سرسید احمد خان مصلح قوم'دانشور

 

سرسید احمد خان مصلح قوم'دانشور 

ڈاکٹر عزیز سہیل


    انیسویں صدی کو اردو ادب میں انتہائی اہمیت حاصل ہے ۔ کیونکہ اس صدی میں انگریزوں نے اپنے مقصد کے لئے ہندوستانی زبانوں کی درس و تدریس کیلئے فورٹ ولیم کلکتہ و فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس اور دہلی کالج قائم کیئے۔ اگرچیکہ ان تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد انگریزوں کو ہندوستانی زبانوں سے واقف کروانا اور انہیں تربیت فراہم کرناتھا لیکن انگریزوں کے قائم کردہ یہ کالجس اردو کی ادبی تاریخ خاص طور سے اردو نثر کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس دور میں اردو صحافت کا ستارہ جگمگارہاتھا اور جام جہاں نما، دہلی اردو اخبار سید الاخبار جیسے اخبارات شائع ہورہے تھے اور ان کے ذریعہ اردو زبان وادب کو فروغ حاصل ہورہاتھا ۔ ایسے میں اچانک 1857
ء؁ کا غدر واقع ہوا جسے ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی بھی کہاجاتاہے لیکن افسوس کہ یہ جنگ ناکام رہی اور اس جنگ کے اثرات نے مسلمانوں کے لئے بہت ہی زیادہ مشکل حالات پیدا کردیئے ایسے میں ایک فرد واحد نے اپنی تصنیف ''اسباب بغاوت ہند'' لکھ کر انگریزوں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلایا اورساتھ ہی مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز کرنے کاارادہ کیا۔مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی تحریک چلانے والے انیسویں صدی کی اس دانشور کو ہم سرسید احمد خان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جنہوں نے علی گڑھ تحریک کے ذریعہ اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی اصلاح اور شعور بیداری تعلیم وتربیت کا بیڑہ اٹھایا اور اسی تحریک نے اردو ادب کو بہت زیادہ متاثر کیا جس کے نتیجہ میں افسانوی ادب کے بجائے غیر افسانوی ادب کو فروغ حاصل ہوا اور حقیقت پسندی کو غیر افسانوی ادب میں پیش کیاجانے لگا۔ سرسید احمد خان نے1857 ء ؁ کے بعد مسلمانوں کے اندر ایک نیا جوش وجذبہ پیدا کیا ان کے رفقاء نے پاک و مثالی انسانوں کی سوانح عمریاں لکھیں اور مسلمانوں کے سامنے ایک سچا عملی نمونہ پیش کیا۔ علی گڑھ تحریک کے زیر اثر اردو ادب میں کئی نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ غزل کے بجائے نظم کو فروغ حاصل ہوا۔ غزل میں عشقیہ مضامین کے برخلاف زندگی کی حقیقتوں اور دیگر موضوعات کو پیش کیاجانے لگا۔
حالات زندگی:۔ سرسیداحمدخان 17/اکتوبر1817
ء ؁ میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ابتداء میں عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی بڑے بڑے عالموں سے علم حاصل کیا۔ 22سال کی عمر میں دہلی کی عدالت میں صدر امینی میں سررشتہ دار مقرر ہوئے اور صدر الامین کے عہد تک پہنچے۔ 1876ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے 28/مارچ1898ء میں 81سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ علی گڑھ میں مدفون ہوئے۔
جن کو مٹاسکے نہ کوئی دور انقلاب
کچھ ایسے نقش بھی تو بناتے ہوئے چلو
    سرسید احمدخان اردو کے بہت بڑے صاحب طرز ادیب تھے جنہوںنے اسلوب اور موضوعات کے اعتبار سے اردو ادب پر گہرے اثرات ڈالے۔ سرسید احمدخان کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں موجود تھیں ان کا سب سے عظیم کارنامہ مسلمانوں کی علمی و تعلیمی زندگی میں انقلاب پیدا کرنا ہے ۔ انہوںنے زندگی کے آخری وقت تک خود کو قوم کی خدمت کے لئے وقف کردیاتھا۔ انہوں نے قوم کی بھلائی اور اصلاح کیلئے کئی نمایاں خدمات انجام دیں۔ جن میں علی گڑھ تحریک، مدرسۃ العلوم اور سائنٹفک سوسائٹی قابل ذکر ہیں۔
تاریخ نگاری:۔سرسید احمد خان کی سب سے اہم تاریخی کتاب''آثار الصنادید'' ہے جو 1847
ء ؁ میں شائع ہوئی۔ جس میں دہلی کی تاریخی عمارتوں اور نامور لوگوں کے حالات لکھے گئے ہیں۔ انہوں نے 1857ء کے غدر کے سلسلہ میں دو کتابیں لکھیں۔ پہلی مشہور کتاب'' اسباب بغاوت ہند'' اور دوسری'' تاریخ سرکشی ضلع بجنور'' ہے ۔ پہلی کتاب میں انہوںنے غدر کا آنکھوں دیکھاحال بیان کیا ہے اور دوسری کتاب میں بغاوت کے اسباب کوبیان کیاہے۔ سرسید نے ایک اور کتاب''لائل محمڈنز آف انڈیا'' لکھی۔ جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ مسلمان انگریزی سرکار کے بدخواہ نہیں ہےں۔
سیرت نگاری:۔ایک انگریز ولیم میور نے ''لائف آف محمدؐ'' لکھی جس میں حضورؐ کی زندگی کو اس قدر مسخ کیاگیاتھا کہ لوگ تڑپ کر رہ گئے۔ سرسید نے یہ کتاب دیکھی تو مضطرب ہوگئے تمام اثاثہ فروخت کرکے اور دوستوں سے قرض لے کر انگلستان گئے اور اس کا دندان شکن جواب ''خطبات احمدیہ'' کے نام سے لکھا جو کہ استدلالی یعنی مدلل انداز بیان کا بہترین نمونہ ہے ۔
علی گڑھ تحریک:۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
علی گڑھ تحریک بنیادی طورپر ایک اصلاحی تحریک تھی جس کا مقصد مسلمانوں میں پائے جانے والے عیو ب نقائص کو دور کرکے انہیں فلاح و بہبود کے راستے پر گامزن کرناتھا۔ سرسید اس تحریک کے بانی تھے انہوںنے مسلمانوں کو عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا ۔اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے انہوں نے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔ علی گڑھ تحریک میں ان کے رفقاء میں الطاف حسین حالی، نذیر احمد،شبلی نعمانی، وقار الملک ، محسن الملک، محمد حسین آزاد، چراغ علی شامل تھے۔ علی گڈھ تحریک بنیادی طور پر ایک اصلاحی تحریک تھی۔ لیکن اصلاح کا کام چونکہ اردو نثر میں صحافت اور مضمون نگاری کے ذریعے کیا گیا تھا۔ اس لئے علی گڈھ تحریک سے اردو نثر کو بہت سادگی ملی۔ اور اس میں علمی باتیں آسانی سے بیان ہونے لگیں۔ اس سے قبل اردو نثر میں مقفیٰ و مسجع عبارت آرائی کا رنگ غالب تھا۔ نذیر احمد نے ناول لکھ کر اردو ناول کو فروغ دیا۔ سرسید نے تہذیب الاخلاق میں اصلاحی مضامین لکھ کر اردو مضمون نگاری کو فروغ دیا۔ حالی ؔ نے سوانح نگاری اور تنقید نگاری کو فروغ دیا۔ بعد میں محمد حسین آزاد نے جدید نظم کی بنا ڈالی۔ اس طرح سرسید کی علی گڑھ تحریک نے بالواسطہ طور پر اردو نثر کو سادگی عطا کرنے اور اردو میں جدید اصناف ناول'سوانح 'تنقیدا ور مضمون نگاری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔سرسیدنے ایک سوسائٹی قائم کی جس کا نام سائنٹفک سوسائٹی تھا اس سوسائٹی کے تحت ایک رسالہ سائنٹفک سوسائٹی گزٹ کے نام سے جاری کیااور ساتھ ہی اپنے خیالات کی ترویج و اشاعت کے لئے تہذیب الاخلاق جاری کیا۔
    ڈاکٹر خلیق انجم سرسید احمدخان کی شخصیت سے متعلق رقمطراز ہیں:
    ''سرسید کی بیشتر کتابیں پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ انہیں اپنے ماضی سے زبردست عشق تھا لیکن چونکہ وہ برطانوی حکومت کے ملازم رہے تھے اور انہیں انگریزوں سے قریب رہنے کا اتفاق ہواتھا یہی نہیں بلکہ انہوںنے لندن کا سفر بھی کیا اور تقریباً ڈیڑھ برس تک وہاں قیام کیاتھا اس لئے ان کی دوررس نگاہوںنے دیکھ لیا تھا کہ اگر مسلمان جدید تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو وہ تعلیمی اور سماجی اعتبار سے ہندوستان کے دوسرے مذہبی گروہوں کے مقابلے میں پسماندہ رہ جائیں گے ۔ اسی لئے سرسید نے ایک طرف تو مصلح قوم کا رول ادا کرنا شروع کیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو جدید تعلیم کی برکتوں سے واقف کروایا ۔اور اس طرح کا انتظام کیا کہ مسلمان جدید تعلیم حاصل کرسکیں۔اس سلسلہ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا قیام جس نے بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کی سرسید کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔''
(مظہر حسین ،علی گڑھ تحریک ، ص12)
    سرسید احمدخان نے مدرسۃ العلوم (محمڈن اینگلو اورینٹل کالج) کے نام سے ایک کالج قائم کیاتھا پہلے یہ ادارہ صرف اسکول کی جماعتوں تک محدود تھا اور پھر بعد میں اسی کالج نے ایک مستقل یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی اور آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے۔ سرسید احمد خاں نے علی گڑھ تحریک کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کو زندہ قوموں کی طرح زندگی گذارنے اور سربلند ہوکر جینے کا سلیقہ سکھایا ہے ۔
زندہ رہنا ہے تو پھر خود کو مٹانا سیکھو
                            گھٹ کے مرتے ہیں صدا جان بچانے والے        
(ماجد دیوبندی)

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے