حضرت ابراہیم ؑ-عظیم قربانیوں کے پیکر

حضرت ابراہیم ؑ-عظیم قربانیوں کے پیکر 
ڈاکٹر عزیز سہیل
    ہر سال ذی الحجہ کے مہینہ آتے ہی ہمارے ذہنوں میں قربانی کا تصو ر جاگ اٹھتاہے۔ دراصل یہ قربانی ہم عید الاضحی کے موقع پر انجام دیتے ہیں جوکہ بکرے یا گائے کی شکل میں ہوتی ہے یہ قربانی ہمارے باپ حضرت ابراہیم ؑسے ہم تک پہنچی ہے حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے پیغمبر تھے جنہیں خلیل اللہ کہاجاتاہے یعنی اللہ کے دوست یہ انکالقب تھا۔ حضرت ابراہیم ؑکی زندگی دراصل کئی قربانیوں پر مشتمل تھی انہوں نے اللہ کے حضور بے شمار قربانیاں پیش کی ہے جس کی بناء پر ہم ہر سال عیدالاضحی (بقرعید)کے موقع پر قربانی انجام دیتے ہیں۔
    حضرت ابراہیم ؑکی سیرت کا اگر ہم مطالعہ کریں تو ہمیں ان کی زندگی میں اللہ رب العزت کیلئے بے شمارقربانیاں ملیں گے ان کی پوری زندگی اپنے مقصد کیلئے قربانی ہی قربانی تھی۔ آپ کی زندگی کا مقصد ایک اللہ کی تو حید تھا۔انہوںنے اس مقصد کے تحت توحید کی دعوت دی ان کے آبائی مقام عراق میں ان کی مخالفت کی گئی انہوںنے عراق کو خیر باد کہہ کہ دنیا کے دیگر حصوں میں اللہ کا دین کوپھیلانے کیلئے سفر کیا۔ انہوںنے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنی اہلیہ اور بچہ (حضرت اسماعیل ؑ)کو ایک ایسی وادی میں چھوڑ دیا جہاں نہ پانی تھا اورنہ ہی کھانے پینے کے لئے کوئی چیزیں (یہ وہی مقام ہے جسے آج ہم مکہ مکرمہ کہتے ہیں جہاں لاکھوں فرزندان اسلام حج کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں۔) انہوں نے صرف اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے قربانیاں دی۔ حضرت ابراہیم ؑعزم و حوصلہ کے پیکر تھے ان کو اللہ رب العزت کے حکم سے اپنے عزیز ترین فرزند کو قربان کرنے کا حکم ملا۔ اس حکم کی تعمیل میں انہوںنے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ پر چھری چلادی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے فرزند کو بچالیا اوران کے عوض ایک دنبہ قربان کروادیا۔ یہ قربانی اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اللہ نے ان کی اس سیرت کو لازم کرلیا اس لئے آج ہم سیرت ابراہیمی کی سنت پربکرے اور گائے وغیرہ قربان کرتے ہیں۔
یہ فیضانِ نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائی کس نے اسماعیلؑ کو آداب فرزندی
    حضرت ابراہیم ؑکی قربانیاں مثالی تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے اسوہ ئحسنہ فرمایا ہے انہوںنے حق کی خاطر وہ سب کچھ قربان کیا جو دنیا میں ایک انسان کو عزیز ہوسکتاہے۔ انہوںنے اپنے مقصد اور رب کی خوشنودی کے لئے اپنے باپ دادا کے مذاہب کو چھوڑا ۔ آگ کے گڑھے میںگرناقبول کیا مگر حق کو چھوڑنا گوارانہ کیا پھر اپنے وطن کو چھوڑ ا۔ اپنی اولاد اور بیوی کو بے یار و مددگار وادی میں چھوڑ دیا۔ اپنی عزیز ترین اولاد کو قربان کرنے کا فیصلہ کرلیا اس طرح سے وہ اللہ رب العزت کی ہر آزمائش پر پورا اترے اور اپنے مقصد اور حق کی خاطر قربانیاں پیش کی جو کہ ہمارے لئے ایک قابل تقلید عملی نمونہ ہے۔
    دراصل ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر ہم قربانیوں کے ذریعہ حضرت ابراہیم ؑکی قربانیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
آج بھی ہوجو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
    ان تمام واقعات سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ اسلام میں ابتداء سے لے کر آخر تک قربانی ہی قربانی ہے اسلام میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے انسان کو آزادی فکر اور آزادی عمل کی قربانی دینی پڑتی ہے ۔ اپنی خواہشات، لذت اور جان ومال ہر چیز کی قربانی دینی پڑتی ہے ۔ غرض یہ کہ اسلام قربانی کا نام ہے قربانی کے بغیر ایک مسلمان ، مسلمان نہیں ۔ لہٰذا ہمیں اس عید قرباں پر اپنے دلوں اور ذہنوں کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا واقعی ہمارے اندر وہ جذبہ ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کے اندر موجود تھا ۔کیا ہم اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑنے کیلئے تیار ہے ۔؟ کیا ہم حق کے لئے اپنی جان ومال قربان کرسکتے ہیں ؟اپنی اولاد کی قربانی دے سکتے ہیں ؟یہ تمام کام مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔ اگر ہم اپنے رب کی رضا وخوشنودی اور جنت کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنالےں اور نبیوں کی سیرت کو مشعل راہ بناکر اپنی زندگیوں کو گذار یں تو اللہ تعالیٰ ضرور ہمیں دنیا وآخرت میں کامیاب و کامران کرے گا۔ شرط یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کے حصول کے لئے دین اسلام ہم سے قربانی چاہتاہے۔
یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
    دراصل عیدالاضحی ایثار و قربانی کا ایک عظیم درس اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جو کہ ہر سال ہمیں یہ دعوت دیتی ہے کہ ہم بھی امتحان و آزمائش کے مرحلوں میں ثابت قدمی اختیارکریں ،خدا کے احکام کی تعمیل میں بغیر کسی پس و پیش کے سرتسلیم خم کردیں۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
    


 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے