google.com, pub-7579285644439736, DIRECT, f08c47fec0942fa0 آصف سابع میر عثمان علی خان بہادر کی ادبی خدمات

آصف سابع میر عثمان علی خان بہادر کی ادبی خدمات

0


۔۔۔۔۔۔:رپورتاژ:۔۔۔۔۔۔

آصف سابع میر عثمان علی خان بہادر کی ادبی خدمات

ڈاکٹر عزیز سہیل

    آصف سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر کی 129/ویں یوم پیدائش کے موقع پر 4/جون 2011ء کو H.E.H.دی نظامس ٹرسٹ کی جانب سے ایک لکچر کا اہتمام پرنسس عیسن ویمنس ایجوکیشن سنٹر پرانی حویلی حیدرآباد میں عمل میں لایاگیا۔ اس موقع پر یادگار لکچر کے آغاز میں چیف کیورائٹر H.E.H.دی نظامس ٹرسٹ ڈاکٹر بھاسکر راؤ صاحب نے کہاکہ نواب میر عثمان علی خان یکم/رجب ١٣٠٣ھ مطابق 17/ اپریل1886ء میں پیدا ہوئے ۔ انہوںنے 29/اگست 1911ء سے ستمبر1948ء تک ریاست حیدرآباد پر حکومت کی۔ وہ ایک وسیع النظر حکمراں تھے ۔ان میں مذہبی رواداری کا جذبہ بدرجہ اتم تھا۔ انہوںنے اپنی زندگی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کردی اور حیدرآباد ریاست کو عالمی سطح پر متعارف کروایا۔ میر عثمان علی خاں بہادر نے ریاست میں نظم و نسق کے اعلیٰ انتظامات انجام دیئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل کی ترقی ثقافتی اداروں کا قیام عمل میں لایا۔ انہوں نے حیدرآباد سیول سرویس کیڈر کو نافذ کیا جوکہ پہلے آمرانہ طرز پر قائم تھا۔
    ریاست کے انتظامات کیلئے ریونیو ،فائن آرٹس ،پولیس ،عدالت اور آڈیٹ اینڈ اکاؤنٹس جیسے شعبہ جات حکومت نے قائم کئے اور ان مسابقتی امتحانات کے ذریعہ تقررات عمل میں لائے گئے ۔ اعلیٰ حضرت نے ریاست حیدرآباد کیلئے جوکچھ بھی خدمت انجام دی اسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ آج حیدرآباد کی ترقی کی وجہ میر عثمان علی خان کی اعلیٰ خدمات کا نتیجہ ہے ۔ڈاکٹر بھاسکر راؤ نے اس موقع پر مہمان مقررین کا تعارف بھی پیش کیا۔
    اس لکچر کیلئے خصوصی طورپر مدعو پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ نائب پرنسپل عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان بہادر کی ادبی خدمات کے موضوع پر مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اعلی حضرت کے دور کی محفلوںکا آغاز حمدو نعت شریف سے ہوا کرتا تھا۔ لہٰذا میں اس موقع پر اپنی گفتگو کے آغاز سے قبل اعلیٰ حضرت کے حمدیہ کلام کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہی ہوں۔
دل کو خدا نے اپنی محبت سے بھردیا
تسبیح کو زبان دی ، سجدے کو سردیا
نازاں ہے اس عطا پہ غلامانِ مصطفی ؐ
ہم کو دیا رسول تو خیر البشر دیا
رتبہ بلند ہوگیا اس مشتِ خاک کا
جب بار عشق اس نے میرے سرپہ دھر دیا
کس منہ سے شکرِ عزت باری کروں ادا
ناچیز تھا سو اس کو بھی ایک چیز کردیا
ہر درد ہر بلا سے بچانے کے واسطے
تاثیر دی دعا میں دوا میں اثر دیا
عثمان یہ اس کا فضل ہے تجھ پرکہ بے سوال
نعمت سے اپنی دامنِ مقصود بھردیا
    حمد یہ اشعار کے بعدانہوںنے نعت کے اشعار پیش کئے ۔ انہوںنے کہاکہ اعلیٰ حضرت کی پیدائش یکم رجب کو ہوئی ان کی تعلیم و تربیت کا خصوصی انتظام کیاگیا اور انور اللہ خان صاحب کواستاد مقرر کیاگیا۔ سپاہیانہ تربیت کیلئے افواج کے کمانڈر افسرا لملک کا تقرر عمل میں لایاگیا اورعماد الدولہ کو بھی تربیت کیلئے مامور کیاگیا۔ وہ غیر معمولی دماغ لیکر پیدا ہوئے کم عمری میں ہی علوم وفنون میں دسترس حاصل تھی۔ سرزمین دکن اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ جہاں ایسے نگینے جگمگائے جن کی چمک سالوں صدیوں گذرنے کے باوجود بھی ماند نہیں ہوئی ہے اسی سرزمین نے اردو زبان و ادب کو وہ بادشاہ عطا کیاتھا جس کا نام اس لئے بھلایا نہیں جاتا کہ وہ اردو ادب کی تاریخ میں پہلا صاحب دیوان شاعر رہا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے کئی بادشاہ آئے لیکن بادشاہت کا خاتمہ جس بادشاہ پر ہوا وہ بادشاہ بھی کچھ اور نہیں بلکہ ایک ایسا شاعر تھا جس کے کلام کے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 5دیوان شائع ہوئے ہیں جو سالار جنگ میوزیم میں محفوظ ہیں اورفارسی کے 2دیوان بھی شائع ہوئے جملہ 7دواوین پر مشتمل ان کا کلام ہے جن میں 'الف' سے شروع ہوکر 'ے' تک کے تمام حروف پر ختم ہونے والی غزلوں کا انتخاب ہے ۔ اعلیٰ حضرت کے ہر دیوان میں 125غزلیں شامل ہیں جو کہ ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت کی شاعری کو انہوںنے قلی قطب کی شاعری سے تقابل کرتے ہوئے کہاکہ جس طرح قلی قطب شاہ نے اپنی سلطنت حکومت اور وقار کیلئے ہمیشہ جس طرح خدا کا شکر اور حضرت محمدؐ کے وسیلہ کو اپنی شاعری میں شامل کیاٹھیک اسی طرح اعلیٰ حضرت بھی اپنے غزلوں کے مقطعوں میں اللہ رب العزت کا شکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
کہتا ہے فخر و ناز سے عثمان یہ بار بار
اچھا دیا مجھے میرا پروردگار دل
مقام شکر ہے عثمان بہت اچھی گذرتی ہے
خدا کا فضل بھی ہے آپ پر اسکی عنایت بھی
    اعلیٰ حضرت کی شاعری نے اردو غزل کو اپنا ایک مخصوص و منفرد نظریہ حسن وعشق عطا کیا۔ جس میں خودداری بھی ہے اور وضع داری بھی ہے ان کی شاعری میں غزل کا ارتقاء اور ان کی فکر کی انتہانظر آتی ہے ۔ جب1911ء میں انہیں تخت نشین کیاگیا تب خزانہ تقریباً خالی تھا۔ انہوںنے اپنی حکومت کو آگے بڑھانے کیلئے کچھ تجاویز اورتدابیر اختیار کیں ۔ ایسے ذرائع پیدا کئے کہ ان کی سلطنت مالی مشکلات سے نکل کر مستحکم حالت میں آگئی اور ان کی فراست و ذہانت کی بدولت دنیا کی چند امیر ترین اشخاص میں ان کا شمار ہونے لگا۔ سلطنت حیدرآباد صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کیلئے ایک ایسی مثال بن کرسامنے آئی کہ ہر کوئی مدد کیلئے یہاں آجاتا ۔ انگریز یہاں سے پیسے کی مددحاصل کرتے اورفوج کی مدد حاصل کرتے یہاں سے رتبہ لیتے تھے ۔
    1911ء میں جب انہوںنے حکومت اپنے ہاتھ میں لی صرف 5یا6سالوں کے اندر نہ صرف دارالترجمہ قائم کیا بلکہ عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی، دائرۃ المعارف قائم کیا اور ١٣٣٣؁ھ میں ان کے 5دواون شائع ہوئے اور ان کے علمی اور ادبی کارناموں کی بدولت انہیں سلطانِ العلوم کا خطاب دیاگیا۔ ان کے کلام کو سلطان سخن کہنا میں کوئی مضائقہ نہیں ۔سلطان العلوم کے خزانہ سخن میں ہمیں ان کے جذبات محبت تو ملتے ہی ہیں لیکن ساتھ میں پندومعرفت کے دریابھی بہتے نظر آتے ہیںاور ایسی باتیں نظر آتی ہےں کہ تھوڑی دیر کیلئے ہم یہ سونچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس شخص نے اپنی مصروفیات کے ہجوم میں کس طرح ایک عام انسان کے بارے میں سونچا ہوگا اور غور کیا ہوگا اور ان کو پیغام دیا ہوگا۔ لیکن ذہانت ، فطانت، پیغمبری بن جاتی ہے یہ تمام خصوصیت اعلیٰ حضرت کے کلام میں ملتی ہے ۔ آصف سابع صرف باتیں ہی نہیں کام بھی کرتے تھے انہوںنے رعایاکو اپنی دو آنکھوں سے تشبیہ دی تھی ۔تعلیم کا معاملہ لیاجائے تو انہوںنے چاروں زبانوں کے اسکول قائم کئے تھے جس میں اردو، تلگو، مراٹھی اور کنڑی زبانوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مقامات مقدسہ کی زیارت کیلئے 6ماہ کی پیشگی تنخواہ اور 6ماہ کی رخصت خاص مسلمانو ں کیلئے منظورکی تھی ۔ ساتھ ہی انہوںنے ہندوؤں کیلئے تیرتھ یاترا کیلئے یہی خصوصیت عطا کی۔ یہ ان کی مطلق العنانیت تھی یا جمہوریت ان کاہر عمل انسانیت و آدمیت پر منحصر عمل تھا۔ آج 129سال گذر جانے کے باوجود ہم مل جل کر زندگی گذاررہے ہیں یہ دراصل ان کی دی ہوئی تعلیمات تھیں جس کااثر ریاست حیدرآباد میں نظر آتا ہے ۔ ہندوستان کے دیگر شہروں میں اس طرح کی تہذیب اور یکجہتی کی مثال نظر نہیں آتی جس طرح صدرمقام مملکت آصفیہ میں نظر آتی ہے ۔اعلیٰ حضرت کے چند عشقیہ اشعار ملاحظہ ہوں ؎
عشق بتاں سے ہوگئے مجبور کیا کرےں
پتھر کے نیچے ہاتھ ہے اپنا دبا ہوا
سامنا رنج و غم و درد و بلا کا دیکھا
دل لگانے کا یہی ہم نے نتیجہ دیکھا
    اپنی نوجوانی کے زمانے پر خود ہی اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
یہ رسوائی کی باتیں ہیں یہ کیا کرتے ہو ائے عثماں
اِسے گھورا اُسے تاکا اِدھر تاکا اُدھر جھانکا
جہاں میں کون سا انسان گنہگار نہیں
مگر بہت ہی برا ہے جو شرمسار نہیں
    انہوںنے ٹھمری بھی کہی ہے ۔اعلیٰ حضرت نے نہ صرف اردو ادب کے فروغ میں نمایاں رول انجام دیا بلکہ ادبی خدمات بھی انجام دی اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں دل کھول کر حصہ لیا اور سرپرستی فرمائی۔
    غالب کا جو مصور دیوان ہے ،دیوانِ چغتائی کیلئے علامہ اقبال نے اپنے سفارشی خط کے ساتھ اعلیٰ حضرت سے درخواست کی کہ اس کو حضور اعلیٰ کے نام سے مولف کرنے کی اجازت دی جائے اوراجازت دی گئی ساتھ ہی ١٠/جلدیں بھی خریدی گئیں ان کی جو تصاویر تھی وہ بھی ١٢/ہزار روپیوں میں خریدی گئیں۔ چغتائی صاحب نے لندن سے درخواست کی کہ عمر خیام کی رباعیوں کو با تصویر چھپوانا چاہتا ہوں آپ کی مدد کے بغیر ممکن نہیںاعلیٰ حضرت نے اپنی طرف سے 5/ہزار روپیئے ان کو دیئے اور ان کے 62 تصاویر کے مجموعہ کو15ہزار روپیئے میں خریدا۔ پانی پت کے مدرسہ حالی کیلئے 20ہزار روپیہ عطا کیا۔کسی کو 'نہ 'کہنا ان کی فطرت میں نہیں تھا۔ انہوںنے اپنے کلام میں بسنت سے متعلق بہت سی غزلیں لکھیں۔ اعلیٰ حضرت کے کلام میں پردہ پر بھی اشعار ملتے ہیں اس دورکی خواتین پردہ کا خاص طورپر اہتمام کرتی تھیںموجودہ دور میں پردہ پر پابندی کی بات کہی جارہی ہے اور دیگر ممالک میں پردہ پر پابندی بھی عائد کردی گئی ہے اب سے کئی سالوں قبل اعلیٰ حضرت نے پردہ سے یہ اشعار کہے ہیں ملاحظہ فرمایئے ؎
جہاں شرم و حیاء کا کال ہے بیکار ہے پردہ
کھٹکتا ان کی آنکھوں میں مثالِ خار ہے پردہ
نگاہِ بد کی چل سکتی نہیں کچھ سامنے اس کے
اگر شرم و حیا ہو کچھ تو ذمہ دار ہے پردہ
حقیقت میں روک سکتی نہیں طاقت کوئی اس کو
بقائے عظمت و عفت کا اشرار ہے پردہ
جو نادانی سے کہتے ہیں کہ پردہ ہو نہیں سکتا
حیاء یہ کہتی ہے دل سے کہ کیا دشوار ہے پردہ
جو خوگر بے حجابی کے ہیں کچھ حاجت نہیں ان کو
ہر اک پردہ نشین کے واسطے درکار ہے پردہ
نہ ہو یاجوج و ماجوج اس کے درپہ کہدو اے عثماں
نہ چاٹا جائے گا کہ آہنی دیوار ہے پردہ
    مدرسوں کے متعلق بھی انہوںنے اپنے کلام میں گفتگو کی ہے اور دین و دنیا کو الگ الگ کرنے پر تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
الٰہی واعظوں کو کیا ہوا ہے
جدا کرتے ہیں یہ دنیا کو دین سے
عثماں ان کو غلط ہے سمجھنا جدا جدا
ہے جسم و جان کی طرح سے دنیاو دیں شریک
زباں شیریں تو ملک گیری اس کہاوت اعلیٰ حضرت نے اپنے اشعار میں نہایت ہی حسین پیکر میں کچھ اس طرح سے پیش کیا ہے ؎
جہاں جائے گا عثماں ہر جگہ وہ منہ کی کھائے گا
نہ قابو میں رکھے گا آدمی اپنی زباں جب تک
    یہ تو تھی کلیات کے توسط سے ایک جھلک اب ان کے دست مخیر کی جھلک دیکھئے ۔شبلی کو سیرت البنی ؐکے لئے ہر ماہ دو سو روپیہ ، عبدالحلیم شررؔ کو پانچ سو روپیہ ، عبدالماجد دریاآبادی کو 125روپیہ، خواجہ حسن نظامیؔ ، ظفر علی خاں ، سید سلیمان ندوی ،اختر علی خاں، امیر مینائی، عبدالوہاب عندلیب، شمس اللہ قادری، نواب حیدریارجنگ، حضرت امجدؔ حیدرآبادی ، صفیؔ اورنگ آبادی، مولوی عبدالحق ،مولوی نصیر الدین ہاشمی ، لکشمی نارائن شفیق اور رائے جانکی پرشاد وغیرہ کو اس کے علاوہ پیسا اخبار لاہور کو سالانہ ایک ہزار روپیہ ، امیر خسرو کی طباعت کے لئے 15 ہزار روپیہ ، سید سجاد حسین کی اہلیہ کے لئے پانچ سوروپیہ ، شاہجہاںپوری شفقت علی خاں کو 200روپیہ ماہوار مقرر کیا۔
    اردو ادب کے فروغ کیلئے دست مخیر کو دیکھئے اور علم و ادب کی سرپرستی کودیکھئے کہ بنگلور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، آل انڈیا خواتین کانفرنس ،انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کو (وضع اصطلاحات کیلئے)انجمن اسلام لاہور ،دارالمصنفین اعظم گڑھ پونے یونیورسٹی ، آل انڈیا خواتین اسوسی ایشن عبدالکلیم صاحب کو نستعلیق ٹائپ کے لئے مالی امدادبڑی پابندی کے ساتھ کرتے تھے۔
    نواب میر عثمان علی خان نے اپنے دور حکومت میں اردو ادب ترقی کیلئے مثالی کارنامے انجام دیئے ۔ فرہنگ آصفیہ کی طباعت کروائی ۔ کئی اردو ادبیوں اور شعراء کی سرپرستی کی جس میں داغ ؔدہلوی ،امیر مینائیؔ ، جلیلؔ مانک پوری وغیرہ شامل ہیں۔
    اعلیٰ حضرت نے جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں لایا جس کا بنیادی ذریعہ تعلیم اردو رہا جو کہ ایک عظیم الشان کارنامہ تھا۔ آپ نے دائرۃ الترجمہ کا قیام عمل میں لایا جس کے باعث کئی کتابیں جیسے کیمیاء ، طب اورانجینئرنگ کی ترجمہ کروائی گئیں۔
    پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ نے اپنی گفتگو اعلیٰ حضرت کے اشعار پر ہی ختم کی۔
ہم گنہگاروں کو مشکل ہے خدا کا سامنا
حشر میں ہو پہلے یارب مصطفیؐ کا سامنا
خاتمہ بالخیر ہو عثماں کا یارب غفور
نام احمد لب پہ ہو جب ہوقضا کا سامنا
    صدارتی خطاب میں پروفیسر اشرف رفیع سابقہ صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میر عثمان خاں بہادر نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ ایک اچھے حکمراں ، مدبر اور ایک بہترین قلم کار تھے ۔ ان کی اپنی خصوصیت کے باعث 1918ء میں انہیں سلطان العلوم کے خطاب سے نوازا گیا انہیں کے زمانے میں عبدالجبار ملکہ پوری نے تاریخ کی 5جلدوں پر مشتمل اہم اور بنیادی کتابیں لکھی جن میں سلاطین دکن اور شعراء دکن شامل ہیں۔ اعلیٰ حضرت کے دور ہی میں سید احمدصاحب نے فرہنگ آصفیہ لکھی۔ دائرۃالترجمہ عثمانیہ یونیورسٹی ایک ایسا ادارہ ہے جو اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں کی علمی و ادبی کارناموں کو ہمیشہ یاد کرتا رہے گا۔ انہوںنے کہا کہ مادری زبان میں تعلیم ہی انسان کو انسان بناتی ہے اور تعلیم کے مقصد کو پورا کرسکتی ہے ۔ اعلیٰ حضرت نے مطلق العنان بادشاہ کی حیثیت سے جمہوریت کو روشناس کروایا اور اپنی حکومت کو جمہوریت کے طریقہ کار پر آگے بڑھایا۔ 1967ء میں ان کے انتقال پر لاکھوں لوگ زاروقطا ر رو رہے تھے وجہ یہ نہیں تھی کہ بادشاہ کا انتقال ہوا ہے بلکہ وجہ یہ تھی علم پرور اور ہمدرد اور شفیق بادشاہ سے وہ مرحوم ہوگئے تھے ۔ وہ اپنی رعایا کو اپنی دو آنکھیں سمجھتے تھے ۔ انہوںنے جامعہ عثمانیہ کے قیام کے بعد شعبہئ اردو کے ساتھ شعبہئ تلگو کا آغاز کروایا۔ انہوںنے مزید کہاکہ آنے والی نسلوں تک انکے پیغام اورتعلیمات کو پہنچانا ہر قلمکار اور دانشور کا فرض ہے ۔
    آخیر میں ڈاکٹر بھاسکر راؤ صاحب کے شکریہ پر اس اہم ترین پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔ ریسرچ اسکالرس اور معزز شخصیتوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

 


Tags

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

if you have any doubts.Please let me know

ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !