مجتبیٰ حسین ایک عہد ساز شخصیت

 

مجتبیٰ حسین ایک عہد ساز شخصیت
از:ڈاکٹر عزیز سہیل،حیدرآباد
    مجتبیٰ حسین عہد حاضر کے ایک عظیم مزاح نگار گزرے ہیں۔وہ ایک بلند پایہ مزاح نگار'انشا پرداز 'خاکہ نگار' سفر نامہ نگار'کالم نگار اور صحافی کی حیثیت سے اردو دنیا میں مشہور رہے۔ مجتبیٰ حسین 15جولائی 1936ء کوتحصیل چنچولی، ضلع گلبرگہ (کرناٹک) میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام محمد احمد حسین تھا،مجتبیٰ حسین کا گھرانا اہل علم کا گھرانا تھاان کے والد کو بھی شعر وادب سے بڑی دلچسپی تھی اسی ماحول میں مجتبیٰ حسین کی تعلیم وتربیت ہوئی ، مجتبیٰ حسین کے دو بھائی محبوب حسین جگر اور ابرہیم جلیس نے ادب میں اپنا نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کی شخصیت کا اثر بھی مجتبیٰ حسین کی شخصیت پر پڑا ۔۔مجتبیٰ حسین کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی بعد میں مدرسہ تحتانیہ ،آصف گنج گلبرگہ میں داخلہ ہوا،میٹرک کے بعدانٹرمیڈیٹ کامیاب کیا اور جامعہ عثمانیہ سے بی اے میں 1953ء میں داخلہ حاصل کیا١٩٥٦ میں بی اے کامیاب کیا۔بی اے کے بعد١٩٥٨ء میںمضمون نظم و نسق عامہ میں ڈپلومہ کی تکمیل کی۔ان کی شادی ١٩٥٦ء میں چچا زاد بہن ناصرہ سے ہوئی ،جن سے مجتبیٰ حسین کو پانچ اولادیں ہوئیں جن میں دو لڑکے اور تین لڑکیاں شامل ہیں۔ان کی ملازمت کا آغاز١٩٥٦ء میں روزنامہ سیاست سے ہوا۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز 1962ء میں روزنامہ سیاست کے مشہورکالم''شیشہ و تیشہ'' سے ہی ہوا ہے ۔١٩٦٢ء میں مجتبیٰ حسین کو سرکاری ملازمت محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ ریاست آندھراپردیش میںحاصل ہو گئی۔ 1972ء تک انہوں نے اسی محکمہ میں اپنی خدمات مکمل ذمہ داری کے ساتھ انجام دی۔١٩٧٤ء میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ میںان کا تقرر بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر کے عمل میں آیا اور وہ حیدرآباد سے دہلی منتقل ہوئے ۔١٩٧٩ء میں وہ اسی شعبہ میں ایڈیٹر منتخب ہوئے اور سخت محنت اور مکمل جستجو سے 1991ء تک خدمات انجام دیتے ہوئے اپنے عہدے سے بحسن خوبی سبکدوش ہوئے اور پھر حیدرآباد واپس ہوئے ۔انہوں نے کئی ملکوں کا سفر کیا جن میں جاپان،امریکہ،برطانیہ ،فرانس،کینڈا،پاکستان اور سعودی عربیہ ودیگر ممالک شامل ہیں۔مجتبیٰ حسین کا انتقال 28مئی 2020ء کو حیدرآباد میں ہوا۔
    ان کی تصانیف میں مضامین کاپہلا مجموعہ
ـ''ــ تکلف برطرف (١٩٦٨)،مضامین اور خاکوں پر مشتمل دوسرا مجموعہ''قطع کلام(١٩٦٩)مضامین کا تیسرا مجموعہ ''قصہ مختصر(١٩٧٢ئ)مزاحیہ مضامین اور خاکوں پر مشتمل مجموعہ'' بہرحال(١٩٧٤)خاکوں کا مجموعہ ''آدمی نامہ (١٩٨١ئ)مضامین کا مجموعہ ''بالآخر(١٩٨٢) سفر نامہ ''جاپان چلو جاپان چلو''(١٩٨٣) مضامین کا مجموعہ ''الغرض'' (١٩٨٧ئ)خاکوں کا مجموعہ''سو ہے وہ بھی آدمی(١٩٨٧ئ)خاکوں کا مجموعہ ''چہر ہ درچہرہ(١٩٩٣ئ)سفر نامہ''سفر لخت لخت(١٩٩٥ئ)مضامین کا مجموعہ ''آخرکار(١٩٩٧ئ) خاکوں کا مجموعہ ''ہوئے ہم دوست جس کے (١٩٩٩ئ)کالموں کا انتخاب''میراکالم(١٩٩٩ئ)و دیگر شامل ہیں۔
    مجتبیٰ حسین کی دیگر تحریریں جن کوبعض احباب نے ترتیب دیا ہیںوہ کچھ اس طرح ہیںقطع کلام (رعنا فاروقی )١٩٩٠ء ، مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں جلداول(مرتبہ: حسن چشتی)2001ئ،مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریںجلددوم(مرتبہ: حسن چشتی)2002ئ،مجتبیٰ حسین کے سفرنامے (مرتبہ: حسن چشتی)2003ئ،مجتبیٰ حسین کے منتخب کالم (مرتبہ: حسن چشتی)2004ئ،آپ کی تعریف (خاکے) (مرتبہ: سید امتیاز الدین)2005ئ،کالم برداشتہ (کالموں کا انتخاب) (مرتبہ: سید امتیاز الدین)،2007ئ،مہرباں کیسے کیسے (خاکے) (مرتبہ: سید امتیاز الدین)2011ء کالم میں انتخاب (منتخب کالم) (مرتبہ: سید امتیاز الدین)2009ئ،امریکہ گھاس کاٹ رہا ہے (سفرنامہ اور کالم بارے امریکہ) (مرتبہ: احسان اللہ احمد)2009ء اردو کے شہر اردو کے لوگ (رپورتاژ اور شخصی خاکے) (مرتبہ: رحیل صدیقی)2011ء ودیگر شامل ہیں۔
     مجتبیٰ حسین کی خدمات کے اعتراف میں معتبر ادراوں اور انجمنوں نے انہیں مختلف انعامات واعزازات سے نوازاہے۔جن میں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی جانب سے پہلا''غالب ایوارڈ برائے اردو طنزومزاح''١٩٨٤،اردو اکادمی دہلی نے ''ایوارڈبرائے تخلیقی نثر''١٩٩٠ئ، آندھرا پردیش اردو اکادمی نے ''کل ہند مخدوم محی الدین ادبی ایوارڈ''١٩٩٣، ہریانہ اردو اکادمی کی جانب سے''کل ہند مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ برائے طنزومزاح''،١٩٩٩، کرناٹک اردو اکادمی نے ''کل ہند ایوارڈ برائے مجموعی خدمات''،مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے ''کل ہند جوہر قریشی ایوارڈ''٢٠٠٣ء ، حکومت ہند نے''پدم شری''ایوارڈ٢٠٠٧ئ،اردو ساہتیہ اکادمی حکومت مہاراشٹر نے ''سنت گیا نیشورنیشنل ایوارڈ''٢٠١١ء سے نوازا۔ان کے علاوہ ان کی تصانیف کو ملک وبیرون ملک کی مختلف اداروں،اردو اکادمیوں اورادبی انجمنوںکی جانب سے انعامات و اعزازات سے سرفراز کیاہے۔
     مجتبیٰ حسین ایک عہدسازشخصیت، اعلیٰ قدر فنکار تھے انہوں نے طنز ومزاح،خاکہ نگاری،سفر نامہ اور انشائیہ نگاری اور رپورتاژ نگاری کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور دنیا بھر میں شہرت حاصل کی ۔اردو دنیا میں اپنی تحریروں کی وجہ سے مجتبیٰ حسین کو ایک خاص مقام حاصل ہوا۔وہ ایک قدآور شخصیت کے مالک تھے ۔طنزو مزاح کے میدان کے ماہر تھے ۔ ان کی تحریریں سماجی اصلاح کا کام کرتی ہیں۔سائنس و ٹکنالوجی کے اس دور میں ہر فرد مصروف عمل ہے اور ایسے دور میں اردو ادب کی صنف طنز و مزاح سے لوگوں میں تفریح کا سامان فراہم کرتے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔یہ کام پچھلی نصف صدی سے زائد عرصہ سے جناب مجتبیٰ حسین انجام دیتے رہے۔ان کے انتقال سے اردو دنیا سماج کے ایک ماہر نباض سے محروم ہوگئی ۔ان کی تحریریں مزاح سے لبریز ہیں۔انہوں نے طنز مزاح کے ساتھ ساتھ خاکہ بھی لکھے ہیں اور سفر نامے ،رپورتاژبھی ۔ان کا اسلوب سادہ ،سلیس اور دلکش ہے۔
    مجتبیٰ حسین ایک ممتاز قلمکار تھے ان کو شہرت طنزومزاح قلمکار کی حیثیت سے ملی ،روزنامہ سیاست میں میراکالم کے تحت ان کے اکثر وبیشتر خاکے شائع ہوئے ،جن سے اردو کے قاری محظوظ ہوتے رہے ۔ انہوں نے یہ خاکے اپنے دوست احباب سے متعلق لکھے ۔ جن کی اپنی ایک انفرادیت ہے ۔انہوںنے جن شخصیات پر خاکے لکھے 'اپنی تحریروں میں جس انداز سے ان کی تصویر کھینچی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجتبیٰ حسین کے تعلقات ہر فرد سے بہت اچھے تھے وہ دوستی نبھانے کا فن بہ خوبی جانتے تھے اور اس کا پاس و لحاظ بھی رکھتے تھے۔ایک طرف تو وہ شخصیت کی خوبیاں بیان کرتے اور کمزوریوں کو بھی بیان کرنے سے گریز نہ کرتے تھے یہ ان کے فن کا کمال تھا۔
    مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی لکھتے ہیں۔
    ''مجتبیٰ حسین کے خاکوں کی یہ خوبی بھی بہت اہم کہ ان میں ہر چند کہ دوسرے کے بیان سے ان کے اپنے بیان ،کا پہلو بھی نکلتا رہتا ہے ،لیکن دوسروں کی ذات کو سکجھنے کے لیے و ہ نہ تو اپنی ذات کو پیمانہ بناتے ہیں،نہ ہی اپنے کارِمنصبی (مزاح نگاری)سے اس درجے مغلوب ہوتے ہیںکہ ان کی بنائی ہوئی قلمی تصویر کی پیروڈی بن
جائے ''۔١؎
    مجتبیٰ حسین نے چند معروف شخصیتوں،شعراء ،ادیبوں ،صحافیوں اور اپنے دوست احباب سے متعلق خاکے لکھے ہیں ان خاکوں میں طنز ومزاح دونوں پہلو نمایاں طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں کہیں کہیں وہ ان خاکوں میں سنجیدگی اختیار کر لیتے ہیں ۔مجتبیٰ حسین ان خاکوں میں خود بھی موجود ہوتے ہیں کبھی راوی کی طرح کبھی خاکے میں بیان کردہ شخصیت سے متعلق اپنی یادوں کے بیان کے ساتھ اور وہ شخصیت کو بیان کرتے ہوئے اپنی ذات کو بھی ان خاکوں میں شامل کرتے رہے۔ ان کے خاکوں میں وہ شخصیت کا تعارف بھی کراتے ہیں ۔طنز بھی کرتے ہیں وہیںدبے انداز میںاصلاح بھی کرتے ہیں۔ان کے تحریروں میں لطیفوں کی نشاندہی ہوتی ہے جس کو پڑھ کر قاری کے چہرے پر ہنسی کا تاثر پیدا ہوجاتا ہے یہ مجتبیٰ حسین کا خصوصی وصف تھا جو ان کو دوسرے ادیبوں سے ممتاز کرتا ہے ۔وہ اپنے خاکوں میں بے تکلفی سے ہم کلامی کرتے ہیں بے ساختہ پن ان تحریروںمیں دکھائی دیتا ہے سادہ مزاجی انکساری کا پہلو بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
    مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے ۔ارشاد آفاقی رقمطراز ہیں۔
''مجتبیٰ حسین نے جن شخصیتوں کے خاکے تحریر کیے ،ان کے پیشے،دلچسپیاں،مشاغل اور معاملات اس سلسلے میں مختلف ہیں کیونکہ یہ اشخاص بھی مختلف ہیں،ان میں ادیب بھی ہے اور شاعر بھی ،افسانہ نگار بھی ہے اور طنزومزاح نگار بھی مصور بھی ہے اور خاکہ نگار بھی ،عہددار بھی ہے اور موسیقی کار بھی،شیخ بھی ہے اور برہمن بھی ۔غرض ہر نوع کی شخصیات پر مجتبیٰ حسین نے خاکے ترمیم کیے،لیکن ان سب میں جوبات یکساں ہے وہ یہ کہ یہ تمام یاتومجتبیٰ حسین کے دوست یااحباب ہیں۔اس لیے ان تمام کے خاکے مجتبیٰ حسین کو رقم کرنے پڑے ۔لیکن مجتبیٰ حسین نے کسی بھی جگہ خالص تعریف تنقیص سے کا م نہیں لیا اور نہ تساہل،تجاہل،اور تغافل کے شکار ہوئے ،بلکہ عظمتون اور لغزشوں ،خوبیوں اور خامیوں میں توازن اور تناسب برقرار رکھا۔'' ٣؎
    مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں افسانہ نگاری کی خصوصیت کا عنصر بھی نمایاں ہے ،ایک اچھے افسانہ نگار میں جوخوبیاں پائی جانی چاہیئے وہ سب مجتبیٰ حسین کے پاس موجود تھیں ان کے خاکوں میں روداد نگاری کی جھلک بھی نظر آتی ہیں ان کے بعض خاکوں میں رودار کی کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے ۔انہوں نے جن شخصیات کے خاکے لکھے ہیں ان خاکوں میں جس شخصیت کا خاکہ وہ بیان کررہے ہوتے ہیں ان کے اوصاف بھی نمایاں ہوتے ہیں اور وہیں ان کی خامیوں پر سے پردہ بھی اٹھاتے ہیں ۔
    مصحف اقبال توصیفی نے مجتبیٰ حسین کے فن خاکہ نگاری سے متعلق رقمطراز ہیں۔
    ''مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں فکر ی جذبے اور مشاہدے کی آمیزش نئے نئے روپ دھارتی ہے۔ خاکوں میں وہ اپنی ذات کو وہیں درمیان میں لاتے ہیں جب ایسی صورت ناگزیر ہو جہاں خود اُن کے آئین عکس کے بغیر اُن کے کردار کے نقوش، خوبیاں یا کمیاں اپنے واضح خد و خال نہ بناتے ہوں، خاکوں کے علاوہ اُن کے کالم، مضامین، سفر نامے بھی بے لگام انا کے اظہار، ذاتی عناد و تعصب اور ہر طرح کی معاصرانہ چشمک سے پاک ہیں۔ اُن کے طرز اظہار میں کہیں علم یا مطالعے کی نمائش نہیں۔ اُن کے بیشتر نقادوں کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ وہ کہیں فلسفی بننے کی کوشش نہیں کرتے، کسی غیر ضروری بحث میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے، یوں بھی اکبر الٰہ آبادی جس طرزِ فکر کو ''فالتو عقل'' کا نام دیتے ہیں، مجتبیٰ کی تحریروں میں اُس کی کوئی جگہ نہیں''٢؎
    انشائیہ اُردونثر کی ایک غیرافسانوی صنف ہے ۔انشائیہ میں مضامین جن میں خیالی یا انہونی باتوں کے بجائے زندگی ،عمل اور تجربات کی باتیں بیان کی جائیں انہیں مضمون کے بجائے انشائیہ کہاجائے گا۔اس صنف کو بھی مجتبیٰ حسین نے بڑی خوبی سے برتا ہے ،انہوں نے اردو کے شاہکار انشائیے لکھے ہیں ۔انہوں نے اپنے انشائیوں کے توسط سے مزاح اورظرافت کی پھلجڑیاں چھوڑی ہیں اور طنز کے تیر بھی برسائے ہیں۔اور اپنے خیالات کو برملا برتا ہے مجتبیٰ حسین نے خاکوں کے ساتھ ساتھ انشائیے بھی لکھے ہیں جس کی اپنی ایک انفرادیت ہے ۔
    منظر کمال نے اپنے مضمون میں مجتبیٰ حسین کی انشائیہ نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے ۔
    ''مجتبیٰ حسین نے بہت سارے انشائیے لکھے ہیں۔جو عوام وخواص میں بے حد مقبول ہوئے ہیں۔ان کے انشائیے غیر رسمیت اور بے تکلفی کے باوصف بڑے منضبط ہوتے ہیں اور قاری کو فنی تکمیل کا احساس بھی دلاتے ہیں۔وہ اپنے انشائیوں میں کسی مرکزی بات سے ضمنی باتیں نکال کر اس کا تانا بانا بنتے ہیں اور کبھی وہ یہی کام کسی کلیدی لفظ سے لیتے ہیں۔''ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ''ان کا ایک دلچسپ اور لطیف انشائیہ ہے۔اس انشائیہ میں انھوں نے ایک لفظ ''اتفاق'' کا بارہا بخوبی استعمال کیا ہے۔مجتبیٰ حسین نے اس انشائیہ میں کرایہ داروں کو ہونے والی مشکلات،پریشانیوں اور مکان مالکوں کے کرایہ وصولی کے انوکھے طریقوں اور بہانوں کا بڑے شگفتہ انداز میں ذکر کیا ہے۔٤؎
    مجتبی ٰ حسین کے خاکوں میںزندگی کی حقیقت ،سماجی بیداری ،ادبی شعور،جدید رحجانات جیسے موضوعات کی نشاندہی ہوتی ہے ،اپنے انشائیوں میںجذباتی اوربے ساختہ انداز امیں بیان کرتے چلے جاتے ہیں ۔ان کے انشائیوں میں کمزور انسانوں اور بے بس لوگوں سے ہمدردری کا احساس بھی نظر آتا ہیں۔ان کی تحریروں میںتشبیہات و استعارات کا خوب استعمال بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
    ارشاد آفاقی مجتبیٰ حسین کی تحریری خصوصیت سے متعلق لکھتے ہیں۔
    ''بحیثیت مجموعی مجتبیٰ حسین کے لکھنے کا انداز فی البدیہہ،برجستہ اور بے ساختہ ہیں۔وہ نہ کسی خاص ماحول اور مزاج کے پابند ہیں اور نہ کسی وقت اور موضوع کے ،بلکہ وہ کسی خاص صنف کے بھی پابند نہیں رہے اس لئے ان کی ذات میں بیک وقت ایک بلند پایہ صحافی ،ایک عظیم انشائیہ نگار ،ایک اعلی مرتبہ خاکہ نگار ،ایک بے مثال سفر نامہ نگار ،ایک بہترین رپورتاژ نگار اور ایک اچھے مکتوب نگار کی ہستیاں سمٹ آئی ہیں ،اس طرح وہ شش پہلو شخصیت کے مالک ہیں جس کا ہر پہلو درخشان اور تابناک ہیں۔''٥؎
مجتبیٰ حسین ایک خاکہ نگار انشائی نگار اور سفرنامہ نگارکے ساتھ ساتھ ایک کامیاب مزاح نگار بھی تھے یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی پہچان ہی مزاح نگاری حیثیت سے کی جاتی ہے ۔انہوںنے اردو مزاح نگاری میں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر اول صف میں جگہ بنالی تھی ۔ان کو زبان وبیان پر مکمل دسترس حاصل تھی بات سے بات پیدا کرنا ان کا خصوصی وصف تھا ا ن کی تحریروں کا انداز شگفتہ اور سیدھا سادہ ہوتا تھا جو عام قاری پر بھی اثرا نداز ہوتا تھا جب کوئی اگر مجتبیٰ حسین کی تحریر پڑھ لیتا تو ان کے گن گانے اور تعریف بیان کرنے میں لگ جاتا ہے یہ وصف بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ہے ان میں ایک نام مجتبیٰ حسین کا بھی ہے ۔مجتبیٰ حسین نے اپنی تحریروں سے ایک عالمی مقبولیت حاصل کرلی تھی ،اردو کے منفرد اور مقبول مزاح نگاروں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ان کی مقبولیت کا اندازہ ہمیں مختلف جامعات کی نصابی کتب میں شامل ان کے مزاحیہ مضامین سے ہوتا ہے ۔
مجتبیٰ حسین کی بحیثیت مزاح نگارکے ان کی عالمی مقبولیت سے متعلق ڈاکٹر شیخ سیادت علی رقمطراز ہیں۔
    ''مجتبیٰ حسین کو اپنی طنزیہ اور مزاحیہ تحریروں کی وجہ سے برصغیر ہی نہیں بلکہ عرب ممالک اور یوروپی ممالک میں جس قدر شہرت حاصل ہوئی اس معیار کو کوئی اور ادیب نہیں پہنچ سکا ۔یہ خوبی ان کے فن اور طرز تحریر کی نمائندہ ہے اور یہ ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اردو طنز ومزاح کی تاریخ میں مجتبیٰ حسین کا نام انفرادی حیثیت کا حامل رہے گا۔''٦
    بہت سے جامعات میں مجتبیٰ حسین کی ادبی خدمات پر تحقیقی کام ہو ا اور ہورہا ہے ،ان کی شخصیت اور فن پر ہندوستان و پاکستان کے بہت سے رسائل و جریدوں نے مجتبیٰ حسین فن اور شخصیت نمبر شائع کیا ہے جن میں ماہنامہ شگوفہ حیدرآبادنومبر 1987ء ،،2008ء اور ا گسٹ2012ء ،اپروموشن آف آرٹ بیورو شارجہ نے 1997ء میں جشن مجتبیٰ حسین کے موقع پر سووینرشائع کیا تھا ۔کتاب نما،جولائی 2004ء ،چہارسو راولپنڈی پاکستان،جنوری فروری 2015ئ،نیادور ، ستمبر 2018ء ،آج کل نے جولائی 2019ء میںمجتبیٰ حسین پر خصوصی گوشے شائع کئے ہیں ان کے علاوہ شکیل الرحمن نے مجتبیٰ حسین کافن کے عنوان سے7 198امیں کتاب لکھی ہے ۔مجتبیٰ حسین کے سانحہ ارتحال پر حیدرآباد سے مختلف تنظیموں نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ پروفیسر بیگ احساس کے زیر سرپرستی ملک بھر سے مختلف جامعات کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز نے''مجتبیٰ حسین مرحوم کی یاد میں'' چالیس روزہ یادگار آن لائن پروگرام منعقد کیا جس میں روزانہ مجتبیٰ حسین کی کسی ایک منتخبہ تحریر کو پڑھا جاتا تھا بعد میں ناظرین ان پر تبصرہ کرتے تھے اور آخر میں صدر محفل پروفیسر بیگ احساس نے ان مضامین اور ان سے جڑی مجتبیٰ حسین کو یادوں کو پیش کیا۔ مجتبیٰ حسین کی تصانیف ریختہ ویب سائٹ اور مجتبیٰ حسین ڈاٹ کام پر دستیاب ہیں۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تومجتبیٰ حسین طنزو و مزاح کی عبقری شخصیت تھے۔ ان کے گزرنے سے مشتاق احمد یوسفی 'یوسف ناظم وغیرہ نے مزاح نگاری کی جو عظیم روایت چھوڑی اس میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا۔ ،مجتبیٰ حسین نے اردو ادب کے ذخیرہ میں کافی حد تک اضافہ کیا اور اردو کے قارئین کو اپنی شگفتہ تحریروں سے محظوظ کرتے رہے ،ان کا شمارہ اردو ادبی کی عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے وجود کا اپنے عہد کو احساس دلایا اور وہ نمایاں کام انجام دئے جن کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ آج اردو کے عظیم مزاح نگار ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن وہ اپنی تحریروں کے ذریعہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔
حواشی:
١)آدمی نامہ ایک جائزہ،ص٨٥،ماہنامہ شگوفہ حیدرآبادجلد نمبر ٢٠،مجتبیٰ حسین نمبر
٢)مجتبیٰ حسین کی مزاحیہ خاکہ نگاری،سہ ماہی فکر و تحقیق،جنوری تا جون2017ء ص ٢٦٧
٣)مجتبیٰ حسین کا فن: چند باتیں،سمت شمارہ36،اکتوبر تاڈسمبر2017
٤)مجتبیٰ حسین: ایک منفرد اورعہدساز انشائیہ نگار،اردو ریسرچ جرنل اپریل2018،شمارہ14
٥)ارشاد آفاقی،مجتبیٰ حسین ۔فن ،شخصیت اور کارنامے ،مرتب صفدر امام قادی 2018ء ص،٦٧
٦)آزادی کے بعد اردو مضامین میں طنزومزاح،٢٠١٠ء ص٢٩٨

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے