یونیورسٹیز کے استحکام و فروغ کے لئے مدارس کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زورتلنگانہ اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام یادرفتگان کی رسم اجراء۔ وائس چانسلرمانو پروفیسر عین الحسن عابدی کا خطاب


 یونیورسٹیز کے استحکام و فروغ کے لئے مدارس کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زورتلنگانہ اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام یادرفتگان کی رسم اجراء۔ وائس چانسلرمانو پروفیسر عین الحسن عابدی کا خطاب 

حیدرآباد۔30 اگست -(سرفراز نیوزایجنسی)۔  وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی پروفیسر سید عین الحسن عابدی نے اعلیٰ تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیز کے استحکام کے لئے مدرسہ ایجوکیشن کو عام کرنے اور مدارس کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وائس چانسلر جو فارسی اسکالر بھی ہیں 30/اگست کو میڈیا پلس آڈیٹوریم میں تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام کتاب ”یادرفتگان۔حیدرآباد کے مشاہیر اردو“ کی رسم اجراء کے بعد مخاطب تھے۔ جناب رحیم الدین انصاری چیرمین اکیڈیمی نے صدارت کی۔ شہ نشیں پر ایڈیٹر گل بوٹے‘ ممئی فاروق سید، رجسٹرار مانو محمد محمود صدیقی، سکریٹری اکیڈیمی ڈاکٹر محمد غوث کے علاوہ پروفیسر مجید بیدار، پروفیسر فضل اللہ مکرم بھی موجود تھے۔ ممتاز شاعر سردار سلیم نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ وائس چانسلر مانو نے کہا کہ مدارس کے طلبہ ذہین ہوتے ہیں‘ اور جس شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں اس میں اپنے نقوش مرتب کرتے ہیں۔ انہوں نے علی سردار جعفری اور مجروح سلطان پوری کی مثال دی جو مدارس کے فارغ التحصیل تھے‘ جو فلمی گیت کار کے طور پر بہت مشہور ہوئے۔ انہوں نے کئی مثالیں دیں کہ کس طرح مدارس کے فارغ طلبہ مانو میں گریجویشن کورسس میں داخلہ لینے کے بعد اپنے آپ کو منواتے رہے اور وہ مختلف یونیورسٹی کے مختلف ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ رہے۔ وائس چانسلر نے مانو اور تلنگانہ اردو اکیڈیمی کے باہمی اشتراک اور تعاون سے اردو خطاطی کے ورکشاپ کے انعقاد کی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا کہ زبان ہے تو تہذیب باقی ہے‘ انہوں نے حیدرآباد کی اردو کی خدمات کا اعتراف کیا اور کہا کہ حیدرآباد بدلا مگر حیدرآبادی نہیں بدلے۔ اور اعلان کیا کہ مانو  میں دکن اسٹیڈیز کا جو شعبہ ہے‘ جس کا وہ احیاء کریں گے۔ جناب محمود صدیقی نے کہا کہ اردو کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے اردو اسکولس اور اردو میڈیا کے طلبہ پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔ اور اردو اکیڈیمیوں کو تحریک میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔  ایڈیٹر گل بوٹے جناب فاروق سید نے کہا کہ قوموں اخلاق اور تہذیب سے آراستہ کرنے کے لئے انہیں اچھے ادب سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے رسائل ان فرائض کی تکمیل کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے ڈگری اور اچھی نوکری تو مل سکتی ہے مگر انسان بااخلاق ہونا ضروری نہیں۔ اگر کسی کی اولاد بہترین ڈاکٹر، انجینئر یا کچھ بھی بن جائے مگر والدین کے نافرمان ہوں تو اس سے کیا فائدہ۔ بچوں کا ادب بچوں میں اخلاقی کی آبیاری کرتا ہے۔ انہوں نے ماہنامہ روشن ستارے کی پہلی سالگرہ کی مبارکباد دی۔ ڈاکٹر محمد غوث نے اردو اکیڈیمی کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ اور مستقبل کے عزائم سے واقف کروایا۔ پروفیسر فضل اللہ مکرم، پروفیسر مجید بیدار، محترمہ قمر جمالی، ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، ڈاکٹر محمد ناظم علی، فاروق طاہر، حمیدالظفر نے بھی اظہار خیال کیا۔ قبل ازیں اردو اکیڈیمی کے ترانے کی رسم اجراء انجام دی گئی۔ یہ ترانہ سردار سلیم نے لکھا ہے۔ قرأت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر یوم آزادی تحریری مقابلے کے انعام یافتگان معراج فاطمہ طالبہ اقرأ مشن اسکول انعام اول 3000روپئے اور گولڈ میڈل، ناہید بیگم طالبہ  ایم ایس انعام دوم 2000روپئے اور سلور میڈل، خضریٰ بیگم مانو ماڈل اسکول کو برانز میڈل ایک ہزار روپئے پیش کئے گئے۔ عائشہ فاطمہ، عثمان خان اور نصرت سلطانہ کو ترغیبی انعامات پیش کئے گئے۔ جناب رحیم الدین انصاری کی اردو اکیڈیمی کے صدر نشین کی حیثیت سے 30/اگست آخری دن تھا۔ انہیں ان کی  خدمات کا اعتراف کرکے وداع کیا گیا۔ اپنی صدارتی تقریر میں رحیم الدین انصاری نے اس عزم کا اعلان کیا کہ وہ اکیڈیمی اور مانو کے لئے تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی نے شکریہ ادا کیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے