تبصرہ : ''اردو ہے جس کا نام''


تبصرہ : ''اردو ہے جس کا نام''
مصنف: ڈاکٹر عابد معز

مبصر:ڈاکٹر عزیزسہیل

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں        داغ    ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ    ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے
    اردو میں شستہ اور پر لطف تحرےروں کی ذریعے ادب کی دنیا میں مقام پیدا کرنے والوں میں ایک اہم نام عابد معز کا ہے جو اردو کی سرزمین حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے ہیں۔ این آرائی ہیں انہوں نے ہندوستان سے باہر خلیج میں رہتے ہوئے اردو کی اس نئی بستی میں اردو کی شمع کو روشن رکھا ہے ۔ خلیج میں رہتے ہوئے ایک طرف اپنے پیشہ کے اعتبار سے طب کے میدان میں خدمات انجام دیں وہیں پر انہوں نے اپنی تحر یروں کے ذریعہ اردو ادب کی خدمت کی۔وہ اکثر اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ پیشے سے طبیب ہوںلیکن ارد و کا ادیب ہوں۔ بہ طور طبیب اور ادیب خلیجی ممالک 'بر صغیر اور ساری دنیا میں یکساں مقبول ہیں۔ انہوں نے شستہ انداز میں فکاہی ادب اور طبی موضوعات پر مضامین لکھنے شروع کئے اور انہیں زیور طباعت سے آراستہ کرنا شروع کیا اور یکے بعد دیگرے ان کی ١٢ تصانیف شائع ہو کر مقبولیت اختیار کر گئیں۔ ان کی پانچ تصانیف کا تعلق اردو ادب سے ہے''واہ حیدرآبا(مضامین کا مجموعہ )١٩٩٤،''عرض کیا ہے''(شگفتہ افسانوں کا مجموعہ)٢٠١١،'' یہ نہ تھی ہماری قسمت''ْ(شگفتہ افسانوں کا مجموعہ) ٢٠١٢،''بات سے بات''(عرب دنیا میں شائع ہونے والے کالموں کا مجموعہ)٢٠١٢،''فارغ البال'' (انشائیوں کا مجموعہ)٢٠١٣، جوکہ اردو سے متعلق ہیں اور سات تصانیف صحت وطب کے موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔
ڈاکٹر عابد معز کی زیر نظرتصنیف'' اردو ہے جس کانام ''انکی ١٣ ویں تصنیف ہے۔
'    ' اردو ہے جس کانام ''ڈاکٹر عابد معز صاحب کی ادبی اعتبار سے چھٹویں کتاب ہے۔داغ ّؔ دہلوی کے مقبول عام شعر کو بنیاد بنا کر انہوں نے اپنی اس تازہ تصنیف کا نام رکھا لیکن ان کی یہ تصنیف کچھ منفرد انداز رکھتی ہے۔ جس میں مضامین اور کالم ہیں ےہ کتاب جنوری ٢٠١٤ء میں ہدیٰ پبلی کیشنز حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے ۔ اس تصنیف کا انتساب مصنف نے اپنے عزیز دوست نواب سکندرعلی خان صاحب کے نام معنون کیا ہے ۔عرض ناشر کے عنوان سے سید عبدالباسط شکیل ناشر ہدیٰ پبلی کیشنز حیدرآباد نے ڈاکٹر عابد معز اور ان کی اس تصنیف کا مختصراََ تعارف پیش کیا ہے ۔کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر عابد معز نے اپنے ادبی سفر کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ''میری زندگی کا تین چوتھائی حصہ اردو کی ایک نئی بستی سعودی عرب میں گزرا میں اپنی تصانیف کو اس پاک سرزمین کا صدقہ گردانتا ہوں''۔ (ص٨ )اپنے پیش لفظ میں انہوں نے سعودی عرب میں اردو کے اخبارات کی اشاعت کا تفصیلی تذکرہ لیا ہے اور انکے اکثر مضامین ان ہی رسالوں و اخبارات اورا دبی محفلوں میں پیش کیئے گئے ہیں۔اس کتاب کا مقدمہ پروفیسر فاطمہ پروین چیر پرسن شعبہ اردو آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے رقم کیا ہے۔جو اردو کی بہترین استاد،ادیب اور منفرد مقررہ ہیں پروفیسر صاحبہ نے ''کچھ ' اردو ہے جس کانام کے بارے میں '' کے عنوان کے تحت اس تصنیف پر اپنی رائے ثبت کرتے ہوئے اردو والوں کے ہاتھوں اردو کی جس انداز میں تحقیر ہورہی ہے اس بات کو بڑی چابک دستی سے اجاگر کیا ہے۔ برسوں پہلے خلیج میں تعلیم پانے والے بچوں کی انہوں نے جس انداز میں تصویر کشی کی ہے ویسی بلکہ اس سے بھی بدتر صورت حال ہمیں شہر اردو میںاردو گھرانوں میںنئی نسل میں نظر آرہی ہے ''(ص١٥)پروفیسر صاحبہ نے ڈاکٹرعابد معز کے فن اور فنکاری پر مفصل جائزہ پیش کیا ہے اور انہیں اردو کا سچا خدمت گزار قرار دیا ہے۔
    زیر تبصرہ کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے کا عنوان ''' سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے''رکھا گیا ہے جس میں اردو زبان سے متعلق ٢٤ مضامین اور کالم شامل ہیں۔کتاب کے دوسرے حصے کو'' کچھ شاعری کے ذریعہ عزت نہیں مجھے '' کا نام دیا گیا ہے جس میں اردو شاعری کے حوالے سے ١٦ مضامین شامل کئے گئے ہیں۔کتاب کا تیسرا حصہ'' لوگ ہنستے ہوئے چہروں کو دعا دیتے ہیں'' کے عنوان سے شامل ہے جس میں طنز ومزاح کے ٨ منتخبہ مضامین شامل ہیں۔
    کتاب کے پہلے حصے کا پہلا مضمون ''اردو کا شہر'' ہے جس میں مصنف نے حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی اردو سے متعلق ماضی کی یاد تازہ کی ہے اور حال کا نظارہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ''
    ''ہمارے شہر میںاردو زبان سے دلچسپی اب صرف دو طبقوں میں باقی رہ گئی ہے۔پہلا طبقہ شاعروں ،ادیبوں اور نقادوں پر مشتمل ہے۔ اور دوسرا طبقہ سیاست دانوںکا ہے۔ پہلے طبقے کی اردو سے وابستگی ہمہ وقتی ہوتی ہے جبکہ دوسراطبقہ موقتی طور پر اور کسی مفاد کی خاطر اردو سے مہر وفا کا اظہار کرتا ہے ''(ص ٢٥)
     ان خیالات کے ذریعے مصنف نے دور حاضر میں اردو کے ساتھ رواں سلوک کی بہترین عکاسی کی ہے۔ کتاب کے دوسرے حصہ میں'' شاعر کی چھٹی حسِ '' کے عنوان سے حقیقت اوراصلاح پر مبنی باتوں کو ڈاکٹر عابد معز نے رقم کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹرعابد معز کی تحریروں کو پڑھنے کیلئے کسی بھی فرد کے پاس کھلا ذہن چاہیے تاکہ انکی باتیں آسانی سے ہضم ہو ں اور ساتھ ہی ساتھ اصلاح بھی ہو جائے ۔وہ اپنے اس مضمون میں رقم طراز ہیں''ایک نقاد نے سگریٹ کی راکھ جھاڑ تے ہوئے شاعروں کی بڑائی کا مسئلہ حل کردیا ۔ انہوں نے سگریٹ کا کش لے کر بتایا ۔ شاعر کی چھٹی حسِ اس سے یہ کہتی ہے کہ تو سب سے بڑا شاعر ہے ۔ ہر شاعر کے بڑے ہونے کا سبب اس کی اپنی چھٹی حسِ ہے جو پہلا شعر مکمل ہونے سے پہلے خالق شعر سے کہہ دیتی ہے کہ ایسا شعر پہلے کسی نے کہا ہی نہیں ہے۔''(ص١٧٠)
    اس مضمون میں انہوں نے ایک مثال کے ذریعہ شاعروں سے متعلق اپنے نجی تجربات کو بیان کیا ہے اور اکثر شاعروں کے اندرپائی جانے والی حد سے زیادہ خود اعتمادی کی سچی تصویر پیش کی ہے۔جس سے نفسیات کے پہلو بھی اجاگر ہوتے ہیں۔
    کتاب کے تیسرے حصے میں شامل ایک اہم مضمون ''تندرستی اور خوشی کا نسخہ '' ہے جس میں انہوں نے سردرد کی داستان بیان کی ہے اور ڈاکٹر سے ہنسی کا نسخہ ''آپ مسکراتے اور ہنستے تناو، سے دور رہیے'' کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے'' ہنسی انسان کو بغیر پیسوں کے صحت مند بناتی ہے۔ کو ئی انجکشن یا گولی مفت میں ہمیں صحت مند ہونے کا احساس نہیں دیتی جو ہنسی سے ملتا ہے۔گولیوں اور انجکشنوں کی قیمت چکانی پڑتی ہے جبکہ ہنسی مفت میں ہمیں ہشاش بشاش بناتی ہے ہنسنے والوں کو غصہ کم آتا ہے ظاہر سی بات ہے میں نے کسی کو ہنس کر یا قہقہہ لگاکر غصہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیا آپ نے کسی کو غصے میں ہنستے ہوئے دیکھا ہے؟''۔(ص ٢٠٩)
    غرض یہ کہ ڈاکٹر عابد معز نے اپنے دلفریب انداز تحریر وشستہ اسلوب کے ذریعہ ایک بہترین تصنیف رقم کی ہے جو اردو قارئین کیلئے ایک طرف معلومات کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف اصلاح کا پہلو اور تیسری طرف طنز ومزاح کا احساس عطا کرتی ہے ۔ کاروبار حیات سے تھکے ماندے بوجھل ذہنوں کےلئے ےہ کتاب ضرور فرحت و انبساط کے لمحے فراہم کرے گی اور اردو کی اچھی تحریروں کے باذوق قارئین ڈاکٹر عابد معز کی ےہ اور ان کی دیگر تصانیف پڑھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی فاضل مصنف کو بہ طور تحفہ ڈاکٹری فیس دینے کا ارادہ کر لیں گے۔ کیونکہ انہیں بغیر دوائی کے فرحت کے لمحوں کے ذریعے صحت و تازگی ملے گی جو فی زمانہ بڑے جتن کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عابد معز کی یہ تصنیف اردو کے قیمتی خزانہ میں ایک گوہر نایاب کا اضافہ ہے امید کہ اردو دنیا میں اس منفرد اسلوب بیان تصنیف کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنا تعاون عمل پیش کریں گے۔٢٣٢ صفحات ٤٨موضوعات پر مشتمل یہ کتاب خوبصورت دلفریب سرورق بہترین کا غذ اور بہترین چھپائی کا اچھا نمونہ ہے جسکی قیمت 220روپیئے رکھی گئی ہے اور ہدیٰ پبلکیشنز حیدرآباد 040-24514892سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

٭٭٭٭٭

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے