ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

مہجری ادب ،برطانیہ اور حبیب حیدرآبادی



 مہجری ادب ،برطانیہ اور حبیب حیدرآبادی

ڈاکٹرعزیز سہیل

ہندوستان کی آزادی اور تقسیم ملک کے بعد برصغیر سے کافی تعداد میں لوگ فکر معاش کے لیے خلیجی ممالک'یورپ'امریکہ اور آسٹریلیا گئے۔ اور ان میں سے اکثر بیرون ملک ہی مقیم رہے۔ ایسے لوگ تارکین وطن کہلاتے ہیں۔ تارکین وطن اپنے ساتھ اپنی زبان اپنی تہذیب لے گئے اور جس جگہ بسے وہاں انہوں نے اپنی زبان و تہذیب کے نقوش چھوڑے۔ برطانیہ تارکین وطن کا اہم ملک رہا۔ یہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی بڑی آبادی اپنے اندر رکھتا ہے۔ اور وہاں اردو زبان و تہذیب نے بھی جڑ پکڑنا شروع کیا۔ برصغیر سے جانے والوں نے برطانیہ میں اردو کے فروغ کی شعوری کوشش کی جس کی بناء برطانیہ برصغیر کے بعد اردو کی دوسری بڑی بستی بن گیا۔ حیدرآباد دکن سے برطانیہ میں مستقل قیام کرنے والے اور اردو زبان و ادب کے فروغ میں بے پناہ خدمت انجام دینے والے جو ادیب و شاعر مشہور ہیں ان کا نام عبدالقادر حبیب حیدرآبادی ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی نے حبیب حیدرآبادی کاتعارف اور ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''حیدرآباد سے برطانیہ منتقل ہونے والوں میں ایک نام حبیب حیدرآبادی کا ہے جنہوں نے اپنے قیام برطانیہ کے دوران نہ صرف وہاں اردو زبان اور ذریعہ تعلیم کو فروغ دیا بلکہ اپنی تصانیف کے ذریعے برطانیہ میں اردو کی ترقی اور وہاں کی تہذیب وتمدن کو بھی محفوظ کیا ،عبدالقادر صاحب حبیب حیدرآبادی کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کا مقبول عام تعارف یہ ہے کہ وہ اردو کے نامور محقق،نقاد،شاعر اور پروفیسر مغنی تبسم کے بہنوائی رہے ،ان کی اہلیہ صدیقہ شبنم ایک اچھی شاعرہ ہیں اور نامور افسانہ نگار عوض سعید ان کے ہم زلف رہے ہیں ،حبیب حیدرآبادی 1960ء کی دہائی میں حصول معاش کے لئے برطانیہ منتقل ہوئے اور وہ اپنی حیات کے باقی ایام میں انہوں وہاں فروغ اردو کے بے شمار کام انجام دئے ۔١؎
    حبیب حیدرآبادی نے برطانیہ میں قیام کے دوران فروغ اردو کی جو شعوری کوشش کی اس سے وہاں اردو کے مہجری ادب کو پروان چڑھانے میں بھی مدد ملی۔
حبیب حیدرآبادی:
    حبیب حیدرآبادی 29اپریل 1929ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے وہ متوسط اور ایک شریف گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے ،ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد محترم سے حاصل کی ،اردو،عربی،فارسی اور دینیات پر عبور رکھتے تھے ۔انہوں نے کامرس سے گریجویشن نظام کالج حیدرآباد سے تکمیل کیا ،ان کی شادی اپریل 1952ء کو پروفیسر مغنی تبسم کی ہمشیرہ سے انجام پائی انہوں نے 1955ء کو ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی ،1957ء میں انہوں نے پاکستان سے انگلستان کوہجرت کی۔انگلینڈ میں انہوں نے اکاونٹس کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سکونت اختیار کی حبیب حیدرآبادی نے لند ن کی ایک کمپنی میںڈائرکٹر اور چیف اکاونٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دی۔انگلینڈ میں ابتدائی قیام کا دور ان کے مشکلات سے بھرا رہا ،وہ ایک محنتی شخص تھے ابتداء سے ہی وہ سخت محنت کیا کرتے تھے ،وہ ایک ملنسار ،خوش مزاج،مخلص انسان تھے ۔ہر ایک کا درد وغم ان کاپنا درد ہوتا تھا،بڑوں سے ادب اور چھوٹوں سے شفقت کے ساتھ پیش آتے دوستو ں سے ہمیشہ خوش مزاج اور گرم جوشی سے ملا کرتے تھے ۔ان کے ادبی سفر کا آغاز 12سال کی عمر سے ہوا ،ابتداء میں وہ ایک روزنامچہ لکھا کرتے تھے۔بچپن سے ہی شعر وادب سے لگاؤ رہاحبیب حیدرآبادی سے متعلق عوض سعید نے اپنی تصنیف خاکے میں لکھا ہے کہ ''آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہوکہ حبیب صاحب نے آنجہانی مہاراجہ کرشن پرشاد شاد کی شعری محفلوں میں شرکت کی ہے انہیں کلام سناتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔جب یہ باتیں حبیب صاحب مجھے سنارہے تھے تو میں فرطِ حیرت میں ڈوبا ہوا تھا،اس وقت آپ کی کیا عمر رہی ہوگی ۔میرے سوال پر حبیب صاحب نے کہا ''یہی کوئی پانچ برس''٢؎
    حبیب حیدرآبادی نظام کالج کی اردو میگزین''نظام ادب ''کے مدیر بھی رہے ہیں،حیدرآباد دکن میں بچوں کی ادبی کانفرنس 1948ء میں انہوں نے خصوصی طور پر انعقاد عمل میں لایا تھا۔ان کی نگرانی میں حیدآباد میں کئی کل ہند مشاعروں کا انعقاد بھی عمل میں آیا تھا۔حبیب حیدرآبادی کو اپنے استاد محترم ڈاکٹر محی الدین قادری زور سے بڑا گہرا لگاو، رہا۔اس عرصہ میں ادارہ ادبیات اردو کی جانب سے بچوں کے لیے رسالہ ''سب رس '' جاری ہوا تو وہ اس کے مدیر کی حیثیت سے انہوں خدمات انجام دی ،انہوں نے حضرت خواجہ حسن نظامی سے بھی استفادہ کیا 1967ء میں وہ اپنے دورہ حیدرآباد کے موقع پر مخدوم محی الدین،سلیمان اریب،ڈاکٹر وحید اختر،شاذ تمکنت،عوض سعید ،مغنی تبسم اور زبیر رضوی سے خصوصی ملاقات کی ان لوگوں نے بھی حبیب حیدرآبادی کا استقبال کیا۔
    انگلینڈ میں حبیب حیدرآبادی کے ایام مشکلات بھرے رہے وہ کئی دنوں تک غم روزگار میں درکرداں رہے ،جب ان کے حالات زندگی میں کچھ اطمنان آیا تو انہوں نے برطانیہ میں اردو زبان و ادب کی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔انہوں نے ناٹنگھم میں اپنی نوعیت کی پہلی اردو لائبریری کا قیام عمل میں لایا 1966میں انہوں نے ناٹنگھم میں اردو کا پہلا آل انگلینڈ مشاعرے کا کامیاب انعقاد عمل میں لایا۔اس کے بعد ناٹنگھم میں مشاعروں کا باضابطہ آغاز ہوگیا اور ہر سال مشاعرہ کا پابندی سے انعقاد عمل لایا جاتا رہاانہوں نے ڈارٹ فورڈ میں اکیڈیمی آ ف اردو اسٹڈیز قائم کی ۔ان کا سرطان جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے 7مارچ 1989ء میں انتقال ہوگیا۔
        جب ایک فرد اپنے وطن عزیز سے ذریعے معاش یا حالات کی پریشانی کے باعث ہجرت کرتا ہے تو ہمیشہ اس کا دل وطن کی یاد اور تڑپ میں سرکردں رہتا ہے ۔ہجرت کوئی معمولی بات نہیں ہے جب کوئی نئے مقام پر ہم ہجرت کرتے ہیں تو وہاں ہمارا کوئی مددگار نہیں ہوتا ہر مسئلہ کا حل ہم کو ہی تلاش کرنا ہوتا ہے ،اس کرب کو حبیب حیدرآبادی نے اپنے تحریروں میں بیان کیا ہے ۔
    حبیب حیدرآبادی نے اپنی کتاب'' انگلستان میں'' برطانیہ میں اپنے ابتدائی ایام کے بارے میں لکھا ہے جس سے ان کی کرب بھرے حالات زندگی کا اندازہ ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں ''یہاں آنے کے بعد بڑے پاپڑ بیلنے پڑے ،مزدوری کرنی پڑی،گوداموں میں کام کرنا پڑا،بس کنڈیکٹر ی کی ،ٹیکسی چلائی ،کوئی کام ایسا نہیں ہوگا جو میں یہاں آنے کے بعد نہ کیا ہو ،صبح چار بجے سے رات کے بارہ بجے کئی کئی مہینوں مسلسل کام کرنا پڑا،موزوں مکان آسانی سے نہیں ملتے تھے اور اگر ملتے بھی تھے تو ان کا کرایہ میری استطاعت سے بہت زیادہ ہوتا تھا''٣؎
    حبیب حیدرآبادی نے اپنی کتاب میں ان پر ہونے والے جان لیوا حملہ کا ذکر بھی کیا ہے۔جس میں انگریز نے سفر کے دوران ٹرین پر ہندوستانی ہونے کے ناطے حملہ کردیا اس کا منشا تھا کہ ٹرین سے ان کوپھینک دئے لیکن حبیب حیدرآبادی نے اپنی دفاع اچھے سے کی اور ٹرین کی چین کھینچنے میں کامیاب ہوگئے ۔اس واقع کو عوض سعید نے اپنی کتاب خاکے میں نقل کیا ہے ۔حبیب حیدرآبادی نے اپنے ایک انشائیہ ''ہماری ہجرت '' میں برطانیہ کے ماحول اور صحافت کے رویہ سے متعلق لکھتے ہیں ''انگلستان میں ہم گزشتہ تیس برس سے ہیں ،سوٹ پہنتے ہیں ،ٹائی باندھتے ہیں ،کبھی کبھی چھری کانٹنے اور چمچے کابھی استعمال کرتے ہیں ،مقامی لوگوں کی بری باتوں کوزیادہ اور اچھی باتوں کو کم اپنائے ہوئے ہیں پھر بھی یہاں کی صحافت ہم کومہاجر سے مخاطب کرتی ہیں ٤؎
    حبیب حیدرآبادی کی پہلی کتاب'' انگلستان میں ''کی اشاعت کے دشوار مراحل کا ذکر کرتے ہوئے وطن عزیز میں اس کی اشاعت سے متعلق لکھتے ہیں''انگلستان میں کتابت و طباعت کی دشورایوں کی وجہ سے اس کتاب کو حیدرآباد دکن میں چھپوانا پڑا،کسی بھی کتاب کی اشاعت کے لیے جن دشوار گزار مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ان سے دور دور تک بھی میری آشنائی نہیں ،ا س جان لیوا کام کے لئے میں نے اپنے عزیز ترین دوست اور میری رفیق حیات صدیقہ کے بڑے بھائی ڈاکٹر مغنی تبسم کا انتخاب کیا جو ادبی دنیامیں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔''٥؎
    حبیب حیدرآبادی کی پہلی تصنیف ''انگلستان میں'' کے عنوان سے شائع ہوئی جس میں مضامین،انشائےے اور شاعری کا انتخاب شامل ہے ۔اس کے علاوہ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ''رہ رسم آشنائی''،برطانوی اقتدار کے بارے میں معلوماتی کتاب''برطانیہ کی سیاسی جماعتیںاور پارلیمنٹ''اور ایک کتاب''محمد الرسول اللہ'' کے عنوان سے شائع ہوئی ہے ۔حبیب حیدرآبادی کی دیار غیر میں اردو خدمات کوبیان کرتے ہوئے عوض سعید لکھتے ہیں کہ:         ''حبیب صاحب جملے بازی کے دوش بہ دوش لطیفے بازی پر اتر آتے ہیں تو سامع کے ساتھ ساتھ لطیفہ کا انگ انگ بھی ہنسنے لگتا ہے میں یہ یہاں کہہ کر ان کے رتبے اور مرتبے کو کم کرنا نہیں چاہتا کہ وہ محض ایک لطیفہ باز آدمی ہیں وہ شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی ۔انگلینڈ کے سارے ادبی ماحول کو سنوارنے اور بگاڑنے میں ان کا زبردست ہاتھ رہا ہے۔کتنے ایسے انگریز تھے جنہوں نے حبیب صاحب سے اردو سیکھی اور اپنی مادری زبان بھول بیٹھے،اردو کی اس سے بڑی اور کیا خدمت ہوسکتی ہے'' ٦؎
    حبیب حیدرآبادی نے ہماری ہجرت کے عنوان سے ایک انشائیہ لکھا تھا جس میں اپنے وطن سے محبت اور وطن کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''ہمارے اپنے وطن میں ہمارا اپنا مکان تھا،ملازمت تھی ،ماں باپ،بھائی بہن ،رشتہ دار ،دوست احباب ہم کو قرض دے کر ہم سے دعوتیں کھانے والے ،ہم سے قرض لے کر ہم سے روپوش ہونے والے ۔ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر ہم لندن جیسی اجنبی سرزمین پر پہنچ گئے ۔جو ہمارے لیے ایک تاریک کنویں کے برابر ثابت ہوئی ۔یہاں کے مشکلات کا علم ہمیں یہیں آنے کے بعد ہوا''٧؎
        حبیب حیدرآبادی نے مضمون نگاری،انشائیہ،سیرت نگاری ،مزاح نگاری،تنقید،خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے شاعری بھی کی ہے ان کا کوئی دیوان تو شائع نہیں ہوا لیکن ایک شعری انتخاب جو ان کی تصنیف'' انگلستان میں'' کے آخر میں میری شاعری کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے ،جس میں چند ایک غزلیں،نظمیں ،قطعات شامل ہیں۔حبیب حیدرآبادی کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ صدیقہ بھی ایک اچھی شاعرہ ہیں ۔حبیب حیدرآبادی کی شاعری میں ایک طرف وطن سے محبت کا اظہار دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب کرب کا احساس بھی ٹھاٹیں مارتا نظرآتا ہے۔
    حبیب حیدرآبادی نے اپنی شاعری میں ایک طرف تو انگلستان کا ذکر کیاہے وہیں وطن کی یادکا احساس بھی دلایا ہے۔یہ دوشعر ملاحظ کریں ؎
    شام لندن ہو یا صبح ِدکن
    یادان کی بہت ستاتی ہے
مشینی زندگی میں بھی ہے باقی زندگی دل کی
    ہم انگلستان میں شعر و سخن کی بات کرتے ہیں
    حبیب نے غزلیں لکھیں ہے اور کچھ غزلیں بھی فنی اعتبار سے ان کی شاعری میں پختگی نظر آتی ہے ان کا انداز بیان سیدھا سادہ اور اثر دار ہوتا ہے ،انہوں نے شاعری میں چھوٹی چھوٹی بحریں بھی استعمال کی ہے ۔ان کے یہ اشعار جس میں زندگی کا فریب ،زخموں کاذکر، ہجرت کا تذکرہ ملتا ہے دیکھیں؎
    مسکراتی ہے گیت گاتی ہے
    زندگی فریب کھاتی ہے
    زخم کچھ اور بڑھ گئے ہیں یہاں
    ہم تو آئے تھے کچھ کمی کے لئے
    حبیب حیدرآبادی نے خود کے ٹوٹنے بکھرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی کیفیت کو ان اشعار میں بیان کیا ہے ملاحظہ ہوں؎
خود تقسیم کر چکا ہوں میں
    دل یہ کہتا ہے مر چکا ہوں میں
بٹ چکا ہوں میں کتنے حصوں میں
ایک تھا اب بکھر چکا ہوں میں
    بہرحال حبیب حیدرآبادی کی شاعری میں وطن سے محبت اور دیار غیر میں زندگی کا تصور اور کرب کی کیفیت کی نشاندہی ہوتی ہے حبیب حیدرآبادی کی شاعری میں بھی نثر کی طرح ہجرت کا تصور نمایاں طور پرمحسوس کیا جاسکتا ہے ۔    
    حبیب حیدرآبادی کی ساری اردو خدمات دیار غیر میں رہ کر ہوئیں ۔ ان کا بڑ ا کارنامہ برطانیہ میں اردو کی فضاء کو عام کرنا ہے۔ جس کی بدولت آج برطانیہ میں اردو کی ادبی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ اردو اخبارات نکلتے ہیں۔ خانگی ایف ایم چینلوں پر اردو شعرو نغمہ کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ اور بی بی سی جیسا عالمی صحافتی ادارہ اردو میں اپنی نشریات بھی پیش کرتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان سے ہجرت کرنے کے بعد دیار غیر سے حبیب حیدرآبادی نے اردو کے فروغ کی بے مثال خدمات انجام دیں۔
کریں ہجرت توخاک شہر بھی جزدان میں رکھ لیں
چلیں گھر سے تو گھرکیا یاد بھی سامان میں رکھ لیں
(اقبال کوثر)
حوالے: ١۔ڈاکٹر اسلم فاروقی ،برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی ،ص12
٢۔عوض سعید،خاکے ،حبیب حیدرآبادی،ص130
٣۔ حبیب حیدرآبادی،انگلستان میں ،ص51ٌ
٤۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی ، برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی ،ص54
٥۔ڈاکٹر اسلم فاروقی ، برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی ،ص67
٦۔عوض سعید،حبیب حیدرآبادی،ص126,127
٧۔ڈاکٹر اسلم فاروقی ، برطانیہ میں اردو اور حبیب حیدرآبادی ،ص98
٭٭٭

 

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

if you have any doubts.Please let me know

سبسکرائب کریں در تبصرے شائع کریں [Atom]

<< ہوم