خطہ کوکن اورعبدالرحیم نشتر ؔکی رپورتاژ نگاری

 

خطہ کوکن اورعبدالرحیم نشتر ؔکی رپورتاژ نگاری
ڈاکٹر عزیز سہیل

    اردوادب کے حوالے سے علاقہ کوکن کافی زر خیز علاقہ ہے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اس علاقے اور یہاں کی شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ،اس سرز مین سے اردو کی کئی ممتاز شخصیتیں اٹھی ہیں جن میں قابل ذکرڈاکٹر عبدالکریم نائیک ، قیصر رتناگیری،رفیق ذکریا، حسین دلوی،پروفیسر عبدالستار دلوی ،سلام بن رزاق وغیرہ شامل ہیں ،پچھلے تین دہائیوں سے ایک نام اردو شاعری،بچوں کے اد ب اور غیر افسانوی اد ب کے حوالے سے ہندوستان کی سطح پر گونجا ہے جسے ہم عبدالرحیم نشتر کے نام سے جانتے ہیں۔یہ وہ نام ہے جو بچوں کے ادب کے حوالے سے مستند حوالہ اور پہچان ہے۔عبدالرحیم نشتر نے اپنی پہچان بحیثیت غزل گو شاعر،نظم گو شاعر،بچوں کا شاعر کے بنائی ہے لیکن قدرت نے ان کے اندر ایک اچھے شاعر کے گن کے علاوہ ایک اچھے نثر نگار کی صفت بھی پنہاں کی ہے ۔اگر تقابل کیا جائے تو بحیثیت شاعر،بحیثیت نثر نگارکے عبدالرحیم نشتر کو زیادہ شہرت شاعری میںحاصل ہوئی ہے ۔بحیثیت نثر نگار وہ اتنے زیادہ مقبول نہیں جس کے وجہ وہ خود ہے انہوں نے اپنے آپ کو کبھی نثر نگار کی حیثیت سے پیش نہیںکیا اگر وہ اپنی نثر کو شاعری کے ساتھ ساتھ پیش کرتے تو ان کو اور بھی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی اس لئے کہ ان کے قلم میں وہ طاقت ہے جویکساں طورپر شاعری اور نثر میں انفرادیت رکھتی ہے ۔ادب میں یہ مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایک مقبول شاعر مقبول نثر نگار بھی ہوبہر حال عبدالرحیم نشتر بحیثیت رپورتاژ نگار، ادبی اجلاس ،سمیناروں اور ادبی کارواں کی رپوتاژ رقم کی ہیں
جو کافی اہم اور معیاری ہیںجس کی اپنی ایک تاریخی و تہذیبی اہمیت ہے۔
عبدالرحیم نشتر ؔ کا پہلا رپورتاژ ''بھوپال ایک خواب '' کے عنوان سے ایک کتابی شکل میں 1975ء میں شائع ہوا تھا،اس کے بعد ''چہرہ چہرہ '' کے عنوان سے ایک رپوتاژ ماہنامہ آہنگ گیا میں شائع ہوا،ماہنامہ تحریک دہلی میں ''جیون تیرے کتنے روپ '' کی عنوان سے شائع ہوا۔''عذاب کا فرشتہ '' روزنامہ انقلاب ممبئی اور ماہنامہ تحریک دہلی سے'' ادھورے آکاش'' شائع ہوچکے ہےں۔عبدالرحیم نشتر کے دیگر7 رپورتاژ اخبارات،رسائل کے علاوہ' کوکن میں اردو 'تعلیم تصنیف میںشامل ہےں
جو اس طرح ہیں ''ایک شام کی خوشبو''،''کوکن اردو میلہ ''،''ذہانت کی تلاش''،''تعلیمی سفر جاری ہے ''،''یہ زبان 'یہ روشنی زندہ رہے گی،''کوکن کتناحسین''،''تابناک پہلو''ان کے علاوہ ''سمندر جاگتا ہے'' کے عنوان سے ماہنامہ سب رس حیدرآباد میں اپریل 2016ء کو شائع ہوا تھا۔
    عبدالرحیم نشتر کے مندرجہ بالا رپورتاژ کی فہرست مختصر ہے لیکن ان چند رپورتاژ میں ہم کو ایک تہذیب،تمدن ،ثقافت کے وہ نقوش نمایاں طور پر نظر آتے ہیں جن کے مطالعہ سے سجادظہیر،کرشن چندر اور قرۃ العین حیدرکے دور کی یاد تاز ہوجاتی ہے رپورتاژ لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے عصر حاضر میں جو رپورتاژ لکھے جارہے ہیں ان میں ادبی باریکی بہت کم نظر آتی ہے منظر نگاری بھی نہیں پائی جاتی ۔اکثر رپورتاژ صرف خبریت پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن عبدالرحیم نشتر کی رپورتاژ نگاری میں آنکھوں دیکھا حال،ادبی سرگرمیوں کا مکمل احاطہ،منظر نگاری کا حسین امتزاج،طنز،جزئیات نگاری پورے آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔
    ''ایک شام کی خوشبو''میں عبدالرحیم نشتر نے واشی نئی ممبئی کے ایبٹ ہوٹل میں گیارہ اکٹوبر 1997ء کو منعقدہ ایک شام ابراہیم سندیلکر کے نام سے منعقدہ محفل کی رپورتاژلکھی ہے جس میں انہوں نے منظر نگاری ،مقصدیت اور کوکن کی روایات کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے ،عبدالرحیم نشتر اس رپوتاژ کے آغاز میں اپنے دوست تسنیم انصاری کا تعارف بھی پیش کیا ہے اور ان کلام سے بھی قارئین کو محظوظ کرواتے ہیں دوران رپورٹ وہ کوکن برداری کی خوبیوں کا اظہار بھی بیان کرتے ہیں اس سے متعلق ان کا اظہار بیان ملاحظہ ہو:
    ''کوکنی برداری کی یہ وہ نمایاں خوبی اور جاندار روایت ہے جس کے فیض سے یہاں بے لوث کام کرنے والوں کی تعداد میں تخفیف نہیں ہونے پاتی ۔ایک دوسرے کی عزت، تعظیم و تکریم،قدر دانی اور حوصلہ افزائی کی شاندار روایتوں کے طفیل ،نیاخون بھی خدمت ِقوم و ملت کے لےے ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔دھیرے دھیرے پرانی شمع بجھتی جاتی ہیں اور ملت چاروں طرف سے ٹھاٹیں مارتے ہوئے بحرِ ظلمات میں گھرنے کو ہے لیکن نئے چراغ ،نئی کشتیاں اور نئے پتوار اسے سنبھالنے کے لیے آگے بڑھ آتے ہیں۔بے لوث،بے لاگ اور کسی کی ستائش و صلے کی پروا کیے بغیر ۔کیونکہ انھیں یقین ہے کہ کوکنی برادری کسی جوہر ِقابل کو نظر انداز نہیں کرتی ۔اسے محروم و مایوس نہیں ہونے دیتی ۔''١؎
    مندرجہ بالا رپورتاژ میں عبدالرحیم نشتر نے خوشگوار اندازبیان کو اختیار کیا ہے اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ اس کو لکھا ہے جس کے مطالعہ سے قاری کی دلچسپ برقرار رہتی ہے اور پوری محفل کی روداد سامنے آجاتی ہے۔عبدالرحیم نشتر نے اپنے رپورتاژ نگاری میں علاقہ کوکن کو ہمیشہ نمایاں رکھا ہے یہ ان کی انفرادیت اور جداگانہ انداز ہے۔
    'کوکن اردو میلہ 'میں عبدارحیم نشتر نے گیارہ اپریل 1999ء علامہ لطیفی ہا ل صابو صدیق ممبئی میں منعقد ہ تقریب ''فقیر محمد مستری ۔شخصیت وخدمات''کتاب کے رسم اجراء کی رپورتاژ رقم کی ہےں ۔جس میں انہوں نے ممبئی میںمطلوبہ ٹھکانے پر پہنچنے کی مشکلات سے واقف کروایا،پروگرام ہال کی خوبصورتی کی انہوں نے منظر کشی کی اور فقیر محمد مستری کی شخصیت سے متعارف کیا۔جلسہ کی کاروائی کے ساتھ انہوں نے کوکن میں اردو کی قدردانی بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کی ہے ملاحظہ ہو:
    ''کتاب کی رسم رونمائی کے بعد شمسی صاحب نے اعلان فرمایا کہ اس کتاب کے تقریباََ ساڑھے سات سو نسخے اس محفل میں فروخت ہوگئے ۔یہ سن کر فخر سے میرا سینہ تن گیا۔میں نے لکھا تھا کہ کوکن کے لوگ اردو کے مسیحا ہیں علم وادب کے قدر داں اور دلداہ ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شخصیت و خدمات سے متعلق کتاب بھی ایک بڑی تعداد میں فروخت ہوگئی ۔بے شک ریاست مہارشٹرا میں خطہ ئ کوکن ہی اردو کی پناہ گاہ ہے۔اترپردیش،دہلی اور بہار جو اردو کے گھر کہلاتے ہیں ،اپنی تعلیم گاہوں سے اردو زبان کو بے دخل کرچکے ہیں۔''٢؎
     ''ذہانت کی تلاش ''کے عنوان سے 'عبدالرحیم نشترکی تصنیف
ـــ ''کوکن میں اردو تعلیم ''میں شامل تیسرارپورتاژہے جو 24اگسٹ 1997ء انجمن حمایت الاسلام اردو ہائی اسکول ممبئی میں منعقد سمینار''ٹیلنٹ سرچ۔مسائل اور حل''کی رودادپر مشتمل ہے۔رپورتاژکے ابتداء میں انہوں نے ممبئی میں بارش کے سماںکا خوبصورت نظارہ پیش کیا ہے ۔اس کے بعد ڈاکٹر عبدالکریم نائیک،کیپٹن فقیرمحمد مستری اور ابراہیم سندیلکر کی قوم و ملت کی فلاح و ترقی کے لیے کی جانے والی خدمات کو اجاگر کیا ہے ساتھ ہی محمد علی مقدم یوتھ ویلفیر ایسویشن جدہ اور مبارک کاپڑی کی تعلیمی خدمات کو بھرپور خراج پیش کیا ہے۔ یوتھ ویلفیر ایسویشن کے حوالے سے تعلیم کی اہمیت سے متعلق کیا خوب لکھا ہے۔
    '' یوتھ ویلفیر ایسویشن'کے اراکین یہ چاہتے ہیں کہ فرزندانِ کوکن چھوٹے موٹے پیشوں اور معمولی کاموں پر اکتفانہ کریں زمانہ اکیسویں صدی میں قدم رکھ رہا ہے اور بیدار قومیں سائنسی و تکنیکی تعلیم کی بدولت زندگی کی دوڑ میں آگے نکل رہی ہیں۔ یہ غالبؔاور ذوقؔکا دورہ نہیں ہے کہ قوم کے ہونہار شاعری اور ادب میں مگن رہےں۔یہ تو مقابلہ آرائی اور مسابقت کا زمانہ ہے اگر ہم اسی طرح اپنی کھال میں مست رہے تو دوسری قومیں ہمیں کچل کر آگے نکل جائیں گی اور تب ہم پسماندہ قوم بن کر محض کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے ۔ ہمیں اپنے زندہ اور بیدار ہونے کاثبوت پیش کرنا ہے''ْ٣؎
    عبدارحیم نشتر نے اپنی رپورتاژ نگاری کے ذریعہ ایک طرف تو ادبی پروگراموں کی کاروائی کو پیش کیا ہے اور دوسری جانب ایک ناصح کے طورپر نسل نو کی تربیت کی فکر بیدار کرنے میں نہیں چونکتے ۔ان کے رپورتاژ ادبی چاشنی ،معلومات اور فکر کی بلندگی کا بہترین نمونہ ہے انہوں نے اپنی تحریروں میں تعلیم کی اہمیت ،تہذیب اور تمدن اخلاق وکردار پر بہت لکھا ہے۔
    ''تعلیمی سفر جاری ہے ' یہ عبدالرحیم نشتر کی تصنیف میں شامل چوتھا رپورتاژ ہے جو 20اگسٹ1997 ء کویوتھ ویلفیر ایسویشن جدہ کے اشتراک سے کوکن کے داپولی میں ٹکنیکل لائبریری کے افتتاح کی رپورتاژ ہے جس میں عبدالرحیم نشتر نے مرحوم ایچ بی مقدم اور ان کے لائق فرزند محمد علی مقدم کی فلاحی خدمات کو اجاگر کرتے ہوئے لائبریری کے افتتاح کی تفصیلات کو رقم کیا ہے ۔عبدالرحیم نشتر ایک کامیاب رپورتاژ نگار ہے ان کے رپورتاژ نگاری کے مطالعہ سے قرۃالعین حیدر کی رپورتاژ نگاری جیسا لطف آتا ہے ۔انہوں نے داپولی کی منظر نگاری کیا خوب کی ہے دیکھیں؎
    ''داپولی پہنچ کر بڑی فرحت محسوس کی کھلاکھلا آسمان ،سرسبز وشاداب اطراف،کوکن کی زراعتی یونیورسٹی اور 'کوکن راجا ہا پوس' کی سرزمین میںداپولی دور تک اپنی جاں بخش ہریالی کے ساتھ پھیلا ہوا تھاہواؤں میں ہلکی ہلکی خوشبو اور بدیع الزماں خاور کے اشعارا ور نظموں کی خوشبو۔نیشنل ہائی اسکول کے وسیع و عریض میدان میں پہنچا تو چاروں طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔''٤؎
    عبدالرحیم نشتر کی رپوتاژ نگاری واقعی بہت خوب اور بہتر منظر نگاری کی اعلی مثال ہے ۔انہوں نے ایک طرف تو اردو کے فروغ کے سلسلہ میں ہونے والے سمیناروں ارو ادبی اجلاسوں کی روداد بیان کی ہیں ان کی غرض وغایت اور شخصیات کا بھی بھرپور تعارف کروایا ہے اور بہت ہی منفرد انداز بیان میں کوکن کی خوبصورتی ی منظر کشی بھی کی ہے۔
    ''یہ زباں،یہ روشنی زندہ رہے گی '''کوکن میں اردو تعلیم 'تصنیف کا ہی حصہ ہے جو پانچواں رپورتاژہے جس میں ''نقش کوکن ٹیلینٹ فورم '' کے تعلیمی کارواں کی تفصیل پیش کی گئی ہے جو 22نومبر 1997ء رتنا گیری ضلع میں تعلقہ چپلون کے واگھیورے کے اسکول سے متعلق ہے جس میں ہندوستان میں اردو زبان کی صورت حال اور کو حکومت کی سرپرستی کے دعوے کو بیان کیا گیا ہے ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں اردو کے فروغ کا تذکرہ کیا گیا ہے ڈاکٹر قاسم دلوی واگھیورے اردو ہائی اسکو ل میں اردو کے فروغ کو بہت ہی عمدہ اور اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے ملاحظہ ہو:
    ''حاجی حسن داؤد رومانی صاحب کی محنت ومشقت ،خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کے خون پسینے سے جگمگاتی ہوئی تعلیم گاہ یہ ثبوت پیش کررہی تھی کہ اس ملک میں اردو کے خلاف کتنا ہی اندھیرا پھیلے ،کتنا ہی غبار چھا جائے لیکن اردو کی روشنی کو روکا نہیں جاسکتا۔جب تک الحاج حسن داؤد رومانی اور ڈاکٹر قاسم دلوی جیسے فدایان تعلیم اور محبان اردو اس ملک میں موجود ہیں یہ زبان یقیناََ زندہ و تابندہ رہے گی جب تک شیفتگان ِ تعلیم کے دم میں دم ہے اردو تعلیم گاہوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاہی رہے گا۔خطہ کوکن میںگذشتہ دس پندرہ برسوں میں جو نئے اردو ہائی اسکول قائم ہوئے ہیں وہ زبان و تعلیم اور ملی افکار کے تحت تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتے جارہے ہیں''٥؎
    عبدالرحیم نشتر کے رپورتاژ میں اردو سے متعلق ایک درد اور کرب کی کیفیت پائی جاتی ہے انہوں اکثر جگہوں پر اردو کے فروغ کے کازکی بات کی ہے ان کے دل میں اردو سے متعلق کافی درد پایا جاتا ہے ۔ انہوں نے منفرد انداز بیان ،تحریر کی خوش اسلوبی سے رپورتاژ رقم کئے ہیں جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہیں۔
    ''کوکن کتنا حسین ہے'' کوکن میں اردو تعلیم کتاب میں شامل چھٹا رپورتاژہے ۔جس میں ممبئی کے تعلیمی کارواں کے پروگرام کی تفصیلات رقم کی گئی ہے۔جو20نومبر سے شروع ہوا تھا۔اس رپورتاژ میں عبدارحیم نشتر نے کوکن کی خوبصورتی کی بہترین منظر نگاری کی ہے ۔ملاحظہ ہو
ـ
:
    ''چپلون کے خوشحال مسلمانو! راہ حیات کے اندھیرے میں چمکتی ہوئی روشنی کی لکیر یعنی اپنے ذوق ِتعلیم کو غنیمت جانو ،روشنی کا دامن وسیع تر کردو تاکہ تعمیر و ترقی کی تیز رفتار سواری بے خوف و خطر آگے ہی آگے نکلتی ہی چلی جائے۔اندھیروں میں ڈوبے ہوئے جنگل ،دریا،پہاڑ اور میدان جب اچانک تیز روشنی میں نہا جاتے ہیں تو آنکھیں بے ساختہ بول اٹھتی ہیں۔'کوکن کتنا حسین ہے''٦؎
    اس رپورتاژ میں عبدالرحیم نشتر نے مہاراشٹرا ہائی اسکول میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں مختلف مقابلہ جات کی تفصیلات پر لطف انداز میں بیان کی ہے ساتھ ہی کوکن کی خوبصورتی کو منفرد اسلوب،منظر نگاری،احساسات،تاثرات اور مشاہدات کو دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔
    ''تابناک پہلو''کوکن میں اردو تعلیم کتاب کا ساتواں اور آخری رپورتاژ ہے جو 22نومبر1998ء کو این ای ایس ہائی اسکول ناگوٹھنہ کے ایک پروگرام کی روداد ہے ۔جس میں انہوں تعلیمی سرگرمیوں اور علی۔ ایم شمسی و دیگر شخصیات کی تعلیمی خدمات کو اجاگر کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
    ''علی ایم شمسی اور غنی غازی کی شرکت نے بھی اس پروگرام کو یادگار بنانے میں نہایت اہم رول ادا کیا تھا وہ شمسی صاحب کے عروج و شباب کا دور تھا ان دنوں شمسی صاحب کے سحر ِخطابت کی دھوم تھی اپنے حسن ِخطابت سے شمسی صاحب نے پورے خطہئ کوکن کو مسحور کر رکھا تھا۔اس دن بھی' وہ کہیںاورسناکر ے کوئی ' کا عالم تھا''٧؎
    اس رپورتاژ میں ایک طرف این ای ایس ہائی اسکول ناگوٹھنہ کے محل وقواع کی تصویر کھینچی گئی ہے وہیں اسکول مدارسین کی خدمات کو پیش کیا گیا ہے ۔اور پروگرام میں شامل دیگر اہم شخصیت کا تعارف بھی کروایا گیا۔جلسہ کی کاروائی کا آنکھوں دیکھا حال پیش کیا ہے۔
    ''سمندر جاگتا ہے ''کے عنوان سے عبدالرحیم نشتر نے 12اور 13فروری2016ء کو ہائی ٹیک اعظم کیمپس پونے میں منعقدہ دوروزہ قومی سمینار' اکیسویں صدی میں اردو فکشن 'کی رپورتاژ لکھی ہے جو اپریل 2016ء ماہنامہ سب رس حیدرآباد میں شائع ہوئی تھی۔اس رپورتاژ میں عبدالرحیم نشتر نے سدی حکمرانوں کے اقتدار کا تذکرہ کیاہے اور ان کے زوال اور ماضی پر اظہار رنج کیا ہے ساتھ ہی مروڈ کے ساحل کا بہت ہی حسین نقشہ کھینچا ہے ۔اور مروڈجنجیرہ کے ساحل پر یکم فروری 2016ء کو پیش آئے واقعہ کا ذکر بھی کیا ہے جس میں عابدہ انعامدار کالج پونے کے 14جان بحق ہونے والے طلبہ پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔وہ پونے شہر سے متعلق لکھتے ہیں :
     ''پونے ۔برسوں سے میرے ذہن اور تصور میں آباد رہاہے ایک عجیب سی کشش ہے اس شہر میں ۔۔یہاں کی فضا اور آب وہوا میں بس جانے اور اسی مٹی کا حصہ ہوجانے کی ایک خواہش سی جاگتی ہے۔چاروں طرف سکون ،شانتی ،اور راحت ۔۔اور من میں کچھ کر گزرنے کی امنگ ۔۔شاید یہی وہ چیز تھی جس پر اورنگ زیب عالم گیر نے فرمایا تھا کہ یہاں کی مٹی قدموں کو جکڑ لیتی ہے ۔ مولانا آزاد ابولکلام آزاد بھی یہاں کی فضا اور آب وہوا میں مسحور سے رہے اور شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی ذہن میں یہاں کے شب وروز یادوں کی بارات بن کر جگماتے رہے ۔''٨؎
    بہرحال عبدالرحیم نشتر نے رپورتاژ نگاری کے ذریعہ خطہ کوکن کی خوبصورتہذیب وتمدن ،روایات،تعلیمی سرگرمیوں کومرکز بنایا ہے انہوں نے مسلم قوم میں تعلیمی بیداری اور فروغ کے سلسلہ میں کوکن کی علمی شخصیات کی فلاحی خدمات کا ذکر اپنے تقریباََ رپورتاژ میں کیا ہے۔ عصر حاضر میں عبدالرحیم نشتر نے اپنی رپورتاژ نگاری کے ذریعے کوکن کی تہذیب اور روایات کو جلا بخشی ہے جو نسل نو کے ایک تاریخی اثاثہ ہے۔
    عبدالرحیم نشتر نے اپنے رپورتاژ میں جگہ جگہ کئی حسین مقامات کا ذکر خوبصورت انداز میں کیا ہے انہوں نے کوکن کے حسین قطعہ ئ کی صرف تعریف و توصیف بیان نہیں کی بلکہ کوکن میں اردوکی صورت حال اوروہاں کے تعلیمی نظام کوبھی پیش کیا ہے ساتھ ہی کوکن میں علم وادب کے فروغ سلسلہ میں خدمات انجام دینے والی شخصیات کا بھر پور تعارف اور ان کو خراج پیش کیا ہے۔عبدالرحیم نشتر نے اپنے نظریات کو بھی ان رپورتاژ میں پیش کیا ہے۔ عبدالرحیم نشتر کی رپورتاژ نگاری کے مطالعہ سے کوکن کی منظرکشی، ماضی کی یاداور بہترمستقبل کے منصوبوں کو بیان کیا ہے اور اپنے گہرے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
    عبدالرحیم نشترعلاقہ کوکن کے ایک اہم رپورتاژ نگار ہےں انہوں نے اپنے رپورتاژ نگاری سے کوکن کے علمی کاروں کو جلا بخشی ہے۔ ان کے یہ آٹھ رپورتاژ اہمیت کے حامل ہے۔جب بھی علاقہ کوکن میں اردو زبان و ادب کا جائزہ لیا جائے گا بحیثیت رپورتاژ نگار عبدالرحیم نشتر کے کا ذکرضرور آئے گا۔
حوالے:

١)عبدالرحیم نشتر،کوکن میں اردو تعلیم ،ص71,72
٢)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص82
٣)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص٩٦
ؐ٤)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص١٠٨
٥)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص١١٣
ٌ٦)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص ١١٩
٧)۔    ۔۔    ایضاََ۔۔۔ص١٢١
٨)عبدالرحیم نشتر، سمندر جاگتا ہے،اپریل ٢٠١٦ء ماہنامہ سب رس حیدرآباد



 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے