جدوجہد ِآزادی اور اُردو زبان و ادب

 

جدوجہد ِآزادی اور اُردو زبان و ادب
ڈاکٹر عزیز سہیل
    ہمارا ملک ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہاجاتاہے 15/اگست1947ء کو انگریزوں کی غلامی سے مکمل طورپر آزاد ہوا۔ اسی لئے ہر سال ہم یوم آزادی کاجشن مناتے ہیں۔ آزادی سے قبل ہمارے اسلاف نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں مختلف تحریکات چلائیںاور انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا تب ہی ہمیں یہ آزادی کا دن نصیب ہوا۔ آزادی کی پہلی جنگ1857ء کولڑی گئی جسے غدر کا نام دیاجاتاہے۔ اس جنگ سے قبل شاہ ولی اللہؒ اور ان کے ساتھیوں نے آزادی کی لڑائیاں لڑیں، نواب سراج الدولہ نے بھی آزادی کیلئے میدان جنگ میں حصہ لیا ۔ ٹیپو سلطان ؒ آزادی کی جنگ میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے یہ تمام افراد مسلمان ہی تھے مسلمانوں نے اپنے ملک عزیز کو آزاد کرانے کیلئے دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں بھرپورحصہ لیا اور اپنی جانوں ،مالوں کی قربانیاں پیش کیں اور ہمارے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کروایا۔ 1857ء سے 1947ء تک پورے 90سال میں جنگ آزادی کیلئے مختلف تحریکات کے ذریعہ انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیاگیا جس میں خاص کر مسلمانوں نے ہندوؤں ، سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ حصہ لیا اور اپنی جانیں قربان کیں مختلف تکالیف برداشت کیں اور سزاؤں کا سامنا کیا تب ہی ہمیں مکمل آزادی نصیب ہوئی۔ 1857 ء کی پہلی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں مسلمانوں کو ناکامی ہوئی مگراسی ناکامیابی نے کامیابی کیلئے مواقع فراہم کئے اور اسی جنگ نے ہر فرد کے اندر آزادی کا جوش جذبہ منصوبہ اور ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کا نشانہ عطا کیا۔ بہادر شاہ ظفر کو گرفتارکرکے مقدمہ چلایاگیا۔یہ جدوجہد جنگ آزادی کی ابتداء تھی۔
جب بھی آتا ہے یوم آزادی آرزو دل میں کسمساتی ہے
جان جوکر گئے نثار وطن ان شہیدوں کی یاد آتی ہے
تحریک آزادی میں خواتین کاکردار:۔
    آزادی کے متوالوں نے ہندوستان کو مکمل آزادی دلانے کے لئے جو قربانیاں دیں ان میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی آزادی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جن میں بعض خواتین، بیگمات، رانیاں اور پردہ پوش گھریلو خواتین بھی شامل تھیں۔ جنہوں نے آزادی کے خواب کو اپنے سینوں میں جگالیا اور مردوں کے شانہ بہ شانہ جدوجہد آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ تاریخ پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر کامیابی میں خواتین کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور رہا ہے چاہے وہ مذہب کا معاملہ ہویا دنیاوی کاموں کا، خواتین کے تعاون کے بغیر کوئی چیز تکمیل کو نہیں پہنچتی۔
    جن خواتین نے جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا ہے ان میں قابل ذکر جھانسی کی رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، آبادی بانو بیگم (بی اماں)، سروجنی نائیڈو، سبز پوش خاتون(جون آف آرک) بی بی امت الاسلام، اصغری بیگم، نشاط النساء بیگم،بیگم زینت محل، کستور باگاندھی، کملا نہرو، سکینہ لقمانی وغیرہ نے ہندوستان کی آزادی میں بہت ہی اہم رول ادا کیا۔ اگر ان بہادر خواتین کی فہرست تیار کی جائے جنہوںنے اس آزادی کی اس تحریک میں حصہ لیا ہے تو ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جائے گی۔1858ء میں انگریزوں نے گوالیار کے قلعہ پر حملہ کیا۔ جہاں جھانسی کی رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بڑی دلیری ہمت سے لڑتے ہوئے انگریزی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔ بیگم حضرت محل یہ اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم ہیں جنہوںنے انگریزوں سے مقابلہ کیا اور جنگ میں اتر آئیں ،بدقسمتی سے انہیں جنگ میں ناکامی نصیب ہوئی ۔ سروجنی نائیڈو تحریک آزادی ہند کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ جنہوںنے اپنی تحریروں اور نظموں و تقاریر کے ذریعہ آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا اور مختلف تحریکات چلائیں۔ سبز پوش خاتون، جنہیں جان آف آرک کہاجاتاہے یہ دہلی کی ایک دلیر پردہ نشین ضعیف خاتون تھیں جنہوںنے ملک ہندوستان کی آزادی میں مردانہ لباس پہن کر گھوڑے پر سوار ہوکر انگریزوں کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا اور بہادری سے لڑتی رہیں ۔ بندوق چلانے میں ماہر تھیں اور موت کے ڈر سے بے خوف رہتی تھیں۔ نشاط النساء بیگم مولانا حسرت موہانی کی اہلیہ تھیں۔ جنہیں اردو فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا انہوںنے اخبارات کو بیان دینے سے لے کر تمام سیاسی رہنماؤں سے خط و کتابت کے ذریعہ تحریک کا کام کیا اور مولانا کاہر موقع پر کھل کر ساتھ دیا انہیں ہر قدم پہ حوصلہ دیا وہ ایک دلیر اورحوصلہ مند خاتون تھیں۔ آبادی بانو بیگم (بی اماں) جو عظیم مجاہدین آزادی محمد علی اور شوکت علی کی والدہ ماجدہ تھیں انہوںنے ہندوستانی کی آزادی میں محرک رول ادا کیا اوراپنی اولاد کو بھی حب الوطنی کی تعلیم دی ۔ تحریک آزادی ہند میں متعددخواتین نے بھرپور حصہ لیا اور اپنے مال اور اولاد کی عظیم قربانیاں پیش کیں اور انگریزوں سے اپنے وطن کو آزاد کرانے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔
تحریک آزادی اور اردو زبان و ادب:۔
    جس طرح آزادی ہند کی تحریک میں دیگر زبانوں کے ادب نے بھرپور حصہ لیا وہیں اردو زبان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ اردو زبان ہی نے ''انقلاب زندہ باد'' کا نعرہ دیا اور محبان وطن کو اسی زبان نے یہ ترانہ ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا'' عطا کیا۔ جدوجہد آزادی میں اردو ادب نے آزادی کی تحریکات کو آگے بڑھانے میںنمایاں کرداراداکیا ہے ۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ایک طویل نظم ''حب وطن'' کے عنوان سے لکھی۔سرسید احمدخاں کی رہنمائی میں سماجی اصلاح کی عظیم الشان تحریک کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر سر علامہ اقبال نے اس وقت کے حالات کے پیش نظر ایک نظم'' ترانہ ہندوستان'' لکھی تھی۔ جسے اب قومی ترانے کے طورپر بھی وقتاً فوقتاً پڑھا اور گایا جاتاہے ۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا
    علامہ اقبال نے اپنی نظموں کے ذریعہ آپسی اتحاد اور رواداری کو فروغ دیا ان کی نظموں ''صدائے اردو''1902ء ''تصویر درد'' 1904ء میں اہل وطن کو آگاہ کیاگیا ہے
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے ائے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
    علامہ اقبال ؒ نے ہندوستانی عوام میں آزادی کا جذبہ پید اکیا ان کی شاعری نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری انسانیت کےلئے نہایت اہم سرمایہ ہے ۔
    بسمل عظیم آبادی ایک نوجوان نہایت حساس و جذباتی انسان تھے اور وہ ایک انقلابی شاعر تھے انہوںنے1919ء کے بعد ایک ایسی غزل تخلیق کی جس میں انگریزوں کے خلاف سرکٹانے کی بات کہی گئی۔ غزل کا یہ شعر دیکھیں
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔۔۔۔۔۔دیکھنا ہے زور کتنابازوئے قاتل میں ہے
    اردو نظموں میں شاعروں نے اور بھی زیادہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ ظفر علی خاں اور جوش کی شاعری نے جس طرح انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کو للکارا اس کی مثال شاید ہی کسی ہندوستانی زبان کی شاعری میں ملے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون ِدل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زندگی ان کی ہے دین ان کا ہے ، دنیا ان کی ہے
جن کی جانیں قوم کی عزت پہ قرباں ہوگئیں
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کبھی خدمت انگریز نہ کرتے
(حسرت موہانی)
    پریم چند نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں انگریزوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور ظالم و جابر حکومت کے خلاف آزادی کا نعرہ بلند کیا جس میں مزدوروں اور کسانوںکا استحصال ہورہاتھا گوشہ عاقبت، میدان عمل ، چوگان ہستی ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔
    مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی صحافت اور اپنی تقاریر کے ذریعہ مسلمانوں میں آزادی کا شعور بیدار کیا اور انہیں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی ترغیب دی۔ مسلمانوں کو بتلایا کہ ملک کی ترقی اور آزادی کی ذمہ داری تو ان کے سروں پر خدائے ذوالجلال کی طرف سے ہے دنیا میں صداقت کے لئے جہاد اور انسانوں کو انسانی غلامی سے نجات دلانا تو اسلام کا قدرتی مشن ہے وہ الہلال میں رقمطراز ہیں ''یادرکھئے کہ ہندوؤں کے لئے آزاد ی کیلئے جدوجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے مگر آپ کیلئے ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔''
    اردو زبان و ادب نے آزادی کے لئے ماحول کو سازگار کیا اور اردو زبان نے ہی آزادی کے متوالوں کے دلوں میں احساس اورجذبہ بیدار کیا اور اس مقصد کیلئے مشکل سے مشکل قربانیوں کا حوصلہ پیداکیا ساتھ ہی ہندوستانیوں کے دلوں میں سرفروشی ، جاں بازی اور حب الوطنی کے شعلوں کو اس طرح بھڑکایا کہ حصول آزادی تک ان کے جوش و جذبہ میں کبھی کمی نہ آئی۔
جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خوں ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
تحریک آزادی اور صحافت:۔
    ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو اخبارات نے بھی بہت ہی نمایاں رول انجام دیاہے۔ آزادی کی جنگ میں صحافت کی دنیا میں سب سے پہلے شہید ہونے والابھی اردو زبان کاہی ایک عظیم المرتبت صحافی مولوی محمد باقر تھا ۔ اردو صحافت کی تاریخ آزادی کا ایک روشن باب ہے اردو صحافیوں نے قومی یکجہتی، ملکی سلامتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علاوہ اپنی بے باک تحریروں اور شعلہ انگیز شاعری سے ہندوستان کی تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ مولوی محمد باقرکو شمالی ہند میں اردو صحافت کے بانی اور قائد کی حیثیت حاصل ہے انہوںنے دہلی اردو اخبار کے ذریعہ انگریزوں کو للکاراتھا۔ صادق الاخبار دہلی کاایک اور بے باک اخبار تھا اس کے ایڈیٹر مولوی جمیل الدین تھے وہ بھی انگریزوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوئے۔1903ء میں مولانا حسرت موہانی نے اردو معلیٰ شروع کیا جس کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف ولولہ انگیز مضامین شائع ہوئے جس سے انگریزی سرکار کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے انہیں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور انہوںنے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی الہلال اور البلاغ کے ذریعہ تحریک آزاد ی کے لئے ہندوستانی عوام میں جذبہ بیدار کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف نفرت پیدا کی عوامی شعور کو بیدار کیا جذبہ وطن پرستی پیدا کیا ان کے علاوہ مولانا ظفر علی خاں کا اخبار زمین دار اور مولانا محمد علی جوہر کا اخبار ہمدرد بھی قابل ذکر ہیں۔
    تحریک آزادی کیلئے ہمارے رہنماؤں نے متحدہ ہوکر جدوجہد کی اور اپنی قربانیاں پیش کیںاور ہمیں آزادی دلائی ان کے ان عظیم کارناموں کو آج ہم یوم آزادی کے دن ان کو یادکرکے تازہ کریں اور اپنے اندر جدوجہد کا جذبہ پیدا کریں اور قومی یکجہتی اور امن و اتحاد کی فضاء کو عام کریں۔
میرے لہو کے رنگ سے وطن کی بیڑیاں کٹیں
ورق ورق الٹ چکاتلاش میں میں کمی نہ کی
کتاب حریت میں مگر میری داستاں نہیں
کہیں کوئی پتہ نہیں کہیں کوئی نشان نہیں

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے