اردو ذریعہ تعلیم اور ہماری ذمہ داریاں
اردو ذریعہ تعلیم اور ہماری
ذمہ داریاں
ڈاکٹرعزیز سہیل
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردوآئے
اردو عالمی سطح پر مقبول زبان ہے۔ اس زبان کی شیرینی اور
شعر و ادب نے لوگوں کو بلا لحاظ مذہب و ملت اس کی جانب راغب کیا ہے۔ لوگ اردو
شاعری کو پسند کرتے ہیں۔ اردو غزل پر سر دُھننے والے آج بھی کئی لوگ ہیں۔ اردو
مرثیے اور دیگر
اصناف نے اپنی ہمہ گیریت سے دیگر زبانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس زبان کی مقبولیت
کی ایک اہم وجہہ اس کی زندہ دلی ہے۔ اردو زبان میں کسی بھی زبان کا لفظ آسانی سے
شامل ہوجاتا ہے۔ جس سے اردو کا دامن وسیع ہوا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں ہی
اردو بولنے والوں کی تعداد 20کروڑ سے ذیادہ ہے۔ اور اس عوام کا بڑا طبقہ اپنی
مادری زبان یعنی اردو میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔ انگریزی زبان اور مقامی زبان کے
اثرات کے باجود آج بھی اردو سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ اردو
ذریعہ تعلیم سے کیامسائل ہیں اور ان کا حل کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ۔
کسی بھی زبان کوذریعہ تعلیم بنانے کیلئے چند باتوں کا
ہونا ضروری ہے اس سے متعلق انعام اللہ خاں شیروانی رقمطراز ہیں۔
'' ذریعہ تعلیم سے مرادوہ طریقہ کار ہے جس کی وساطت سے استاد
طلباء کو سمجھاتا ہے اور جس کے ذریعہ طلباء استاد کی باتیں سمجھتے ہیں ہر ایک زبان
ذریعہ تعلیم نہیں ہو سکتی کسی زبان میں ذریعہ تعلیم بننے کے لیے درج ذیل باتوں کا ہونا
ضروری ہے۔
1۔معلم اور متعلم دونوں اس زبان کو بولتے اورسمجھتے ہوں
2۔زبان میں خاطر خواہ وسعت ہو 3۔ذخیرہ الفاظ کافی ہو اور مزید الفاظ کو وضع کرنے
کی گنجائش ہو 4۔اس زبان کے ذریعہ اعلی تحقیق و تدقیق ممکن ہو 5۔زبان سہل اور آسان
ہو اس میں
قواعدکی پیچید گی نہ ہو 6۔اس زبان میں ادب اور دیگر علوم و فنون کی کتابوں کی کثرت
ہو 7۔جس خطے کی زبان ہو وہاںوہ مرغوب ہو 8۔بحیثیت ذریعہ تعلیم اس کا استعمال کی
کامیابی کاوثوق ہو۔ ایک اور بات یہ کہ تمام ماہرین تعلیم اور ماہر ین نفسیات تعلیم
کی متفقہ رائے کے مطابق تعلیم اور اس کی جانچ مادری زبان میں ہی میں ہونی
چاہئے۔''(تدریس زبان اردو، ص 38)
بچے کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو وہ بڑی
آسانی کے ساتھ زبان سیکھ جاتاہے اور باتیں بھی آسانی سے اس کی سمجھ میں آجاتی ہے
اس لئے ماہرین تعلیم اور دانشور لوگوں کا کہنا ہے کہ بچہ کی ابتدائی تعلیم مادری
زبان ہی میں ہونی چاہئے تاکہ بچہ آسانی سے علم سیکھ سکے اور ساتھ ہی ساتھ دیگر
زبانوں سے بھی بچہ کو واقف کروایاجائے یا سکھایاجائے۔مادری زبان سے انسان کی فطرت
کھلتی بھی ہے اور نکھرتی بھی ہے دنیا کے تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں بچہ کی
ابتدائی تعلیم کے لئے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم لازمی قرار دے رکھاہے۔ دراصل ماں
کی گود بچے کا پہلا مکتب ہوتی ہے اور بچہ اس مکتب کے ذریعہ وہی کچھ سیکھتا ہے جو
ایک ماں اپنے بچہ کو سکھاتی ہے اس لئے کہایہ جاتاہے کہ مادری زبان انسان کی جبلت
کاجز ہواکرتی ہے ۔
بچہ کی ذہنی نشوونما صرف اور صرف مادری زبان ہی میں ممکن
ہے اکیسویں صدی میں ہر فرد کی ترجیح انگریزی زبان اپنے بچوں کو سکھانے کی ہے لیکن
یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ انگریز بھی اپنے بچوں کومادری زبان ہی میں تعلیم
دلواتے ہیں ہمیں چاہئے کہ اپنے بچوں کو مادری زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنے کا
موقع فراہم کریں ساتھ ہی ساتھ دیگر علوم کو بھی سکھائیں تاکہ دور حاضر کے تقاضوں
کی تکمیل ممکن ہو۔
یہی طفلان مکتب جن سے وابستہ ہے مستقبل
انہیں ذروںکو چمکا کر ہمیںمہتاب کرنا ہے
دکن کے علاقے میں سب سے پہلے یونیورسٹی کی سطح پر اردو
ذریعہ تعلیم کا آغاز عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآبادمیں عمل میں آیا تھا اور جہاں
مختلف زبانوں اور علوم کے ساتھ ساتھ طب،سائنس اور قانون کی تعلیم اردو میں فراہم
کی گئی تھی جس کے نتیجہ میں بہت ہی ماہر اوور قابل افراد ملک کی سیاست اور دیگر
شعبوں میں ابھر کر آئے سامنے آئے تھے۔دورحاضر میں مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
حیدرآباد کے قیام سے ہی اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا جس کے نتیجہ کے طور پر آج
سوشیل سائنس، پولیٹکنیک اور انجینئرنگ کی تعلیم اردو ززبان میں رائج ہے اور وہ دن
بھی اب دور نہیں جب میڈسن کی تعلیم بھی اردو میں فراہم ہو
ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم اردو ذریعہ تعلیم کو اختیار کرنے
پر طلبہ کو راغب کریں اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہیکہ وہ طلبہ کو یہ احسا س دلائیں کہ
اردو میں تعلیم حاصل کرنے سے ہی ہم اپنی مادری زبان میں اچھی طرح سے تعلیم حاصل
کرسکتے
ہیںاور زبان و دیگر علوم پر مکمل عبور حاصل کرسکتے ہیں ۔اور سائنس و ٹکنالوجی کے
شعبوں میں بھی آج کل اردو زبان اس سے ہم آہنگ ہورہی ہے۔والدین پر بھی یہ ذمہ داری
عائد ہوتی ہے کہ وہ بچے کی ابتدائی تعلیم کو اپنی مادری زبان میں حاصل کرنے کا
موقع فراہم کریں۔طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور اردوکو
ہی اپنا ذریعہ تعلیم بنائے اور یہ نہ سونچے کہ اردو کا مستقبل تاریک ہے بلکہ یہ
سونچے کہ وہ اردو کے ذریعہ ہی اپنے مستقبل کو بنائینگے۔ آج ہمارے سامنے کئی ایک
مثالیں ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم کو اختیار کرنے والے IAS,IPS,MBBS,CAاور
انجنیئرنگ میں اعلی کارنامہ انجام دئے رہے ہیں ایک مثال ہمارے پاس ڈاکٹر شاہ فیصل IASٹاپر
کی بھی جن کا تعلق علاقہ کشمیر سے ہے۔
اردو روزگاراور اردو ذریعہ تعلیم کی اہمیت سے متعلق ڈاکٹر
مہتاب عالم رقمطراز ہیں۔
''ہمارے اردو حلقوں میں ایک بات عام طور ر کہی جاتی ہے کہ
اردو میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں بعض لوگ اسے مذہبی زبان سمجھ کر ناقابل اعتنا
نہیں سمجھتے ہیں اور انھیں اپنے بچوں کا مستقبل اردو میں تاریک نظرآتا ہے جبکہ
حقیقت یہ ہے کہ انگریزی زبان کو چھوڑ کر ملک کی تمام زبانوں میں روزگار کے مسائل
ایک جیسے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی جس میں فلم،ریڈیو،ٹیلی ویژن اخبارات کے علاوہ
محکمہ تعلیمات
میں اردو اساتذہ اور مختلف سرکاری دفاتر میں اردو مترجمین اور نجی طور پر ترجمہ سے
متعلق کاموں کی کمی نہیں ہے مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی جیسےUPSC,PCSC,اور
پبلک سرویس کمیشن کے امتحانات میں اردوکو بھی ایک اختیاری مضمون کی حیثیت حاصل
ہے۔یوپی ایس سی میں تو اردو میں امتحان دینے کی بھی سہولت موجود ہے۔ ''(ااردو
کاقومی منظر نامہ، ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی،ستمبر2010 ،ص١٨)
ہمارے ملک کے جن اسکولوں میں جہاں ذریعہئ تعلیم اردو نہیں
ہے ، وہاں عموماً انگریزی ذریعہئ تعلیم کے خانگی اور کارپوریٹ اسکولوں میں اردو
تیسری زبان اختیاری طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اردو تعلیم کا نظم اسکول انتظامیہ اور
والدین کی خواہشات کے مطابق ہوتا ہے۔مگروہاں بھی اردو کی تدریس کا معیار
نہیںپایاجاتاجو ان اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کسی بھی دوسری زبان کاہے ،
ہندستان میں اردو زبان کے موجودہ نصاب کے تحت ایسا تدریسی مواد تیار کرنے کی کوئی
کوشش کی ہی نہیں گئی جو اردو زبان کی فہم اور اردو ادب کو سمجھنے میں اسکولوں میں
زیرِ تعلیم طلبہ کی مدد کر سکے۔
اردو ذریعہ تعلیم کے لیے نصاب کی
کتابیں تیارتو ہورہی ہے لیکن ان کا میعار پائےدار نہیں ہے اس تیار کردہ نصاب سے
طلبہ میں اردو زبان کی فہم بہت کم پیداہو رہی ہے ساتھ ہی طلبہ میں دل چسپی پیدا
کرنے میں موجودہ نصاب ناکام ہے۔
اردو کی کتابوں کی چھپائی وغیرہ بھی نہایت کم درجے کی ہوتی ہے اور پیپر کی کوالٹی
بھی عمدہ نہیں ہوتی۔ یہ نصابی کتابیںان اساتذ کے ذریعے تیار کروائی جاتی ہیں جو
بچوں کو عصری ٹکنالوجی پڑھانے کے طریقوں اور بچوں کی نفسیات سے اکژناواقف ہوتے ہیں
۔ ہمارے ملک میں اردو زبا ن کا تدریسی مواد انگریزی ذریعہ تعلیم اسکولوں میں موجود
نصابی مواد کی طرح میعاری نہیںہوتا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم کا
نصابی مواد ایسا ہو جس سے طلبہء اردوزریعہ تعلیم کی طرف زیادہ راغب ہواور انکی صلا
حیتوں میں بھی نکھار پیدا ہوہے۔ تاکہ اردو ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والوں کواچھی
نوکریاں بھی بہ آسانی مل جائیں اور اردوطلبہ دیگر زبانوں میں علم حاصل کرنے والوں
کے مقابلے میں بہتر ہو۔ NCERTجیسے اداروں سے اردو ذریعے تعلیم کے لئے
بھی معیاری درسی کتابوں کی تیاری اردو والوں اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جب معیاری
نصابی کتابیں طلباء کو دستیاب ہونگی تب ان کا تعلیمی معیار بھی بڑھے گا۔ اسکول کی
سطح پر اردوزبان میں تعلیم دینے والے اساتذہ میں جذبوں کی کمی اور اپنے مضمون سے
عدم دلچسپی کا رحجان نمایاں نظرآتا ہے جب کہ دیگر کارپوریٹ اداروں میں پڑھانے والے
اساتذہ جوش و جذبے اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ تعلیم دیتے ہیں۔
نئی نسل انسانی کی بہترین پرورش
کی ذمہ داری بنیادی طور پر والدین اوردوسرا ساتذہ پرہوتی ہے اور یہ تربیت کا کام
اس قدراہمیت کا حامل ہےکہ بچے کی پیدائش سے لے کر نوجوان ہونے تک ہر بچہ کو اپنے
ماں باپ اور اساتذہ کی رہنمائی ومددکی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہر کامیاب انسان کے پیچھے
والدین اور خاص طور پر اساتذہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے،
سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کامشہور قول جو کہ
ماں اور استادکی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے مین بیان کرتا چلو!
''بچے کی طرف سے جب ساری دنیا مایوس ہوجاتی ہے تو دو آدمی
ہیں جن کے سینے میں امید باقی رہتی ہے ایک اسکی ماں اور دوسر اچھا استاد''
دور حاضر میں لوگوں کی خواہش یا تو ڈاکٹر یا انجینئر بننے یا بیرون ملک جاکر پیسا
کمانے کی ہے کوئی نہیں چاہتا کہ وہ ایک اچھا ٹیچر بنے۔لوگ مجبوری میں یا جلد
ملازمت کے حصول کے لیے تدریس کے شعبہ کو اختیار کررہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم
اپنی نئی نسل کو انکی مادری زبان اردو میں علم حاصل کرنے کی طرف توجہہ کریں ساتھ
ہی اردو زبان کو بھی اس قابل بنائے کہ وہ زمانے کو ساتھ قدم ملاکر ترقی کی سمت
گامزن ہو۔
ہمارے یہاں یہ رحجا ن بھی عام ہے کہ اردو زبان کے تربیت یافتہ اساتذہ
کو معمولی تنخواہ پرپڑھانے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے جبکہ یہ زمانہ مہنگائی کا ہے
بہت سے اسکولوں میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں میں معصوم ذہنوں کی باگ ڈور
سونپ دی جاتی ہے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے پہلے سات سال ہی ذہن کی شعوری
اورغیر شعوری نشوونما میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اچھے معلم کے لیے ضروری
ہے کہ صرف نصابی کتب پڑھانے کے ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ ہمارے
ہاں اخلاقیات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے
ہماری
ذمہ داریاں:
اردو زبان کی صورتحال کو موجودہ دور میں ہر طرف چیلنجز کا
سامنا ہے ایک طرف تو اردو زبان حکومت کی نا انصافیوں کا شکار ہے اور اپنے حق کو
منوانے میں لگی ہے تو دوسری طرف اردوسے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو بہتر روزگار
کے مواقعوں کا سامنا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی اردو زبان
اوراردو ذریعہ تعلیم کو ختم کرنے کی سازشوں کا سامنا ہے۔ اردو کے طالب علموں کے
سامنے ایک اوربڑا چیلنج اپنی زبان کو عصری تقاضوں سائنس اور ٹکنالوجی سے جوڑنے اور
زمانے کے ساتھ ساتھ قدم ملاکر چلنے کا سامنا بھی ہے اس کے علاوہ اور بہت سے چیلنجز
اردو زریعہ تعلیم اور طلباء کو درپیش ہے۔
اردو اساتذہ طلباء کی اکثریت آج کے عالمی حالات اور ماحول
دونوں سے بے خبر ہےں۔ اردوو الے جدید ٹکنالوجی کے استعمال اور نئی تعلیمی طریقہ
کار سے بے خبر ہیں۔ اردو کے قارئین اساتذہ اور طلبہء صحافت جو کہ موجودہ دور کا
ایک عصری ہتھیار ہے اس سے مستفید نہیں ہوتے اور اردو صحافت کے استحکام کیلئے اپنا
بیش قیمتی تعاون بحیثیت قاری اور بحیثیت مجاہداردو کے پیش نہیں کرتے۔
ہمارے اساتذہ و طلبہ برداری کے اندرادراک و احساس اور
کمیونکیشن کی خلا بھی بہت زیادہ کمی پائی جاتی ہیں۔دور حاضر کا المیہ یہ بھی ہے کہ
ہمارے طلباہ ثقافتی سرگرمیوں اور اخلاقی اقدار کے فروغ سے کوسوں دور ہےں۔میں اس
موقع پر اردو کے اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کو یہ مشورہ دینا چاہوں گا
کہ اردو اسکولوں میں اردوذریعہ تعلیم کے ذریعہ اردو کے فروغ کیلئے ثقافتی سرگرمیوں
ااور طلبہ کے اخلاقی اقدار کے فروغ کیلئے سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے ساتھ ہی ٹکنالوجی
کے استعمال کے ذریعہ اردو زبان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کو
اردو کے فروغ کے لئے استعمال کیا جائے۔ اردو ذریعے تعلیم کے طلبا میں پائی جانے
والی مایوسی کو کم کیا جائے اور انہیں بھی ترقی کے بھر پور مواقع فراہم کئے جائیں
تو اردو کا اور اردو ذریعے تعلیم سے آگے بڑھنے والے طلباء کا مستقبل تابناک ہوسکتا
ہے اور داغؔ کا یہ شعر ایک مرتبہ پھر اپنے مفہوم کو ادا کر سکتا ہے کہ
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی
ہے
لیبلز: adabi mazameen
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts.Please let me know
سبسکرائب کریں در تبصرے شائع کریں [Atom]
<< ہوم