گلزار ایک ممتاز شاعر اورکامیاب تخلیق کار

گلزار ایک ممتاز شاعر اورکامیاب تخلیق کار

ڈاکٹرعزیز سہیل

    گلزار 18ا گسٹ1936ء میں
پاکستان کے شہر جہلم کے قریب دینہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سمپیورن سنگھ ہے۔وہ ملک کی تقسیم کے وقت ہندوستان چلے آئے تھے۔ان کی کامیاب شاعری نے انہیں فلمی دنیاکی جانب سفر کرنے کیلئے مجبور کیا۔اور وہ فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے ۔وہ ایک ممتاز شاعر کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ہدایت کار کی حیثیت سے مشہور ہوئے ۔انہوں نے فلموں کیلئے بہترین نغمے لکھے اور اپنی منفردپہچان بنائی۔وہ بیک وقت اردو اور ہندی کے شاعر ہیں۔وہ لمبے عرصہ سے فلمی دنیا سے منسلک ہیں انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے قومی یکجہتی کیلئے کارگر کردار ادا کیا ہے۔ان کے نغمے ہندوسانی فلموںکی پہچان ہے۔گلزارؔ کے نغمے کافی مقبول عام ہیں اور اکثر لوگوں کی زبان زدعام ہیں۔اردو میں گلزار کا شعری مجموعہ'' چاند پکھراج کا''1995ء،دھواں 1997 ء ، یار جلا ہے2009 ء ،پندارہ پانچ پچھتر2010 ء ، اور "دستخط" (اردو کہانیاں) شائع ہو چکی ہیں۔گلزار کی غزلوں کو جگجیت سنگھ نے اپنی آوازمیں گایا تھا جوآڈیو البم "مراسم" کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
    ''گلزار نے بطور ہدایتکار اجازت ، انگور ، دل سے ، معصوم آندھی، پریچے، موسم اور ماچس جیسی فلمیں بنائیں۔ ان کا ٹیلی ڈرامہ مرزا غالب ایک کلاسیک کی حیثت رکھتا ہے۔گلزار نے بطور شاعر بے شمار فلموں میں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی فلمی شاعری میں بھی ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ ان کے انوکھے اور نادر تشہبات کا استعمال ان کے گیتوں میں نئے رنگ بھر دیتا ہے۔ ان کے گیت نہ صرف ماضی میں پسند کیے جاتے رہے ہیں بلکہ آج کے دور میں بھی ان کے گانوں کو نوجوان شوق سے سنتے ہیں۔چندسال قبل ریلیز ہوئی مشہور فلم بنٹی اور ببلی کے سپرہٹ گانے 'کجرا رے' کو نہیں بھولے یا پھر فلم اوم کارا کا انتہائی مقبول گانا 'بیڑی جلائی لے' یا پھر حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم کمینے کا ہٹ نغمہ 'رات کے بارہ بجے' ہو جو آج بھی ٹاپ دس گانوں کی فہرست میں شامل رہتا ہے، گلزار کی قلم سے نکلا ہر نغمہ عوام کے دل و دماغ پر مخصوص چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ فلم سلم ڈاگ ملینئیر کے لیے لکھے گئے گیتوں پر ان کو آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔گلزار نے 20 سے زائدفلم فیئراور سیکڑوں قومی و بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نا م کئے ہیں''۔(گلزار کی شاعری۔اردو پوائنٹ)
    گلزار نے اردو زبان کی خصوصیت ،محبت وار اس کی دلفریبی سے متاثر ہوکر ایک خوبصورت نظم ''اردو زباں '' لکھی جس کے چند مصرعہ ملاحظہ ہو۔
    یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا۔۔۔    مزاگھلتا ہے لفظوں کا زباں پر۔۔۔۔    کہ جیسے پان میںمہنگا قمام گھلتاہے۔۔۔    
    یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا۔۔۔    نشہ آتا ہے اردو بولنے میں۔۔۔۔ گلوری کی طرح ہیںمنہ لگی سب اصطلاحیں۔۔۔۔
    لطف دیتی ہے،حلق چھوتی ہے اردوتو،حلق سے جیسے مے کا گھونٹ اترتا ہے۔۔۔۔۔۔
    گلزارکی شاعری میں تہذیبی ، ثقافتی ،سماجی پس منظرقدرت کی منظر نگاری،حسن کاری،عشق ومحبت،یکجہتی کے پہلونمایاں طورپر محسوس کئے جاتے ہیں۔ان کے نظموں میں انسانی زندگی کے نشیب و فراز ، جذبات واحساسات ، تجربات و مشاہدات کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔گلزار نے اردو شاعری کے ذریعے خوب نام کمایا ہے۔عصر ی منظر نامہ میں فلمی دنیا میں اردو کو زندہ رکھنے والوں میں گلزار کا نام نمایاں طورپر ابھر کر سامنے آتا ہے۔
    گلزار نے جہاں نظمیں لکھی ہیں وہیںغزل کے دامن کو اپنی شاعری کے ذریعے بہت وسیع کیا ہے۔ان کی غزلیں اپنے اندار ایک انفرادیت رکھتی ہیں۔ان کی مشہور غزل سے چند اشعار؎
        گلوںکو سنناذرا تم صدائیں بھیجی ہے    گلوںکے ہاتھ بہت سی دعائیں بھیجی ہیں
        جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں    ہمارا دل ہے اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں
        اگر جلائے تمہیں بھی شفا ملے شاید    اک ایسے دردکی تم کو شعا عیں بھیجی ہیں
    گلزارؔکے فن شاعری اور سلاست اور نغمگی کو بیان کرتے ہوئے غلام شبیر لکھتے ہیں۔
    ''گلزار کی شاعری کی سادگی ، سلاست اور سہل ممتنع اندازادب کے قاری کے قلب اور رو ح کی گہرا ئیوں میں اتر کر اسے مسحورکر دیتا ہے۔ اس نے با لعمو م نظم معر یٰ کو و سیلہء اظہا ر بنا یا ہے۔ اس کے شعری تجربوں میں تر وینی کو خا ص اہمیت حا صل ہے۔گلزار ہی نظم کی اس طرزِ خاص کا مو جد ہے۔ تین مصرعوں پر مشتمل یہ نظم اپنے اختصار اورجا معیت کی بدولت اثر آفرینی میں اپنی مثال آپ ہے۔ گلزار کی بصیرت اور حس مزاح کا امتزاج اس کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔مو جو دہ دور کی زندگی میں جو نا گہا نی مصائب آ تے ہیں، انہیں گلزار نے پورے خلو ص،فنی مہارت اور درد مندی کے ساتھ اپنی شا عری کا مو ضو ع بنا یا ہے۔''(گلزار:ایک مطالعہ،ہماری ویب)
    ایورڈواعزازات:گلزار نے اردو اور ہندی زبانوںمیں شاعری کی ان کے لکھے نغمے لاکھوں افراد کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ انھیں2002ء میں ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ 2004 ء میں ہندوستان کی حکومت کی جانب سے پدما بھوشن ایورڈ سے نوازا گیا۔ان کی خدمات کے سلسلے میں 11ویں اوسِیانز سِنے فین فلم فیسٹیول کی جانب سے 2009ء کا لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دسے سرفرازکیا گیا۔ سال 2013 ء کے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی انھیں عطا کیاگیاجوفلمی دنیا کے شعبہ میں ہندوستان کا اعلیٰ ترین ایوارڈ ہے جو حکومت ہند کی جانب سے سالانہ دیاجاتا ہے۔ یہ ایک قومی اعزاز ہے۔جنوری 2010ء میں ڈینی بوئل کی فلم "سلم ڈاگ ملینئر" کے گیت "جئے ہو" کیلئے گرامی ایوارڈانہیں حاصل ہوا۔ گلزار نے اب تک 20سے زئد فلم فیئر ایورڈ اور سیکڑوں قومی و بین الاقوامی ایورڈ حاصل کرتے ہوئے فلم انڈسٹیز میں اپنی گہری چھاپ ثابت کی ہے۔
    گلزار نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے ترانہ کوبھی لکھا ہے۔جس کا اجراء 2014 میں عمل میں آیا تھا اس سلسلہ میں منعقدہ تقریب میں گلزار صاحب نے شرکت کی تھی اور ترآنہ پیش کیا تھا۔بہر حال ایک کامیاب فن کار کی حیثیت سے گلزار نے اردو شاعری میں اپنی تخلیق کے ذریعے بہت گل بکھرے ہیں،ان کے فن کی بدولت وہ اردو شاعری میں ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے۔یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے ک2007ء ماہنامہ انشاء نے گلزار نمبر شائع کیا تھا جس کو کافی مقبولیت ملی تھی جس میں گلزار کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کی شاعری کو اجاگر کیا گیا تھا۔اس مختصر سے مضمون میں گلزار کی شخصیت کے چند پہلووں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ورنہ یہ کہ گلزار کی شاعری اور فن پرتحقیق کے ذریعے ایک ضخیم مقالہ تیار ہوسکتا ہے۔گلزار کے اشعار پر مضمو ن کو ختم کرتا ہوں۔
    ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے        وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
    جس کی آواز میں سلوٹ ہو ،نگاہوں میں شکن    ایسی تصویر کے ٹکڑ ے نہیں جو ڑا کرتے
    لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو    ایسے دریا کا کبھی رْخ نہیں موڑا کرتے

 

  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے