تبصرہ نگارشات ہاشمی




نگارشات ہاشمی

  )المعرو ف بہ عطرمجموعہ(

مصنف: سید محمودالحسن ہاشمی     

                مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل


اردوادب‘شعر وشاعری‘صحافت‘ترجمہ نگاری میں حیدرآباد دکن سے ایک معروف نام سیدمحمودالحسن ہاشمی کابھی ہے۔جنہوں نے اپنے فن کی بدولت اردوادب میں اعلیٰ مقام حاصل کیاہے۔ سیدمحمودالحسن ہاشمی کوشعری ونثری اصناف میں یکساں دسترس حاصل ہے۔ وہ ایک اچھے قلمکار‘مترجم‘ صحافی‘ مبصر‘نقاد کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں نگارشات ہاشمی کے عنوان سے سیدمحمودالحسن ہاشمی کی تازہ تصنیف منظرعام پرآئی ہے۔ اس کتاب میں انشائیے‘ مقالات‘ حکمت دین واخلاق‘ماحولیات‘ تبصرے‘عالمی ادب سے اور متفرقات جیسے عنوانات پر مضامین شامل ہیں۔ ان کے ذیلی موضوعات میں قرآن مجید وماحولیات‘مرزا غالب وماحولیات‘ علامہ اقبال وماحولیات‘ مقالات میں پالوکوایلو‘ راؤری بھردواجا‘ شفیق فاطمہ شعریٰ‘ امیر احمدخسرو‘ ڈاکٹرٹی این دیورے‘ راجہ گردھاری پرشاد باقی‘ مہاراجہ کشن پرشاد پرمضامین شامل ہیں۔حکمتِ دین اور اخلاق کے تحت چند مضامین، تبصروں میں کاغذ کی کشتیاں‘ دکن اسٹیڈیز‘ میر کی غزل گوئی‘ نقش وفاوغیرہ اور متفرقات کے تحت چند ایک مضامین شامل ہیں۔

نگارشات ہاشمی‘ کا پیش لفظ اردو کے عالمی شہرت یافتہ ادیب ڈاکٹرمحمدضیاء الدین شکیبؔ لندن نے رقم کیاہے۔انہوں نے سیدمحمودالحسن ہاشمی کے خاندان کی تفصیلات اور ان کے ادبی مزاج پرروشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب سے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”سیدمحمودالحسن ہاشمی کا کام کئی سمتوں میں ہیں۔ان میں ادبیات‘ ماحولیات‘ اسلامیات‘سماجیات اور دوسرے مو ضوعاتب بھی شامل ہیں۔ طبیعت میں کچھ بگاڑ بھی ہے یعنی شعروشاعری کرتے ہیں جوان جیسے صاحب علم وفضل کے لیے تضیع اوقات سے زیادہ نہیں۔زیرنظرمجموعہ میں ان کے مختلف النوع مضامین شامل ہیں۔ ان میں علمی وزن بھی ہے زبان وبیان کی متانت بھی۔ ان کی ترتیب میں کسی قدر زیادہ سلیقے کی ضرورت تھی مگران کی آشفتہ سری کا کیا علاج“۔

اس کتاب کے آغاز میں اپنی بات کو سیدمحمودالحسن ہاشمی نے’حرف آغاز‘ کے عنوان سے پیش کیاہے۔ جس میں انہوں نے اپنے ادبی سفرکے آغاز اور دلچسپیوں کوبیان کیا ہے۔اس کتاب کے مضامین سے متعلق لکھا ہے کہ ’ان مضامین کواپنے کاغذات‘یادداشتوں اورفائلوں کے ذخیرے سے ڈھونڈ نکال کر میں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے میرے تحریر کردہ انشائیوں‘ مضامین‘ تراجم‘ تبصروں اور رپورتاژوں کا یہ مفید مجموعہ بڑی عجلت میں تیار کیاہے۔یہ ادب‘سیاست‘سائنس‘ماحولیات اور شعر وشاعری جیسے مختلف موضوعات پر مشتمل میرے افکار وخیالات اور رشحاتِ قلم کا گلدستہ ہے۔گویا گلہائے رنگ رنگ کا عطرکشید کرکے ایک عطر مجموعہ تیارکیاگیا ہے“۔

اس مضامین کے مجموعہ میں چند کلماتِ حق پسند کے عنوان سے پروفیسر مجید بیدار کی تقریظ بھی شامل کی گئی ہے۔ پروفیسر مجید بیدارنے سید محمودالحسن ہاشمی کے اس مجموعہ پراپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ”افسانوی نثر میں دل بستگی پیدا کرنے کی ہزارہا گنجائش موجود ہوتی ہیں۔ جبکہ غیرافسانوی نثر کے غیربیانیہ انداز سے عدم دلچسپی کا نمایاں ہونا عین فطرت ہے۔ اس کے باوجود کامیاب نثرنگار کی حیثیت سے سید محمود الحسن ہاشمی نے خیالات اور افکار کی نمائندگی کے لیے فطری اسلوب اختیارکرکے اپنے انشائیے‘رپورتاشمضامین‘تراجم‘تبصروں کے ذریعہ فن اوراظہار کی تازگی کے جوہر دکھائے ہیں“۔

پروفیسر مجید بیدار کی تقریظ کے بعد اس مجموعہ میں ڈاکٹرفاروق شکیل کی بھی تقریظ کو شامل کیا گیا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ”نگارشات ہاشی المعروف عطری مجموعی ایک جائزہ کے عنوان سے اپنی تقریظ لکھی ہے۔ڈاکٹر فاروق شکیل نے سید محمودالحسن ہاشمی کی شخصیت سے متعلق لکھا ہے کہ ”سیدمحمودالحسن ہاشمی کی شخصیت آئینہ کی طر ح شفاف ہے۔ ان کا ظاہر وباطن ایک ہے۔ ان کے افکار میں سچائی اور پا کیزگی ہے۔ ان کا دل بغض‘حسداوریاکاری سے پاک ہے۔ ظاہرہے ایسی شخصیت کی تخلیقات بھی مذہبی‘ادبی اور تعمیری ہوں گی“۔

اس کتاب کا پہلا مضمون قرآن مجید اورماحولیات کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں سیدمحمودالحسن ہاشمی نے قرآنی آیات کے ذریعہ ماحولیات کو خوبصورت انداز میں بیان کیاہے اور جگہ جگہ ماحولیات سے متعلق قرآن کی آیات کو کوٹ کیاہے۔ یہ مضامین کافی معلوماتی ہیں۔ اس کتاب کا دوسرا مضمون مرزا غالب اورماحولیات کے عنوان سے شامل ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹرسیدعبدالوہا ب قیصرکی کتاب غالب اور سائنس کا تعارف پیش کیا ہے اور غالب کی شاعری میں ماحولیات کو بیان کیاہے۔ انہوں نے غالب کا ایک شعریہاں پر پیش کیا ہے جواس طرح ہے:

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ

مجنوں جومرگیا ہے توجنگل اداس ہے

اس کتاب کا تیسرا مضمون علامہ اقبال اورماحولیات پر ہے۔ انہوں نے اقبال سے اپنی وابستگی کوبیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے میں نے خود کوعلامہ اقبال کے مداحوں اورشیدائیوں میں پایاہے۔ میرے اساتذہ‘بزرگ اوروالد مرحوم سب کے سب ان کے مداح تھے۔ اس لیے فطری طورپر دل دماغ پران کی شاعری اور ان کی فکری عظمت چھائی رہی۔ علامہ اقبال ہی کے خیالات جوبڑی حد تک اسلامی تعلیمات کے آئینہ دار ہیں زیر اثر میں عروج آدم کا قائل رہا ہوں جیسا کہ جاوید نامہ میں انہوں نے مولانائے روم سے کہلوایا ہے  ؎

جان کااپنی بدن ساتھی نہیں                     مانع پرواز یہ مٹی نہیں

بہر حال سیدمحمودالحسن ہاشمی کی یہ کتاب کافی معلوماتی ہے جس میں ہم کو ادب کی مختلف نثری اصناف کے تحت معلومات حاصل ہوتی ہیں۔جناب سیدمحمودالحسن ہاشمی نے بڑی عرق ریزی اورجانفشانی سے اس مجموعہ کوترتیب دئے کر شائع کیا ہے۔ وہ ایک ادب کے سنجیدہ اور منجھے ہوئے قلمکار ہیں۔اکثرآئے دن ان کے مضامین وتبصرے ملک کے مختلف رسائل واخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس عطر ی مجموعہ کی اشاعت پر جناب سیدمحمودالحسن ہاشمی کومبارک باد پیش کی جاتی ہے اوران سے اس بات کی امید بھی ہے کہ وہ تلنگانہ میں اردو کے فروغ اور نسل نو میں اردو سے دلچسپی پیدا کرنے کا اپنی تحریروں کے ذریعہ کام انجام دیں گے۔یہ کتاب تلنگانہ اسٹیٹ اردواکیڈیمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے جو ھدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس پرانی حویلی حیدرآباد اورمکتبہ ہاشمیہ پپل گوڑہ حیدرآباد سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے