تہذیبی روایات کا ا مین محمد قلی قطب شاہ

 


تہذیبی روایات کا ا مین محمد قلی قطب شاہ     
ڈاکٹر عزیز سہیل
پیا باج پیالاپیا جائے نا۔۔۔۔۔۔پیاباج یکتل جیا جائے نا
    اردو زبان کے آغاز اور ارتقاء کے بعد جس شاعر کواردو زبان کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہ دراصل محمد قلی قطب شاہ ہے محمد قلی قطب شاہ گولکنڈہ کا پانچواں حکمراں تھا محمد قلی قطب شاہ1565ء میں گولکنڈہ میں پیدا ہوا اور وہ 1580ء میں تخت نشین ہوا۔ جبکہ اس کی عمر صرف14سال کی تھی شہر حیدآباد اور چارمینار محمد قلی قطب شاہ کی یاد گار ہے۔ اس نے ہی حیدرآباد جیسے بہترین اور مثالی گنگاجمنی تہذیب وتمدن کے شہر کی بنیاد رکھی ۔قلی قطب شاہ اردو زبان اور شعر و ادب کا زبردست چاہنے والا تھا۔ وہ ایک قادراللسان شاعر تھا۔ اس کے کلیات میں پچاس ہزار اشعار ملتے ہیں۔ قلی قطب شاہ کا دیوان گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار اور ہندو مسلم اتحاد کی عظیم تر تہذیبی روایات کا امین و پاسدار ہے۔جس کا تذکرہ بعد کے آنے والے محققین ڈاکٹر زور اور پروفیسر سیدہ جعفر وغیرہ نے قلی قطب شاہ سے متعلق اپنی تحقیق میں کیا ہے۔محمد قلی قطب شاہ کی ادبی خدمات سے متعلق ڈاکٹر زوررقمطراز ہیں:    
    ''محمد قلی قطب شاہ اردو زبان وادب کا محسن اعظم تھا۔ اس نے اس زبان کی ایسے وقت میں دستگیری کی جبکہ وہ اس کی بہت محتاج تھی۔ محمد قلی نے اردو شاعری پر وہ احسان کیا ہے جو بعد کے کسی بادشاہ یا شاعر یا ادیب سے نہ ہوسکا۔ اس نے نہ صرف اردو شاعروں اور فنکاروں کی قدرافزائی کی بلکہ خود بھی اس کا ایسا رسیا بن گیا کہ اس زبان میں پچاس ہزار شعر لکھے۔ اسکے اردو کلام کی وسعت و ہمہ گیری سے پتہ چلتا ہے کہ کاروبار سلطنت کے بعد اگر اس کو کسی چیز سے دلچسپی تھی تووہ اردو شعر و سخن ہی تھا۔ یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہ تھی۔ شاعر ی ہی عشق ومحبت کے جذبات ا ور عیش و عشرت کے تخیلات کی بہترین ترجمانی کرسکتی تھی۔ ''
(ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ، محمد قلی قطب شاہ ،
اردو بنیادی کورس، مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی ص119تا120)
    محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔ جس نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی۔ اردو کے ساتھ ساتھ تلگو زبان میں بھی شاعری کی۔ محمد قلی قطب شاہ بنیادی طورپر غزل کا شاعر تھا۔ محمد قلی قطب شاہ کی اردو شاعری سے متعلق پروفیسرمحمد علی اثر لکھتے ہیں:
    ''محمد قلی کی شاعری کاایک نمایاں وصف سادگی بیان ہے وہ اپنے جذبات اور تجربات زندگی کو سادگی کے ساتھ پیش کرنے کا عادی ہے ۔ محمد قلی نے مختلف موضوعات پر مسلسل اور مربوط غزلیں کہی ہیں جن میں بڑی دیانتداری کے ساتھ اپنی نجی زندگی کی تفصیلات پیش کی ہیں اس کاکلام گویا اس کی زندگی کا آئینہ دار ہے جس میں اس کے رنگارنگ واقعات حیات کی ترجمانی ملتی ہے ۔''                
(پروفیسرمحمدعلی اثر، دکنی ادب ،تاریخ اردو زبان وا دب
ouص 68)
    محمد قلی قطب کی شاعری کا خصوصی وصف سادگی کلام ہے۔ اس نے اپنی شاعری میں جذبات اور تجربات زندگی کو پیش کیاہے۔ اس کی شاعری کا مزاج اور ماحول خالص ہندوستانی ہے۔ قطب شاہی سلطنت کا دور اردو زبان و ادب کے ارتقاء میں غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ محمد قلی قطب شاہ کے دربار کا ملک الشعراء عظیم المرتبت شاعر اسد اللہ وجہیؔ تھا۔ محمد قلی قطب شاہ کے درباری شعراء میں وجہی اور غواصی نے خوب نام کمایا ۔ وجہی کی تصانیف میں قطب مشتری، سب رس اردو فارسی دیوان کافی اہمیت کے حامل تھے جس کی وجہ سے اردو ادب کی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔ اس کی طبع زاد مثنوی قطب مشتری ایک بے مثال تصنیف ہے وجہی کی شاہکار تصنیف سب رس ہے جوکہ قدیم اردو نثر میں اولیت رکھتی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ نے32سال تک نہایت ہی شان و شوکت کے ساتھ حکمرانی کی اور اہل کمال کی قدردانی کی اور خود بھی اردو زبان میں شعر کہے اور 50ہزار اشعار اپنے ادبی ذخیرے کے طورپر چھوڑا ہے محمد قلی قطب شاہ کا 1611ء میں انتقال ہوگیا ۔
    محمد قلی قطب شاہ بڑا ہی علم دوست اور ادب نواز تھا۔ اس کو عربی ،فارسی اور تلگو میں مہارت حاصل تھی اردو کا پہلاصاحب دیوان شاعر تھا ۔ اس کی شاعری میں خصوصی محاوروں کا استعمال بہت زیادہ پایاجاتاہے۔
    محمد قلی قطب شاہ کو ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اردو زبان و ادب کا محسن اعظم قرار دیا ہے محمد قلی قطب شاہ کی غزلیںتمام اصناف سخن میں مقبولیت رکھتی ہیں جس کی اہم وجہ اس کی غزلوں میں ہندی اثرات اور صنف نازک کی جانب سے محبت کے اظہار کا حسین امتزاج نظر آتا ہے اس کے غزلوں میں جذبات کی بے ساختگی اور ساتھ ہی د ردوغم بھی پایاجاتا ہے اس نے غزلوں کے موضوعات میں اضافہ کیا ہے ۔ محمد قلی کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔
تیری الفت کا میں سرمست ہوں متوالا ہوں پیارے
نئیں ہوتا بجز اس کے کسی مئے کا اثر مجھ کو
    محمد قلی قطب شاہ کے غزلوں کے موضوعات میں بڑاتنوع اور کلام میں رنگارنگی پائی جاتی ہے ۔ اس نے غزلوں کے علاوہ بہترین نظمیں بھی لکھیں۔ اس کے نظموں کے موضوعات میں ہلال عید، ترکاری ،پھل پھول، رسوم، شادی بیاہ اور مذہبی تہواروں پر بھی بہترین نظمیں ملتی ہیں اس کی نظموں کے اردو کلام کو نیچرل شاعری سے تشبہیہ دی جاتی ہے اس کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنی شاعری میں ہندوستانی تہذیب و تمدن اور دکن کے علاقہ کی کیا خوب پیکر تراشی کی ہے ۔
    محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں ہندوستانی عناصر جس میں کھیل،موسم، محلات شاہی ،تہوار وغیرہ کے متعلق اشعار ملتے ہیں اس کے کلام کے مشاہدہ سے پتہ چلتا ہے کہ کلام میں حب الوطنی ،قوم پرستی اور قومی یکجہتی اور علاقہ دکن سے متعلق رجحانات پائے جاتے ہیںساتھ ہی دکنی تہذیب کے نمایاں خدوخال نظر آتے ہیں۔
    محمد قلی قطب شاہ کے ہندوستانی مزاج سے متعلق سیدہ جعفر رقمطراز ہیں
''دکن کے رسوم و عقائد یہاں کے رہن سہن وضع قطع اور پوری سماجی وتہذیبی زندگی کے مرقعے محمد قلی کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ مذہبی اور لسانی اختلافات کے باوجود ہندوستانیوں کی سماجی زندگی میں ایک وحدت نظر آتی ہے ۔ محمدقلی نے اسی تہذیبی وحدت کا اپنے اشعار میں اظہار کیاہے۔ اس کی شاعری کا اصل مزاج ہندوستانی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ وطنیت اور قومی یکجہتی کے جذبے سے سرشار نظر آتا ہے ۔''
(سیدہ جعفر،کلیات محمد قلی قطب شاہ ص127)
    محمد قلی قطب شاہ نے تہذیبی روایات کے فروغ کے سلسلہ میں سنجیدہ کوشش کی ہے اس نے اپنی شاعری کے ذریعہ تہذیبی عناصر کی بھرپور عکاسی اپنے کلام میں کی ہے اس نے اپنے شاعری میں ہندوستانی فضاء کی بھرپور نمائندگی کی ہے ساتھ ہی اپنے عہد کے تہذیبی روایات کو اجاگر کیا ہے جس میں رہن سہن، لباس، زیورات، طرز معاشرت اور ثقافت سے متعلق معلومات اپنے کلام میں پیش کی ہے ۔ ہندوستانی تہذیب کی ایک جھلک قلی قطب شاہ کے اس شعر میں ہمیں نظر آتی ہے ۔
پلک کانٹے نین باند ےا نہ جاوے خیال تےر ے کن
رقم اس خیال موپیشانی کوں سندوا کر ساقی
    محمد قلی قطب شاہ ہی وہ پہلا شاعر ہے جس کے کلام میں ہمیں اپنے دور کے تہذیب کی نمایاں چھاپ نظر آتی ہے ایک طرف وہ اپنے کلام میں تہواروں کا تذکرہ کرتاہے تو دوسری طرف یہاں کے پھل پھول اور ترکاریوں سے اپنے کلام میں ہندوستانی تصویر کشی کرتاہے۔ ساتھ ہی کھیل کود کا ذکر بھی ہمیں ان کے کلام میں ملتا ہے حالانکہ ہمارے یہاں دور حاضر میں مزاحیہ شاعری میں کھیلوں کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن سنجیدہ شاعری میں ہی اس طرح کی باتیں پیش نہیں کی جاتی ۔کھیل سے متعلق قلی قطب شاہ کایہ شعر دیکھیں۔
ہوتا آنند خوشحال سب نت گائے ناٹک سال سب
بجتے طنبورے تال سب مندل کے دھکارے اسمیں
    مرگ کو علاقہ دکن میں موسم برسات کے آغاز کے طورپر تہوار کی طرح منایاجاتاتھا جس کی عکاسی محمد قلی قطب شاہ نے اپنے اس شعر میں کی ہے ۔
مرگ سال آئیا پھر تھے مرگ نین سنگاراں کر
جڑت مانگ بہوٹیاں لعل موتیاں لیک
    موسم سرما سے متعلق محمد قلی قطب شاہ کا یہ شعر دیکھیں۔
ہوا آتی ہے لے کر ٹھنڈ کالا
پیابن سنتا تامدن بالے بالا
تن ٹھنڈت لرزت جو بن گرجت
پیا مکھ دیکھت کنچکی کس کہتے آج
    بسنت سے متعلق یہ شعر
بسنت باس چن چن کے چنری بند ہے
جواہر کے لہراں سوں آیا بنست
    ہندوستانی ساڑی جوکہ خواتین کا لباس ہے اس متعلق قلی قطب شاہ کا یہ شعر
عشق بول اپ چھاتی میا نے لکھائی
کہ نکھ چین چن چین باندھی ہے ساری
    زیورات سے متعلق یہ شعر
دن دنا گرجے جوبن بادل ممن
کنگناں جھلکار منج سناوتم
    محمد قلی قطب شاہ کی شاعری ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا بہترین نمونہ ہے ۔سیدہ جعفر کلیات محمد قلی قطب شاہ میں قلی کے کلام میں ہندوستانی کلچر سے متعلق لکھا ہے:
    
ـ''ہندوستانی معاشرت، ہندوستانی طرز زندگی،یہاں کے رسم و رواج اور ثقافتی میلانات محمد قلی کے طرز وفکر میں اتنے رچ بس گئے تھے کہ جگہ جگہ یہ عناصر اس کے کلام میں اپنا پرتو دکھاتے رہتے ہیں۔''(ص128)
        ہندوستانی خواتین عیدوں تہواروں کو خوشی کے موقعوں پر مہندی ہاتھوں پر لگاتی ہیں اس کی کتنی خوبصورت تصویر قلی قطب شاہ نے اپنی شاعری میں کی ہے ۔
رنگیلی مہندی ہت ہور پاؤں لاکر
کندن کلیاں کے ہاراں خوش گندایا
بند مہندی کے ہاتاں منے گل لال جوں پاتاں منے
موتی جھڑیں باتاں منے جھل تھے سمندر کھارے رہیں
    قلی قطب شاہ کی شاعری میں ہندوستانی موسیقی کا بھی ذکر ہمیں ملتاہے ۔ ہندوستانی ساز سے متعلق یہ شعر
مرے سنگ مل بجاتی شنکھ گاتی ا سنگھراا بھرن
سری داگاں جوگاتی استری توں منجکوں بھاتی ہے
    محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں اس تہذیبی رنگار رنگی کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اس کی شاعری ہندوستان کی کثرت میں وحدت کی تہذیبی خصوصیت کی علمبر دار ہے۔ اور اس سے ہر زمانے میں ہندوستان میں قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے کام لیا جاسکتا ہے۔ سلیمان اطہر جاوید اپنے مضمون محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں ہندوستانی عناصر میں محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کو ہندوستانی تہذیبی و قومی یکجہتی کیلئے مشعل راہ قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں :
    ''اردو ادب میں کلام محمد قلی قطب شاہ کی تاریخی اہمیت ہے اور اس سے زیادہ تہذیبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہندوستان کا تہذیبی منظر نامہ اس کے کلام میں جھلکتا ہے ۔۔۔۔۔۔آج بھی اگر ہم ہندوستانی تہذیبی یکجہتی کے خواب کی تعبیر پانا چاہتے ہیں تو محمد قلی قطب شاہ کا کلام ہماری رہنمائی کرسکتا ہے ۔'' (سلطان محمد قلی قطب شاہ ،مرتبہ اسلم پرویز،ص293-292)
    غرض یہ کہ محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں حب الوطنی اور قوم پرستی کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے ساتھ ہی ہندوستانی اورخصوصی دکنی کلچرکی بہترین نمائندگی ہمیں محمد قلی کے کلام میں ملتی ہے ۔اس کے کلام کے موضوعات سے ہی ہمیں ہندوستانی کلچرکے عناصر کی نشاندہی ہوتی ہے ساتھ ہی تہذیبی پس منظر بھی اجاگر ہوتاہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دکنی زبان سے عمومی عدم واقفیت کے اس دور میں دکنی زبان کے ماہرین محمد قلی قطب شاہ کے دکنی کلام کا آسان اردو میں ترجمہ کریں یا اس کے موضوعات کو مضامین کی شکل میں پیش کریں تو محمد قلی کے کلام میں موجود تہذیبی روایات اور ورثے کا تحفظ ہوسکتا ہے اور دکنی زبان سے عدم واقف نئی ہندوستانی نسل اس کام سے محمد قلی کے پیغام کو سمجھ سکتی ہے۔

 

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے