھاپ ثابت کی ہے۔
    گلزار نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے ترانہ کوبھی لکھا ہے۔جس کا اجراء 2014 میں عمل میں آیا تھا اس سلسلہ میں منعقدہ تقریب میں گلزار صاحب نے شرکت کی تھی اور ترآنہ پیش کیا تھا۔بہر حال ایک کامیاب فن کار کی حیثیت سے گلزار نے اردو شاعری میں اپنی تخلیق کے ذریعے بہت گل بکھرے ہیں،ان کے فن کی بدولت وہ اردو شاعری میں ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے۔یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے ک2007ء ماہنامہ انشاء نے گلزار نمبر شائع کیا تھا جس کو کافی مقبولیت ملی تھی جس میں گلزار کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کی شاعری کو اجاگر کیا گیا تھا۔اس مختصر سے مضمون میں گلزار کی شخصیت کے چند پہلووں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ورنہ یہ کہ گلزار کی شاعری اور فن پرتحقیق کے ذریعے ایک ضخیم مقالہ تیار ہوسکتا ہے۔گلزار کے اشعار پر مضمو ن کو ختم کرتا ہوں۔
    ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے        وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
    جس کی آواز میں سلوٹ ہو ،نگاہوں میں شکن    ایسی تصویر کے ٹکڑ ے نہیں جو ڑا کرتے
    لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو    ایسے دریا کا کبھی رْخ نہیں موڑا کرتے

 

  

لیبلز:

جمعہ، 14 اگست، 2020

جدوجہد ِآزادی اور اُردو زبان و ادب

 

جدوجہد ِآزادی اور اُردو زبان و ادب
ڈاکٹر عزیز سہیل
    ہمارا ملک ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہاجاتاہے 15/اگست1947ء کو انگریزوں کی غلامی سے مکمل طورپر آزاد ہوا۔ اسی لئے ہر سال ہم یوم آزادی کاجشن مناتے ہیں۔ آزادی سے قبل ہمارے اسلاف نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں مختلف تحریکات چلائیںاور انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا تب ہی ہمیں یہ آزادی کا دن نصیب ہوا۔ آزادی کی پہلی جنگ1857ء کولڑی گئی جسے غدر کا نام دیاجاتاہے۔ اس جنگ سے قبل شاہ ولی اللہؒ اور ان کے ساتھیوں نے آزادی کی لڑائیاں لڑیں، نواب سراج الدولہ نے بھی آزادی کیلئے میدان جنگ میں حصہ لیا ۔ ٹیپو سلطان ؒ آزادی کی جنگ میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے یہ تمام افراد مسلمان ہی تھے مسلمانوں نے اپنے ملک عزیز کو آزاد کرانے کیلئے دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں بھرپورحصہ لیا اور اپنی جانوں ،مالوں کی قربانیاں پیش کیں اور ہمارے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروایا۔ 1857ء سے 1947ء تک پورے 90سال میں جنگ آزادی کیلئے مختلف تحریکات کے ذریعہ انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیاگیا جس میں خاص کر مسلمانوں نے ہندوؤں ، سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ حصہ لیا اور اپنی جانیں قربان کیں مختلف تکالیف برداشت کیں اور سزاؤں کا سامنا کیا تب ہی ہمیں مکمل آزادی نصیب ہوئی۔ 1857 ء کی پہلی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں مسلمانوں کو ناکامی ہوئی مگراسی ناکامیابی نے کامیابی کیلئے مواقع فراہم کئے اور اسی جنگ نے ہر فرد کے اندر آزادی کا جوش جذبہ منصوبہ اور ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کا نشانہ عطا کیا۔ بہادر شاہ ظفر کو گرفتارکرکے مقدمہ چلایاگیا۔یہ جدوجہد جنگ آزادی کی ابتداء تھی۔
جب بھی آتا ہے یوم آزادی آرزو دل میں کسمساتی ہے
جان جوکر گئے نثار وطن ان شہیدوں کی یاد آتی ہے
تحریک آزادی میں خواتین کاکردار:۔
    آزادی کے متوالوں نے ہندوستان کو مکمل آزادی دلانے کے لئے جو قربانیاں دیں ان میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی آزادی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جن میں بعض خواتین، بیگمات، رانیاں اور پردہ پوش گھریلو خواتین بھی شامل تھیں۔ جنہوں نے آزادی کے خواب کو اپنے سینوں میں جگالیا اور مردوں کے شانہ بہ شانہ جدوجہد آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ تاریخ پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر کامیابی میں خواتین کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور رہا ہے چاہے وہ مذہب کا معاملہ ہویا دنیاوی کاموں کا، خواتین کے تعاون کے بغیر کوئی چیز تکمیل کو نہیں پہنچتی۔
    جن خواتین نے جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا ہے ان میں قابل ذکر جھانسی کی رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، آبادی بانو بیگم (بی اماں)، سروجنی نائیڈو، سبز پوش خاتون(جون آف آرک) بی بی امت الاسلام، اصغری بیگم، نشاط النساء بیگم،بیگم زینت محل، کستور باگاندھی، کملا نہرو، سکینہ لقمانی وغیرہ نے ہندوستان کی آزادی میں بہت ہی اہم رول ادا کیا۔ اگر ان بہادر خواتین کی فہرست تیار کی جائے جنہوںنے اس آزادی کی اس تحریک میں حصہ لیا ہے تو ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جائے گی۔1858ء میں انگریزوں نے گوالیار کے قلعہ پر حملہ کیا۔ جہاں جھانسی کی رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بڑی دلیری ہمت سے لڑتے ہوئے انگریزی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔ بیگم حضرت محل یہ اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم ہیں جنہوںنے انگریزوں سے مقابلہ کیا اور جنگ میں اتر آئیں ،بدقسمتی سے انہیں جنگ میں ناکامی نصیب ہوئی ۔ سروجنی نائیڈو تحریک آزادی ہند کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ جنہوںنے اپنی تحریروں اور نظموں و تقاریر کے ذریعہ آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا اور مختلف تحریکات چلائیں۔ سبز پوش خاتون، جنہیں جان آف آرک کہاجاتاہے یہ دہلی کی ایک دلیر پردہ نشین ضعیف خاتون تھیں جنہوںنے ملک ہندوستان کی آزادی میں مردانہ لباس پہن کر گھوڑے پر سوار ہوکر انگریزوں کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا اور بہادری سے لڑتی رہیں ۔ بندوق چلانے میں ماہر تھیں اور موت کے ڈر سے بے خوف رہتی تھیں۔ نشاط النساء بیگم مولانا حسرت موہانی کی اہلیہ تھیں۔ جنہیں اردو فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا انہوںنے اخبارات کو بیان دینے سے لے کر تمام سیاسی رہنماؤں سے خط و کتابت کے ذریعہ تحریک کا کام کیا اور مولانا کاہر موقع پر کھل کر ساتھ دیا انہیں ہر قدم پہ حوصلہ دیا وہ ایک دلیر اورحوصلہ مند خاتون تھیں۔ آبادی بانو بیگم (بی اماں) جو عظیم مجاہدین آزادی محمد علی اور شوکت علی کی والدہ ماجدہ تھیں انہوںنے ہندوستانی کی آزادی میں محرک رول ادا کیا اوراپنی اولاد کو بھی حب الوطنی کی تعلیم دی ۔ تحریک آزادی ہند میں متعددخواتین نے بھرپور حصہ لیا اور اپنے مال اور اولاد کی عظیم قربانیاں پیش کیں اور انگریزوں سے اپنے وطن کو آزاد کرانے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔
تحریک آزادی اور اردو زبان و ادب:۔
    جس طرح آزادی ہند کی تحریک میں دیگر زبانوں کے ادب نے بھرپور حصہ لیا وہیں اردو زبان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ اردو زبان ہی نے ''انقلاب زندہ باد'' کا نعرہ دیا اور محبان وطن کو اسی زبان نے یہ ترانہ ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا'' عطا کیا۔ جدوجہد آزادی میں اردو ادب نے آزادی کی تحریکات کو آگے بڑھانے میںنمایاں کرداراداکیا ہے ۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ایک طویل نظم ''حب وطن'' کے عنوان سے لکھی۔سرسید احمدخاں کی رہنمائی میں سماجی اصلاح کی عظیم الشان تحریک کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر سر علامہ اقبال نے اس وقت کے حالات کے پیش نظر ایک نظم'' ترانہ ہندوستان'' لکھی تھی۔ جسے اب قومی ترانے کے طورپر بھی وقتاً فوقتاً پڑھا اور گایا جاتاہے ۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا
    علامہ اقبال نے اپنی نظموں کے ذریعہ آپسی اتحاد اور رواداری کو فروغ دیا ان کی نظموں ''صدائے اردو''1902ء ''تصویر درد'' 1904ء میں اہل وطن کو آگاہ کیاگیا ہے
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے ائے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
    علامہ اقبال ؒ نے ہندوستانی عوام میں آزادی کا جذبہ پید اکیا ان کی شاعری نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری انسانیت کےلئے نہایت اہم سرمایہ ہے ۔
    بسمل عظیم آبادی ایک نوجوان نہایت حساس و جذباتی انسان تھے اور وہ ایک انقلابی شاعر تھے انہوںنے1919ء کے بعد ایک ایسی غزل تخلیق کی جس میں انگریزوں کے خلاف سرکٹانے کی بات کہی گئی۔ غزل کا یہ شعر دیکھیں
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔۔۔۔۔۔دیکھنا ہے زور کتنابازوئے قاتل میں ہے
    اردو نظموں میں شاعروں نے اور بھی زیادہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ ظفر علی خاں اور جوش کی شاعری نے جس طرح انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کو للکارا اس کی مثال شاید ہی کسی ہندوستانی زبان کی شاعری میں ملے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون ِدل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زندگی ان کی ہے دین ان کا ہے ، دنیا ان کی ہے
جن کی جانیں قوم کی عزت پہ قرباں ہوگئیں
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کبھی خدمت انگریز نہ کرتے
(حسرت موہانی)
    پریم چند نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں انگریزوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور ظالم و جابر حکومت کے خلاف آزادی کا نعرہ بلند کیا جس میں مزدوروں اور کسانوںکا استحصال ہورہاتھا گوشہ عاقبت، میدان عمل ، چوگان ہستی ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔
    مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی صحافت اور اپنی تقاریر کے ذریعہ مسلمانوں میں آزادی کا شعور بیدار کیا اور انہیں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی ترغیب دی۔ مسلمانوں کو بتلایا کہ ملک کی ترقی اور آزادی کی ذمہ داری تو ان کے سروں پر خدائے ذوالجلال کی طرف سے ہے دنیا میں صداقت کے لئے جہاد اور انسانوں کو انسانی غلامی سے نجات دلانا تو اسلام کا قدرتی مشن ہے وہ الہلال میں رقمطراز ہیں ''یادرکھئے کہ ہندوؤں کے لئے آزاد ی کیلئے جدوجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے مگر آپ کیلئے ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔''
    اردو زبان و ادب نے آزادی کے لئے ماحول کو سازگار کیا اور اردو زبان نے ہی آزادی کے متوالوں کے دلوں میں احساس اورجذبہ بیدار کیا اور اس مقصد کیلئے مشکل سے مشکل قربانیوں کا حوصلہ پیداکیا ساتھ ہی ہندوستانیوں کے دلوں میں سرفروشی ، جاں بازی اور حب الوطنی کے شعلوں کو اس طرح بھڑکایا کہ حصول آزادی تک ان کے جوش و جذبہ میں کبھی کمی نہ آئی۔
جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خوں ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
تحریک آزادی اور صحافت:۔
    ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو اخبارات نے بھی بہت ہی نمایاں رول انجام دیاہے۔ آزادی کی جنگ میں صحافت کی دنیا میں سب سے پہلے شہید ہونے والابھی اردو زبان کاہی ایک عظیم المرتبت صحافی مولوی محمد باقر تھا ۔ اردو صحافت کی تاریخ آزادی کا ایک روشن باب ہے اردو صحافیوں نے قومی یکجہتی، ملکی سلامتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علاوہ اپنی بے باک تحریروں اور شعلہ انگیز شاعری سے ہندوستان کی تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ مولوی محمد باقرکو شمالی ہند میں اردو صحافت کے بانی اور قائد کی حیثیت حاصل ہے انہوںنے دہلی اردو اخبار کے ذریعہ انگریزوں کو للکاراتھا۔ صادق الاخبار دہلی کاایک اور بے باک اخبار تھا اس کے ایڈیٹر مولوی جمیل الدین تھے وہ بھی انگریزوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوئے۔1903ء میں مولانا حسرت موہانی نے اردو معلیٰ شروع کیا جس کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف ولولہ انگیز مضامین شائع ہوئے جس سے انگریزی سرکار کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے انہیں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور انہوںنے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی الہلال اور البلاغ کے ذریعہ تحریک آزاد ی کے لئے ہندوستانی عوام میں جذبہ بیدار کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف نفرت پیدا کی عوامی شعور کو بیدار کیا جذبہ وطن پرستی پیدا کیا ان کے علاوہ مولانا ظفر علی خاں کا اخبار زمین دار اور مولانا محمد علی جوہر کا اخبار ہمدرد بھی قابل ذکر ہیں۔
    تحریک آزادی کیلئے ہمارے رہنماؤں نے متحدہ ہوکر جدوجہد کی اور اپنی قربانیاں پیش کیںاور ہمیں آزادی دلائی ان کے ان عظیم کارناموں کو آج ہم یوم آزادی کے دن ان کو یادکرکے تازہ کریں اور اپنے اندر جدوجہد کا جذبہ پیدا کریں اور قومی یکجہتی اور امن و اتحاد کی فضاء کو عام کریں۔
میرے لہو کے رنگ سے وطن کی بیڑیاں کٹیں
ورق ورق الٹ چکاتلاش میں میں کمی نہ کی
کتاب حریت میں مگر میری داستاں نہیں
کہیں کوئی پتہ نہیں کہیں کوئی نشان نہیں

 

لیبلز:

پیر، 10 اگست، 2020

ڈاکٹر عزیز سہیل کی تصنیف مولوی محمد عبدا لغفارحیات وخدمات تصنیف کا رسم اجراء




ڈاکٹر عزیز سہیل کی تصنیف مولوی محمد عبدا لغفارحیات وخدمات تصنیف کا رسم اجراء

13اکٹوبر2016ء بروز جمعرات بعد نمازمغرب 6:30بجے لمراگارڈفنکشن ہال بودھن روڈ نظام آباد پر ڈاکٹر عزیز سہیل کی تصنیف مولوی محمد عبدا لغفارحیات وخدمات تصنیف کا رسم اجراء مہمان خصوصی جناب ڈی سرینوس صاحب رکن راجیہ سبھااور جناب حامد محمد خان صاحب امیر حلقہ جماعت اسلامی ہندتلنگانہ کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقع پرمولانا کریم الدین کمال صاحب صدر عیدگاہ کمیٹی مدینہ،جناب قاضی شوکت علی صاحب قاضٰی شہرنظام آباد،مولانا عابد قاسمی صاحب صدر ڈسٹرکٹ حج کمیٹی ،مولانا حیدرقاسمی صاحب ،حبیب احمدصاحب رکن مسلم پرسنل لا کمیٹی و حج کمیٹی نظام آباد، حافظ لائق احمد خان صاحب جمعیت العلماء ہندنظام آباد،جناب ملک معتصم خان صاحب سکریٹری جماعت اسلامی ہند تلنگانہ،جناب ایم این بیگ زاہد صاحب سکریٹری جماعت اسلامی ہند تلنگانہ،جناب عبدالعزیز صاحب سکریٹری جماعت اسلامی ہند تلنگانہ،جناب ایم اے فہیم ڈپٹی میرنظام آباد ،محمد ظفر یحییٰ رکن مسلم پرسنل لا کمیٹی نظام آباد،جناب طارق انصاری قائد ٹی آر ایس،جناب شکور صاحب صدر سینئر سیٹیزنسوسائٹی، نظام آبادو دیگر موجود تھے۔

 

لیبلز:

جمعرات، 6 اگست، 2020

خطہ کوکن اورعبدالرحیم نشتر ؔکی رپورتاژ نگاری

 

خطہ کوکن اورعبدالرحیم نشتر ؔکی رپورتاژ نگاری
ڈاکٹر عزیز سہیل

    اردوادب کے حوالے سے علاقہ کوکن کافی زر خیز علاقہ ہے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اس علاقے اور یہاں کی شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ،اس سرز مین سے اردو کی کئی ممتاز شخصیتیں اٹھی ہیں جن میں قابل ذکرڈاکٹر عبدالکریم نائیک ، قیصر رتناگیری،رفیق ذکریا، حسین دلوی،پروفیسر عبدالستار دلوی ،سلام بن رزاق وغیرہ شامل ہیں ،پچھلے تین دہائیوں سے ایک نام اردو شاعری،بچوں کے اد ب اور غیر افسانوی اد ب کے حوالے سے ہندوستان کی سطح پر گونجا ہے جسے ہم عبدالرحیم نشتر کے نام سے جانتے ہیں۔یہ وہ نام ہے جو بچوں کے ادب کے حوالے سے مستند حوالہ اور پہچان ہے۔عبدالرحیم نشتر نے اپنی پہچان بحیثیت غزل گو شاعر،نظم گو شاعر،بچوں کا شاعر کے بنائی ہے لیکن قدرت نے ان کے اندر ایک اچھے شاعر کے گن کے علاوہ ایک اچھے نثر نگار کی صفت بھی پنہاں کی ہے ۔اگر تقابل کیا جائے تو بحیثیت شاعر،بحیثیت نثر نگارکے عبدالرحیم نشتر کو زیادہ شہرت شاعری میںحاصل ہوئی ہے ۔بحیثیت نثر نگار وہ اتنے زیادہ مقبول نہیں جس کے وجہ وہ خود ہے انہوں نے اپنے آپ کو کبھی نثر نگار کی حیثیت سے پیش نہیںکیا اگر وہ اپنی نثر کو شاعری کے ساتھ ساتھ پیش کرتے تو ان کو اور بھی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی اس لئے کہ ان کے قلم میں وہ طاقت ہے جویکساں طورپر شاعری اور نثر میں انفرادیت رکھتی ہے ۔ادب میں یہ مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایک مقبول شاعر مقبول نثر نگار بھی ہوبہر حال عبدالرحیم نشتر بحیثیت رپورتاژ نگار، ادبی اجلاس ،سمیناروں اور ادبی کارواں کی رپوتاژ رقم کی ہیں
جو کافی اہم اور معیاری ہیںجس کی اپنی ایک تاریخی و تہذیبی اہمیت ہے۔
عبدالرحیم نشتر ؔ کا پہلا رپورتاژ ''بھوپال ایک خواب '' کے عنوان سے ایک کتابی شکل میں 1975ء میں شائع ہوا تھا،اس کے بعد ''چہرہ چہرہ '' کے عنوان سے ایک رپوتاژ ماہنامہ آہنگ گیا میں شائع ہوا،ماہنامہ تحریک دہلی میں ''جیون تیرے کتنے روپ '' کی عنوان سے شائع ہوا۔''عذاب کا فرشتہ '' روزنامہ انقلاب ممبئی اور ماہنامہ تحریک دہلی سے'' ادھورے آکاش'' شائع ہوچکے ہےں۔عبدالرحیم نشتر کے دیگر7 رپورتاژ اخبارات،رسائل کے علاوہ' کوکن میں اردو 'تعلیم تصنیف میںشامل ہےں
جو اس طرح ہیں ''ایک شام کی خوشبو''،''کوکن اردو میلہ ''،''ذہانت کی تلاش''،''تعلیمی سفر جاری ہے ''،''یہ زبان 'یہ روشنی زندہ رہے گی،''کوکن کتناحسین''،''تابناک پہلو''ان کے علاوہ ''سمندر جاگتا ہے'' کے عنوان سے ماہنامہ سب رس حیدرآباد میں اپریل 2016ء کو شائع ہوا تھا۔
    عبدالرحیم نشتر کے مندرجہ بالا رپورتاژ کی فہرست مختصر ہے لیکن ان چند رپورتاژ میں ہم کو ایک تہذیب،تمدن ،ثقافت کے وہ نقوش نمایاں طور پر نظر آتے ہیں جن کے مطالعہ سے سجادظہیر،کرشن چندر اور قرۃ العین حیدرکے دور کی یاد تاز ہوجاتی ہے رپورتاژ لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے عصر حاضر میں جو رپورتاژ لکھے جارہے ہیں ان میں ادبی باریکی بہت کم نظر آتی ہے منظر نگاری بھی نہیں پائی جاتی ۔اکثر رپورتاژ صرف خبریت پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن عبدالرحیم نشتر کی رپورتاژ نگاری میں آنکھوں دیکھا حال،ادبی سرگرمیوں کا مکمل احاطہ،منظر نگاری کا حسین امتزاج،طنز،جزئیات نگاری پورے آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔
    ''ایک شام کی خوشبو''میں عبدالرحیم نشتر نے واشی نئی ممبئی کے ایبٹ ہوٹل میں گیارہ اکٹوبر 1997ء کو منعقدہ ایک شام ابراہیم سندیلکر کے نام سے منعقدہ محفل کی رپورتاژلکھی ہے جس میں انہوں نے منظر نگاری ،مقصدیت اور کوکن کی روایات کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے ،عبدالرحیم نشتر اس رپوتاژ کے آغاز میں اپنے دوست تسنیم انصاری کا تعارف بھی پیش کیا ہے اور ان کلام سے بھی قارئین کو محظوظ کرواتے ہیں دوران رپورٹ وہ کوکن برداری کی خوبیوں کا اظہار بھی بیان کرتے ہیں اس سے متعلق ان کا اظہار بیان ملاحظہ ہو:
    ''کوکنی برداری کی یہ وہ نمایاں خوبی اور جاندار روایت ہے جس کے فیض سے یہاں بے لوث کام کرنے والوں کی تعداد میں تخفیف نہیں ہونے پاتی ۔ایک دوسرے کی عزت، تعظیم و تکریم،قدر دانی اور حوصلہ افزائی کی شاندار روایتوں کے طفیل ،نیاخون بھی خدمت ِقوم و ملت کے لےے ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔دھیرے دھیرے پرانی شمع بجھتی جاتی ہیں اور ملت چاروں طرف سے ٹھاٹیں مارتے ہوئے بحرِ ظلمات میں گھرنے کو ہے لیکن نئے چراغ ،نئی کشتیاں اور نئے پتوار اسے سنبھالنے کے لیے آگے بڑھ آتے ہیں۔بے لوث،بے لاگ اور کسی کی ستائش و صلے کی پروا کیے بغیر ۔کیونکہ انھیں یقین ہے کہ کوکنی برادری کسی جوہر ِقابل کو نظر انداز نہیں کرتی ۔اسے محروم و مایوس نہیں ہونے دیتی ۔''١؎
    مندرجہ بالا رپورتاژ میں عبدالرحیم نشتر نے خوشگوار اندازبیان کو اختیار کیا ہے اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ اس کو لکھا ہے جس کے مطالعہ سے قاری کی دلچسپ برقرار رہتی ہے اور پوری محفل کی روداد سامنے آجاتی ہے۔عبدالرحیم نشتر نے اپنے رپورتاژ نگاری میں علاقہ کوکن کو ہمیشہ نمایاں رکھا ہے یہ ان کی انفرادیت اور جداگانہ انداز ہے۔
    'کوکن اردو میلہ 'میں عبدارحیم نشتر نے گیارہ اپریل 1999ء علامہ لطیفی ہا ل صابو صدیق ممبئی میں منعقد ہ تقریب ''فقیر محمد مستری ۔شخصیت وخدمات''کتاب کے رسم اجراء کی رپورتاژ رقم کی ہےں ۔جس میں انہوں نے ممبئی میںمطلوبہ ٹھکانے پر پہنچنے کی مشکلات سے واقف کروایا،پروگرام ہال کی خوبصورتی کی انہوں نے منظر کشی کی اور فقیر محمد مستری کی شخصیت سے متعارف کیا۔جلسہ کی کاروائی کے ساتھ انہوں نے کوکن میں اردو کی قدردانی بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کی ہے ملاحظہ ہو:
    ''کتاب کی رسم رونمائی کے بعد شمسی صاحب نے اعلان فرمایا کہ اس کتاب کے تقریباََ ساڑھے سات سو نسخے اس محفل میں فروخت ہوگئے ۔یہ سن کر فخر سے میرا سینہ تن گیا۔میں نے لکھا تھا کہ کوکن کے لوگ اردو کے مسیحا ہیں علم وادب کے قدر داں اور دلداہ ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شخصیت و خدمات سے متعلق کتاب بھی ایک بڑی تعداد میں فروخت ہوگئی ۔بے شک ریاست مہارشٹرا میں خطہ ئ کوکن ہی اردو کی پناہ گاہ ہے۔اترپردیش،دہلی اور بہار جو اردو کے گھر کہلاتے ہیں ،اپنی تعلیم گاہوں سے اردو زبان کو بے دخل کرچکے ہیں۔''٢؎
     ''ذہانت کی تلاش ''کے عنوان سے 'عبدالرحیم نشترکی تصنیف
ـــ ''کوکن میں اردو تعلیم ''میں شامل تیسرارپورتاژہے جو 24اگسٹ 1997ء انجمن حمایت الاسلام اردو ہائی اسکول ممبئی میں منعقد سمینار''ٹیلنٹ سرچ۔مسائل اور حل''کی رودادپر مشتمل ہے۔رپورتاژکے ابتداء میں انہوں نے ممبئی میں بارش کے سماںکا خوبصورت نظارہ پیش کیا ہے ۔اس کے بعد ڈاکٹر عبدالکریم نائیک،کیپٹن فقیرمحمد مستری اور ابراہیم سندیلکر کی قوم و ملت کی فلاح و ترقی کے لیے کی جانے والی خدمات کو اجاگر کیا ہے ساتھ ہی محمد علی مقدم یوتھ ویلفیر ایسویشن جدہ اور مبارک کاپڑی کی تعلیمی خدمات کو بھرپور خراج پیش کیا ہے۔ یوتھ ویلفیر ایسویشن کے حوالے سے تعلیم کی اہمیت سے متعلق کیا خوب لکھا ہے۔
    '' یوتھ ویلفیر ایسویشن'کے اراکین یہ چاہتے ہیں کہ فرزندانِ کوکن چھوٹے موٹے پیشوں اور معمولی کاموں پر اکتفانہ کریں زمانہ اکیسویں صدی میں قدم رکھ رہا ہے اور بیدار قومیں سائنسی و تکنیکی تعلیم کی بدولت زندگی کی دوڑ میں آگے نکل رہی ہیں۔ یہ غالبؔاور ذوقؔکا دورہ نہیں ہے کہ قوم کے ہونہار شاعری اور ادب میں مگن رہےں۔یہ تو مقابلہ آرائی اور مسابقت کا زمانہ ہے اگر ہم اسی طرح اپنی کھال میں مست رہے تو دوسری قومیں ہمیں کچل کر آگے نکل جائیں گی اور تب ہم پسماندہ قوم بن کر محض کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے ۔ ہمیں اپنے زندہ اور بیدار ہونے کاثبوت پیش کرنا ہے''ْ٣؎
    عبدارحیم نشتر نے اپنی رپورتاژ نگاری کے ذریعہ ایک طرف تو ادبی پروگراموں کی کاروائی کو پیش کیا ہے اور دوسری جانب ایک ناصح کے طورپر نسل نو کی تربیت کی فکر بیدار کرنے میں نہیں چونکتے ۔ان کے رپورتاژ ادبی چاشنی ،معلومات اور فکر کی بلندگی کا بہترین نمونہ ہے انہوں نے اپنی تحریروں میں تعلیم کی اہمیت ،تہذیب اور تمدن اخلاق وکردار پر بہت لکھا ہے۔
    ''تعلیمی سفر جاری ہے ' یہ عبدالرحیم نشتر کی تصنیف میں شامل چوتھا رپورتاژ ہے جو 20اگسٹ1997 ء کویوتھ ویلفیر ایسویشن جدہ کے اشتراک سے کوکن کے داپولی میں ٹکنیکل لائبریری کے افتتاح کی رپورتاژ ہے جس میں عبدالرحیم نشتر نے مرحوم ایچ بی مقدم اور ان کے لائق فرزند محمد علی مقدم کی فلاحی خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے لائبریری کے افتتاح کی تفصیلات کو رقم کیا ہے ۔عبدالرحیم نشتر ایک کامیاب رپورتاژ نگار ہے ان کے رپورتاژ نگاری کے مطالعہ سے قرۃالعین حیدر کی رپورتاژ نگاری جیسا لطف آتا ہے ۔انہوں نے داپولی کی منظر نگاری کیا خوب کی ہے دیکھیں؎
    ''داپولی پہنچ کر بڑی فرحت محسوس کی کھلاکھلا آسمان ،سرسبز وشاداب اطراف،کوکن کی زراعتی یونیورسٹی اور 'کوکن راجا ہا پوس' کی سرزمین میںداپولی دور تک اپنی جاں بخش ہریالی کے ساتھ پھیلا ہوا تھاہواؤں میں ہلکی ہلکی خوشبو اور بدیع الزماں خاور کے اشعارا ور نظموں کی خوشبو۔نیشنل ہائی اسکول کے وسیع و عریض میدان میں پہنچا تو چاروں طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔''٤؎
    عبدالرحیم نشتر کی رپوتاژ نگاری واقعی بہت خوب اور بہتر منظر نگاری کی اعلی مثال ہے ۔انہوں نے ایک طرف تو اردو کے فروغ کے سلسلہ میں ہونے والے سمیناروں ارو ادبی اجلاسوں کی روداد بیان کی ہیں ان کی غرض وغایت اور شخصیات کا بھی بھرپور تعارف کروایا ہے اور بہت ہی منفرد انداز بیان میں کوکن کی خوبصورتی ی منظر کشی بھی کی ہے۔
    ''یہ زباں،یہ روشنی زندہ رہے گی '''کوکن میں اردو تعلیم 'تصنیف کا ہی حصہ ہے جو پانچواں رپورتاژہے جس میں ''نقش کوکن ٹیلینٹ فورم '' کے تعلیمی کارواں کی تفصیل پیش کی گئی ہے جو 22نومبر 1997ء رتنا گیری ضلع میں تعلقہ چپلون کے واگھیورے کے اسکول سے متعلق ہے جس میں ہندوستان میں اردو زبان کی صورت حال اور کو حکومت کی سرپرستی کے دعوے کو بیان کیا گیا ہے ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں اردو کے فروغ کا تذکرہ کیا گیا ہے ڈاکٹر قاسم دلوی واگھیورے اردو ہائی اسکو ل میں اردو کے فروغ کو بہت ہی عمدہ اور اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے ملاحظہ ہو:
    ''حاجی حسن داؤد رومانی صاحب کی محنت ومشقت ،خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کے خون پسینے سے جگمگاتی ہوئی تعلیم گاہ یہ ثبوت پیش کررہی تھی کہ اس ملک میں اردو کے خلاف کتنا ہی اندھیرا پھیلے ،کتنا ہی غبار چھا جائے لیکن اردو کی روشنی کو روکا نہیں جاسکتا۔جب تک الحاج حسن داؤد رومانی اور ڈاکٹر قاسم دلوی جیسے فدایان تعلیم اور محبان اردو اس ملک میں موجود ہیں یہ زبان یقیناََ زندہ و تابندہ رہے گی جب تک شیفتگان ِ تعلیم کے دم میں دم ہے اردو تعلیم گاہوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاہی رہے گا۔خطہ کوکن میںگذشتہ دس پندرہ برسوں میں جو نئے اردو ہائی اسکول قائم ہوئے ہیں وہ زبان و تعلیم اور ملی افکار کے تحت تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتے جارہے ہیں''٥؎
    عبدالرحیم نشتر کے رپورتاژ میں اردو سے متعلق ایک درد اور کرب کی کیفیت پائی جاتی ہے انہوں اکثر جگہوں پر اردو کے فروغ کے کازکی بات کی ہے ان کے دل میں اردو سے متعلق کافی درد پایا جاتا ہے ۔ انہوں نے منفرد انداز بیان ،تحریر کی خوش اسلوبی سے رپورتاژ رقم کئے ہیں جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہیں۔
    ''کوکن کتنا حسین ہے'' کوکن میں اردو تعلیم کتاب میں شامل چھٹا رپورتاژہے ۔جس میں ممبئی کے تعلیمی کارواں کے پروگرام کی تفصیلات رقم کی گئی ہے۔جو20نومبر سے شروع ہوا تھا۔اس رپورتاژ میں عبدارحیم نشتر نے کوکن کی خوبصورتی کی بہترین منظر نگاری کی ہے ۔ملاحظہ ہو
ـ
:
    ''چپلون کے خوشحال مسلمانو! راہ حیات کے اندھیرے میں چمکتی ہوئی روشنی کی لکیر یعنی اپنے ذوق ِتعلیم کو غنیمت جانو ،روشنی کا دامن وسیع تر کردو تاکہ تعمیر و ترقی کی تیز رفتار سواری بے خوف و خطر آگے ہی آگے نکلتی ہی چلی جائے۔اندھیروں میں ڈوبے ہوئے جنگل ،دریا،پہاڑ اور میدان جب اچانک تیز روشنی میں نہا جاتے ہیں تو آنکھیں بے ساختہ بول اٹھتی ہیں۔'کوکن کتنا حسین ہے''٦؎
    اس رپورتاژ میں عبدالرحیم نشتر نے مہاراشٹرا ہائی اسکول میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں مختلف مقابلہ جات کی تفصیلات پر لطف انداز میں بیان کی ہے ساتھ ہی کوکن کی خوبصورتی کو منفرد اسلوب،منظر نگاری،احساسات،تاثرات اور مشاہدات کو دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔
    ''تابناک پہلو''کوکن میں اردو تعلیم کتاب کا ساتواں اور آخری رپورتاژ ہے جو 22نومبر1998ء کو این ای ایس ہائی اسکول ناگوٹھنہ کے ایک پروگرام کی روداد ہے ۔جس میں انہوں تعلیمی سرگرمیوں اور علی۔ ایم شمسی و دیگر شخصیات کی تعلیمی خدمات کو اجاگر کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
    ''علی ایم شمسی اور غنی غازی کی شرکت نے بھی اس پروگرام کو یادگار بنانے میں نہایت اہم رول ادا کیا تھا وہ شمسی صاحب کے عروج و شباب کا دور تھا ان دنوں شمسی صاحب کے سحر ِخطابت کی دھوم تھی اپنے حسن ِخطابت سے شمسی صاحب نے پورے خطہئ کوکن کو مسحور کر رکھا تھا۔اس دن بھی' وہ کہیںاورسناکر ے کوئی ' کا عالم تھا''٧؎
    اس رپورتاژ میں ایک طرف این ای ایس ہائی اسکول ناگوٹھنہ کے محل وقواع کی تصویر کھینچی گئی ہے وہیں اسکول مدارسین کی خدمات کو پیش کیا گیا ہے ۔اور پروگرام میں شامل دیگر اہم شخصیت کا تعارف بھی کروایا گیا۔جلسہ کی کاروائی کا آنکھوں دیکھا حال پیش کیا ہے۔
    ''سمندر جاگتا ہے ''کے عنوان سے عبدالرحیم نشتر نے 12اور 13فروری2016ء کو ہائی ٹیک اعظم کیمپس پونے میں منعقدہ دوروزہ قومی سمینار' اکیسویں صدی میں اردو فکشن 'کی رپورتاژ لکھی ہے جو اپریل 2016ء ماہنامہ سب رس حیدرآباد میں شائع ہوئی تھی۔اس رپورتاژ میں عبدالرحیم نشتر نے سدی حکمرانوں کے اقتدار کا تذکرہ کیاہے اور ان کے زوال اور ماضی پر اظہار رنج کیا ہے ساتھ ہی مروڈ کے ساحل کا بہت ہی حسین نقشہ کھینچا ہے ۔اور مروڈجنجیرہ کے ساحل پر یکم فروری 2016ء کو پیش آئے واقعہ کا ذکر بھی کیا ہے جس میں عابدہ انعامدار کالج پونے کے 14جان بحق ہونے والے طلبہ پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔وہ پونے شہر سے متعلق لکھتے ہیں :
     ''پونے ۔برسوں سے میرے ذہن اور تصور میں آباد رہاہے ایک عجیب سی کشش ہے اس شہر میں ۔۔یہاں کی فضا اور آب وہوا میں بس جانے اور اسی مٹی کا حصہ ہوجانے کی ایک خواہش سی جاگتی ہے۔چاروں طرف سکون ،شانتی ،اور راحت ۔۔اور من میں کچھ کر گزرنے کی امنگ ۔۔شاید یہی وہ چیز تھی جس پر اورنگ زیب عالم گیر نے فرمایا تھا کہ یہاں کی مٹی قدموں کو جکڑ لیتی ہے ۔ مولانا آزاد ابولکلام آزاد بھی یہاں کی فضا اور آب وہوا میں مسحور سے رہے اور شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی ذہن میں یہاں کے شب وروز یادوں کی بارات بن کر جگماتے رہے ۔''٨؎
    بہرحال عبدالرحیم نشتر نے رپورتاژ نگاری کے ذریعہ خطہ کوکن کی خوبصورتہذیب وتمدن ،روایات،تعلیمی سرگرمیوں کومرکز بنایا ہے انہوں نے مسلم قوم میں تعلیمی بیداری اور فروغ کے سلسلہ میں کوکن کی علمی شخصیات کی فلاحی خدمات کا ذکر اپنے تقریباََ رپورتاژ میں کیا ہے۔ عصر حاضر میں عبدالرحیم نشتر نے اپنی رپورتاژ نگاری کے ذریعے کوکن کی تہذیب اور روایات کو جلا بخشی ہے جو نسل نو کے ایک تاریخی اثاثہ ہے۔
    عبدالرحیم نشتر نے اپنے رپورتاژ میں جگہ جگہ کئی حسین مقامات کا ذکر خوبصورت انداز میں کیا ہے انہوں نے کوکن کے حسین قطعہ ئ کی صرف تعریف و توصیف بیان نہیں کی بلکہ کوکن میں اردوکی صورت حال اوروہاں کے تعلیمی نظام کوبھی پیش کیا ہے ساتھ ہی کوکن میں علم وادب کے فروغ سلسلہ میں خدمات انجام دینے والی شخصیات کا بھر پور تعارف اور ان کو خراج پیش کیا ہے۔عبدالرحیم نشتر نے اپنے نظریات کو بھی ان رپورتاژ میں پیش کیا ہے۔ عبدالرحیم نشتر کی رپورتاژ نگاری کے مطالعہ سے کوکن کی منظرکشی، ماضی کی یاداور بہترمستقبل کے منصوبوں کو بیان کیا ہے اور اپنے گہرے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
    عبدالرحیم نشترعلاقہ کوکن کے ایک اہم رپورتاژ نگار ہےں انہوں نے اپنے رپورتاژ نگاری سے کوکن کے علمی کاروں کو جلا بخشی ہے۔ ان کے یہ آٹھ رپورتاژ اہمیت کے حامل ہے۔جب بھی علاقہ کوکن میں اردو زبان و ادب کا جائزہ لیا جائے گا بحیثیت رپورتاژ نگار عبدالرحیم نشتر کے کا ذکرضرور آئے گا۔
حوالے:

١)عبدالرحیم نشتر،کوکن میں اردو تعلیم ،ص71,72
٢)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص82
٣)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص٩٦
ؐ٤)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص١٠٨
٥)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص١١٣
ٌ٦)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص ١١٩
٧)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص١٢١
٨)عبدالرحیم نشتر، سمندر جاگتا ہے،اپریل ٢٠١٦ء ماہنامہ سب رس حیدرآباد



 

لیبلز:

اتوار، 2 اگست، 2020

ڈاکٹرعزیز سہیل کی تصنیف ’’میزان نو ‘‘کا رسم اجراء




ڈاکٹر عزیز سہیل کی تصنیف ـ"میزان نو" کا رسم اجراء

ڈاکٹر عزیز سہیل کی تصنیف ـ"ـمیزان نو" کا رسم اجراء وی ۔سرینوس گوڑرکن اسمبلی محبوب نگرنے ادارہ ادب اسلامی محبوب نگر کے عظیم الشان کل ہند سنجیدہ و مزاحیہ مشاعرہ منعقدہ24فروری2016 بروز چہارشنبہ الماس فنکشن ہال ،محبوب نگر کے موقع پر انجا م دیا۔اس موقع پرامتیاز اسحاق قائدتلنگانہ راشٹرا سمیتی ، جناب محمد وزیرسابقہ وائس پرنسپل ایم وی ایس کالج ، جناب سید ریاض تنہا صدر ادارہ ادب اسلامی تلنگانہ ،جناب حلیم بابرسر پرست ادارہ و صدر بزم کہکشاں محبوب نگر ،ڈاکٹر شیخ سیادت علی صدر ادارہ ادب اسلامی محبوب نگر ، جنا ب سید تقی الدین سکریٹری جہانگیر پیراں آئی ٹی آئی،جناب محمد مقبول ضلعی صدر اقلیتی سیل ٹی آر ایس محبوب نگر، ڈاکٹر بشیر احمد پرنسپل المدینہ کا لج،ڈاکٹر سید فرید الدین صدر سوٹا ،جناب خواجہ قطب الدین صدر اپوٹا،محبوب نگر،جناب شیخ شجاعت علی امیر مقامی جماعت اسلامی محبوب نگر،جناب محمد علی دانش صدر ادارہ ادب اسلامی جڑچرلہ ،جناب سلیم اقبال،جناب تمیز الدین صدر اردو ڈولپمنٹ سوسائٹی حیدرآباد نے شرکت کی۔اس موقع پر مہمان ومیزبان شعراء بھی موجود تھے۔

 

لیبلز: