کاروانِ سائنس ایک مطالعہ


کاروانِ سائنس ایک مطالعہ

مرتب:  ڈاکٹرعبدالمعز شمس                  مبصر:ڈاکٹرعزیز سہیل

اکیسویں صدی سائنس وٹکنالوجی کی صدی ہے۔سائنس کی اس صدی میں ٹکنالوجی کی ترقی نے انسانی ذہنوں کو ماؤف کردیا ہے۔ٹکنالوجی کی ترقی نے انسانی کاموں میں کئی ایک آسانی پیدا کردی ہے ان حالات میں انگریزی زبان میں سائنسی ادب کو کافی تیزی کے ساتھ فروغ حاصل ہورہا ہے، وہیں اگرہم اردو زبان کی بات کریں تو اردو ادب میں سائنسی علوم کے فروغ کی رفتار بہت سست اوردھیمی ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب کہ اردو کی پہلی یونی ورسٹی جامعہ عثمانیہ میں سائنسی علوم اردومیں پڑھایاجاتاتھا اور ایم بی بی ایس کی تعلیم اس وقت اردومیں دی جاتی تھی اور وافرمقدار میں سائنسی علوم کا ذخیرہ انگریزی ودیگر زبانوں کی کتابوں سے اردوزبان میں ترجمہ کے ذریعے منتقل کیاگیا‘دارلترجمہ نے یہ کام بڑی محنت اور خوبی کے ساتھ انجام دیاتھا لیکن ستم کا رونا یہ کہ دارلترجمہ کوہی آگ لگادی گئی او ر اردوکے عظیم سرمایہ سے ارد ووالے محروم ہوگئے‘دارالترجمہ کے قیام سے قبل سرسید احمد خان نے بھی سائنٹفک سوسائٹی کے ذریعے دیگر علوم کی قیمتی کتابوں کو اردو زبان میں منتقل کرنے کااہم کارنامہ انجام دیا تھا۔آزادی کے بعدچندفکر مند احباب اور انجمنوں نے اردومیں سائنسی ادب کے فروغ کے سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے اور اس شعبہ میں کئی کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان میں ایک اہم نام انجمن فروغ سائنس علی گڑھ کا بھی ہے،اس انجمن کی جانب سے ماہنامہ ”اردوسائنس“ مسلسل پچیس سالوں سے پابندی سے شائع ہوتاآرہا ہے۔ اس عظیم کارنامہ کو اردوکی پہلی قومی سطح کی جامعہ(مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد) کے حرکیاتی سابق وائس چانسلر ڈاکٹراسلم پرویز نے بڑی خوبی‘محنت‘سلیقہ مندی اورایماندا ری سے انجام دیا ہے۔ پچھلے دنوں ماہنامہ”سائنس“ کی اشاعت کی سلور جوبلی منائی گئی۔ اس موقع پرماہنامہ سائنس کے پچیس سالہ سفر کی روداد کویادگار مجلہ (کتابی) شکل میں ڈاکٹرعبدالمعز شمس نے علی گڑھ سے شائع کیا ہے۔

کاروانِ سائنس دراصل اردوماہنا مہ”سائنس“نئی دہلی کے شمارہ نمبر ایک تا تین سوکی رودادپر مشتمل ہے جو اس رسالہ کے پچیس سالہ تفصیلات کو پیش کرتی ہے جس کوجلد اوّل کی شکل میں ڈاکٹرعبدالمعزشمس نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترتیب وتدوین کیا ہے۔اس کتاب کے ابواب فہرست میں حرف آغاز،پس منظر،اغراض و مقاصد،پیغامات وتاثرات،سرورق کہانیاں،منتخب اداریے،اشاریہ (انڈیکس)،اپیل،نئی صدی کا عہد نامہ شامل ہیں،کتاب کے آغاز میں حرف آغاز ترتیب کارڈاکٹرعبدالمعز شمس نے لکھا ہے۔پس منظر ڈاکٹرمحمداسلم پرویز مدیر سائنس نے رقم کیا ہے۔اغراض ومقاصد کے عنوان سے”انجمن فروغ سائنس“نے انجمن کے اغراض ومقاصد کوپیش کیاہے۔”پیغامات اورتاثرات“ کے عنوان کے تحت اکابرین اور مشاہیرہ ادب کے پیغامات وتاثرات کو شامل کیاگیا ہے۔ ماہنامہ سائنس کے سرورق کہانیاں اول تا شمارہ تین سوبھی اس یادگار مجلہ میں شامل ہیں۔ ماہنامہ سائنس کے منتخب اداریہ ڈاکٹرمحمداسلم پرویز و مہمانان مدیر نے لکھا ہے ان اداریوں کو بھی اس کتاب میں شامل کیاگیا ہے۔ آخرمیں اشاریہ کے عنوان سے ماہنا مہ سائنس کے اینڈیکس کوترتیب دیاگیا ہے جو شمارہ نمبر اول تا تین سوشامل ہیں۔اس کتاب کے آخرمیں ایک مخلصانہ اپیل بھی شامل ہے اور نئی صدی کا عہدنامہ بھی لیاگیاہے۔

کاروانِ سائنس کے ”حرف آغاز“کے طورپر ڈاکٹرعبدالمعز شمس نے اپنی بات پیش کی ہے جس میں انہوں نے تفصیلی طورپر سائنس اور انسانی زندگی‘ایجادات‘ذرائع ابلاغ وترسیل‘تحقیق وتوثیق‘رسائل وجرائد‘ماسٹررام چندر کی شخصیت وخدمات‘سرسیداحمدخان کے کارنامے‘سائنٹیفیک سوسائٹی کی تالیف وترجمہ کی تفصیلات‘عثمانیہ یونی ورسٹی کے قیام‘بابائے اردوعبدالحق کی خدمات پرتفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ماہنامہ سائنس کے مدیراعلیٰ‘مرد مجاہد ڈاکٹرمحمداسلم پرویز کی شخصیت اور کارنامے کوبیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ایسے میں ایک مردمجاہد کی تعلیم وتربیت ان اداروں جس کے اباء ماسٹررام چندراورمنشی ذکا اللہ اوربابائے قوم سرسیداحمدخان کے دانش گاہ میں ہوئی میری مراد ماہنامہ سائنس کے بانی مدیر ڈاکٹرمحمداسلم پرویز موجودہ وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردویونی ورسٹی سے ہے جن کی شخصیت مرد مجاہد کی ہے جنہوں نے فروغ سائنس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمر کس لی اور 1992ء میں انجمن فروغ سائنس قائم کیا اورماہنامہ اردو سائنس انجمن کے نظریات کا ترجمان فروری1994ء سے ہوا جو اب تک پورے آب وتاب کے ساتھ قائم ودائم ہے اورترقی کی راہ پرگامزن ہیں“۔

جیسا کہ ڈاکٹرمعزشمس نے ڈاکٹراسلم پرویز سے متعلق اپنے خیالات جوپیش کیے ہیں وہ واقعی جذباتی اور اہم ہیں۔ اس متعلق یہ بات واضح ہے کہ دورحاضرمیں اردوکا پرچہ نکالنا اور اس کوپچیس سال تک قائم ودائم رکھنا کسی کارنامہ سے کم نہیں ہیں۔ آئے دن اکثر اردوکے اخبارات ورسائل شائع ہوتے رہے ہیں لیکن بہت ہی کم اخبارات ہیں جومسلسل نقصان کے باوجود بھی آج تک جاری وساری ہیں اور دراصل اس دورمیں اردوکا رسالہ نکالنا اور اس کو معیار کے مطابق چلانا اور کسی مقاصد کے حصول کے لیے ایک تحریک کا کام انجام دینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہیں۔

زیر نظر کتاب میں شامل تقریظ پس منظر کے عنوان سے ڈاکٹرمحمداسلم پرویز نے لکھی ہے۔ اپنے اس پس منظر میں ڈاکٹرمحمداسلم پرویز نے دہلی اور اردو تہذیب پر سیرحاصل گفتگوکی ہے۔اپنے اس مضمون کومختلف عنوانات سے پرکشش اور دلچسپ بنایاہے۔ پس منظر کے ذیلی عنوانات اس طرح سے ہیں۔بال اورپر‘ پرواز کی تیاری‘ پرواز‘ نئے آسمان‘ لوگ ملتے گئے اورکارو اں بنتا گیا‘ ایک ادارہ ایک تحریک اوراس کا رسالہ‘ ڈاکٹرمحمداسلم پرویز نے اپنے اس مضمون میں اردوکے موجودہ حالات‘ اردو تہذیب‘ دہلی سے متعلق خیالات کوقلمبند کیاہے ساتھ ہی ایک خواب کی تعبیر اور خواب کوعملی جامہ پہنانے کے تصورات کوبڑے ہی پرکشش انداز میں پیش کیاگیاہے۔دراصل یہ وہ خواب ہے جواردوادب میں سائنس سے متعلق دیکھاگیا اور اس کوعملی جامہ پہنانے کے لیے ایک ادارہ کا قیام عمل میں لایاگیا ہے اور اس ادارہ کے ذریعہ ایک رسالہ کوبھی شائع کرنا شامل تھا،یہ وہی رسالہ ہے جسے ہم ماہنامہ سائنس کے نام سے جانتے ہیں۔ ماہنامہ سائنس کی اشاعت اور اس کے پچیس سالہ سفر پر ڈاکٹرمحمداسلم پرویز نے بڑے خوب اور نپے تلے انداز میں روشنی ڈالی ہے۔سائنسی ادارہ اور اردوسائنس سے متعلق اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے اسلم پرویز نے اپنی اس تقریظ میں لکھا ہے کہ ”اسے اللہ کی مشیت ہی کہاجائے گاکہ اس ادارہ کے طالب علم نے سائنسی معلومات کواردومیں پہنچانے کے لیے انجمن فروغ سائنس قائم کی اور ماہنامہ اردوسائنس جاری کرکے اس ادارہ کی علمی روایات کوازسرنو زندہ کردیاہے۔ یہ ماہنامہ اس برصغیر کا وہ واحد سائنسی مجلہ ہے جواپنے عمر کے پچیس سال پورے کرچکاہے۔ الحمداللہ دہلی کالج میں فروغ علم کے میدان میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اوریہ سفرابھی جاری ہے۔چلے چلوکہ منزل ابھی نہیں آئی“۔

ماہنامہ سائنس کے اس مجلہ کاروان سائنس میں انجمن فروغ سائنس اور ماہنامہ اردوسائنس کی اشاعت کے اغراض ومقاصد کوبھی شامل کیاگیاہے۔ اغراض ومقاصد کے تحت جوذیلی عنوانات شامل کیے گئے ہیں وہ اس طرح ہیں۔(۱)طلبہ میں سائنسی فہم پیدا کرنا(۲)عوا م میں سائنس کی تشہیر وترویج ساتھ ہی آپ کیا کرسکتے ہیں جیسے عنوان پر ادارہ کے اغراض ومقاصد کوپیش کیاگیاہے۔ کاروان سائنس میں مختلف مشاہیر ادب واکابرین کے پیغامات وتاثرات شامل ہیں جن کے نام کچھ اس طرح سے ہیں۔ پی کے دوے‘ لیفٹنٹ گورنر دہلی‘ حکیم عبدالحمید‘ جالیج شریواستو(آئی اے ایس)‘ سیدحامدوائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی‘ پروفیسر آل احمدسرور‘ ابوالحسن علی ندوی‘مولانا حافظ اخلاق حسین قاسمی‘ عبدالکریم پاریکھ‘ مسلم احمدنظامی‘ پروفیسر عبیدصدیقی‘ سلمان حسینی‘ ڈاکٹرسید ظہورقاسمی‘ ڈاکٹرسیدآصف حسین عابدی‘ پروفیسر محمدنسیم فاروقی(وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی)‘ پروفیسر رشید الظفر(جامعہ ہمدرد)‘ڈاکٹرخلیق انجم‘زبیر رضوی‘ ڈاکٹرفہمیدہ بیگم‘ پروفیسر عتیق احمدصدیقی‘ سیدحامد‘ آل احمدسرور‘ ماجدمسعودسلیم‘خالدالمعینا‘ سلیمان غنی ہاشمی(ذاکرحسین کالج)‘شمس الرحمن فاروقی‘ ادارہ المعہد الدینی العربی وغیرہ شامل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ پیامات مختلف موقعوں پر حاصل کیے گئے ہیں۔

                زیر نظر اس مجلہ میں ”سرورق کہانیوں“کے عنوان سے شمارہ نمبر ایک تا300کے مضامین کو شامل کیاگیاہے جس میں بانی مدیر ڈاکٹرمحمداسلم پرویز کے علاوہ دیگراہم قلم کاروں کے کہانیوں کو شامل کیاگیاہے جن میں سے چند ایک کے عنوانات اس طرح ہیں۔ ”ایڈس کے بڑھتے قدم‘ پلاسٹک کا عملہ‘ مصنوعی انسان‘ ماحول کا چکر‘ زہریلے رنگ‘ متوازن غذا‘ کینسر‘ زلزلے‘ اف یہ مچھر‘ خلا میں دوڑ‘ نیند‘ پانی گم‘ ٹی بی‘ مریخ پرزند گی‘ جسمانی مقناطیس‘ کمپیوٹراردو‘بلڈپریشر‘انٹرنیٹ‘ پانی پانی‘ موٹاپا‘ دم دار ستارے‘ آب حیات‘حیاتیاتی گھڑی‘ کولیسٹرول اورہارٹ اٹیک وغیرہ“۔ ان سرورق کہانیوں میں اکثر کہانیاں عصرجدید کے سائنسی رحجانات کامنظر پیش کرتی ہیں اور اردو والوں کو سائنسی میدان میں ہونے والی اہم تبدیلیوں‘کارناموں اورایجادات سے تعارف کرواتی ہیں جو ایک اہم خدمات ہیں۔ان کہانیوں میں حیدرآباد کے معتبر قلمکار ڈاکٹر عابد معز کی تخلیقات بھی شامل ہیں۔

                زیر تبصرہ کتاب میں سرورق کہانیوں کے بعد منتخب اداریے شامل کیے گئے ہیں جو بانی مدیر ڈاکٹرمحمداسلم پرویز اوردیگر مہمانان مدیر نے لکھے ہیں جس میں پروفیسر آل احمدسرور‘ڈاکٹرمحمداسلم پرویز‘ابوالحسن علی ندوی‘ پروفیسر عبدالکلام قاسمی‘ایس ایس علی اکولہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کے آخر میں اشاریہ کے عنوان سے رسالہ کے مشمولات کی فہرست کو شامل کیاگیاہے جوشمارہ اوّل تا شمارہ تین سو شامل ہیں۔ اس اشاریہ سازی سے ماہنامہ سائنس کے اہم عنوانات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کتاب کے آخر میں ”نہ سمجھوگے تومٹ جاؤگے“کے عنوان سے ایک اپیل کی گئی ہے جس میں علم کی اہمیت‘ حصول علم کابنیادی مقصد‘اسلام میں دینی علوم‘مسلمانوں کے لیے عصری علوم لازمی‘ مسلمانوں کے محلوں میں کتاب خانے قائم کرنے‘مدرسے واسکول قائم کرنے‘مسجدوں کے قیام‘ناظرہ قرآن کی تعلیم‘تعلیم بالغان کوقائم کر نے کی اپیل کی گئی ہے جس پر دستخط کنندگان کے عنوان سے اکابرین اسلام کے اہم ونامور شخصیات کی دستخطیں شامل ہیں۔ نئی صدی کا عہد نامہ کے عنوان سے اس مجلہ کے آخر میں اس بات کا عہد لیاگیا ہے کہ اس صدی کو تکمیل علم کی صدی کے طورپر منائیں گے۔ علم کے حصول کے لیے کوشش کریں گے۔ نئی نسل کو علم کی دولت سے مالامال کرنے‘تفسیر احادیث کے ساتھ الیکٹرانک‘میڈیسن کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے عہدلیے گئے ہیں اوراس بات کومحور بنایاگیا ہے کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔

                ڈاکٹرعبدالمعزشمس نے بڑی محنت وجانفشانی کے ساتھ اس یادگار مجلہ کاروانِ سائنس کو ترتیب دیا ہے۔ یہ مجلہ کافی ضخیم ہے جو 672 صفحات پر مشتمل ہے۔ شب وروز محنت سے عبدالمعزشمس نے کاروانِ سائنس کومرتب کیاہے۔انہوں نے دراصل اردوادب میں سائنسی ادب کی تاریخ کو اس مجلہ کے ذریعہ محفوظ کردیاہے تاکہ آنے والے دنوں میں اردومیں سائنسی ادب کی تحقیق پر یہ مجلہ کارآمد ہوسکے ساتھ ہی نئی نسلوں کے لیے بھی یہ دستاویزی حیثیت رکھتا ہے۔ عبدالمعزشمس نے اردووالوں کے سامنے ایک ماڈل پیش کیاہے جس کے ذریعہ اردو دنیا میں سائنسی علوم کو فروغ دینے کی کوششیں انجام دی جاسکتی ہیں۔ بہرحال اس عظیم کارنامہ پر ڈاکٹرعبدالمعزشمس کو مبارک باد پیش کی جاتی ہے اور اللہ رب العزت سے ہم دعاگو بھی ہیں کہ ادارہ انجمن فروغ سائنس اور ماہنامہ سائنس سے وابستہ افراد کو اجرعظیم عطا فرمائیں ساتھ ہی ان کے اندر ایک حوصلہ‘عزم عطا فرمائیں تاکہ وہ اس میدان میں اوربہترانداز سے اپنی خدمات انجام دے سکیں۔ ضرورت بھی ہے کہ امت مسلمہ سائنسی علوم سے ہم آہنگ ہواور اس میدان میں آگے ہی بڑھتی چلی جائے تاکہ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو اور اسلامی نظام حکومت قائم ہو۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اپنی محنت وجستجو سے کئی کامیابیاں حاصل کیے اور آج جتنی بھی سائنسی میدان میں ایجادات ہیں ان کے پیچھے مسلمانوں کی ایک کافی طویل تعداد کا تعاون بھی رہا ہے اوران ایجادات کوکئی مسلم سائنسدانوں نے بھی ایجاد کیاہے۔ بہر حال انجمن فروغ سائنس علی گڑھ کی خدمت میں اس شاندار اور تاریخی اثاثے کی اشاعت پر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کی جاتی ہے اورامید کی جاتی ہے کہ وہ اسی طرح سے اردومیں معیاری سائنسی ادب کو پیش کرتے رہیں گے اور اپنی تحریک کے ذریعہ لوگوں کے اندر شعور کی بیداری عمل میں لاتے رہیں گے۔

                اس مجلہ کی قیمت 500/-روپئے رکھی گئی ہے جوڈاکٹرعبدالمعزشمس ہمدردنگرعلی گڑھ سے فون نمبر 09897452566پر ربط پیدا کرتے ہوئے حاصل کیا جاسکتاہے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے