معلم اور اس کا کردار
معلم اور اس کا کردار
از: ڈاکٹر عزیز سہیل
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
الطاف حسین حالیؔ
ہر سال 5 ستمبر، ہندوستان بھر میں
بطور یوم اساتذہ (ٹیچرس ڈے) منایا جاتا ہے۔ دراصل یہ دن، ہمارے سابق صدر جمہوریہ
سروے پلی رادھا کشنن کے موقعِ یوم پیدائش کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ سروے پلی
رادھا کشنن 5 ستمبر 1888ء تھیروتانی، مدراس(نیا نام: چینائ) میں پیدا ہوئے۔ سروپلی
رادھا کرشنن ایک ماہر تعلیم، فلسفی اور سیاستدان تھے۔ وہ ہندوستان کے پہلے نائب
صدر رہے بعد ازاں 1962ء میں وہ ہمارے ملک کے دوسرے صدرجمہوریہ بنے۔ ہمارے ہاں 5
ستمبر کو ''یومِ اساتذہ'' منانے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب وہ صدر جمہوریہ تھے تب
ان کے چند شاگردوں نے ان کے جنم دن کو منانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے جنم دن کے
بجائےاس دن کو بحیثیت ''یوم اساتذہ'' منانے کا مشورہ دیا۔ تبھی سے ہمارے ملک میں
ہر سال 5 ستمبر کو ''یوم اساتذہ'' منایا جاتا ہے اور اساتذہ کی خدمات کو خراج پیش
کیا جاتا ہے اور ان سے اپنی والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تعلیم کے
معنی راستہ دکھانے کے ہیں تعلیم بچہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگرتی ہے۔ تعلیم سے
متعلق مہاتما گاندھی کا قولِ مسلم ہے کہ
''یہ ذہنی، جسمانی اور روحانی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا
نام ہے''
تعلیم وتربیت کا آغاز بچے کی پیدائش
کے بعد سےشروع ہوتا ہے. ابتدا میں والدین بچے کو دنیا کی سچائیوں اور انسانی قدروں
سے روشناس کرواتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد جب بچہ بولنا اور چلنا سیکھتا ہے تو اس کا
تعلق اپنے والدین کے ساتھ اپنے اساتذہ سے بھی رابطہ ہوجاتا ہے اور اساتذہ بچے کو
علم کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار، انسانی قدروں سے ہمکنار کرواتے ہیں۔ دنیا داری
سکھاتے ہیں اور ایک اچھا شہری بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اساتذہ کا
کام دراصل انسان سازی ہے۔ اس بنیاد پر اساتذہ بچہ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے،
ان کی نشوونما کرنے، بچہ کی سیرت کو بنانے اور اس کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں
اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے
ہیں
اساتذہ کے کردار سے متعلق ڈاکٹر محمد مسعود عالم قاسمی نے ایک جگہ لکھا ہے ''اساتذہ طلباء کے لئے آئینہ ہوتے ہیں۔ طلباء محض کلاس کے لکچر، منہ کے الفاظ اور بلیک بورڈ کی تحریر کو ہی نہیں پڑھتے، بلکہ اساتذہ کی نقل حرکت، عادت و اطوار اور رویہ و رحجانات کا بھی اثر لیتے ہیں۔ اس لئے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنا بھی جائزہ لیں، جن مقاصد اور اقدار کو وہ بچوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں، پہلے ان کو اپنے وجود میں تلاش کریں تبھی وہ مخلص اور سچے اساتذہ کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور سماج کو اپنی صلاحیت سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں بچوں میں اسی چیز کا انعکاس ہوگا جو اساتذہ میں موجود ہوگی '' 1؎
بچہ کا لڑکپن یعنی سات سال سے پندرہ
سال تک کا زمانہ اس کی زندگی میں کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے. یہ دور اس کی تعلیم
و تربیت کا دور ہوتا ہے. اس کی ترقی کا دور ہوتا ہے. اس دور میں لڑکے ہر چیز کی
تلاش میں ہوتے ہیں، یہ وہ دور ہے جب کہ ان کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے، وہ بہت زیادہ
غور و فکر کرنے لگتے ہیں، اچھی عادتیں سیکھتے ہیں مختلف مثالوں سے تربیت پاتے ہیں
اور حسب رہنمائی و ہدایت اچھی صحبت اختیار کرتے ہیں۔ اگر اس زمانہ میں ان کی بہتر
طور پر تربیت نہیں کی گئی تو وہ بگڑ جاتے ہیں اور غلط راہوں پر نکل جاتے ہیں۔ لہذا
اس عہد میں بچہ کا زیادہ تر تعلق اپنے اساتذہ سے ہوتا ہے. وہ اسکول جاتے ہیں اسکول
کے ماحول سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ نئی نئی باتیں سیکھتے ہیں۔ یہ اساتذہ ہی ہوتے ہیں
جو بچہ کی کردار سازی میں اپنا اہم رول ادا کرتے ہیں انہیں زندگی کے طور طریقے
سکھاتے ہیں انھیں نظم وضبط کا پابند بناتےہیں۔ تعلیم ایک مقدس پیشہ ہے اور اس شعبہ
میں استاد کا کردار انتہائی ذمہ دارنہ اور اہم ہے۔ استاد کا پہلا کام بچہ میں
تعلیم کے شوق کو پیدا کرنا ہے۔ استاد بچہ کا مربی اور رہنما ہوتا ہے، اس اعتبار سے
اس کی رغبت بچوں کی سیرت و شخصیت کو سنورانے کی طرف ہو. اس طرح یہ ضروری ہو جاتا
ہے کہ وہ بچوں میں اچھے اخلاق کو پیدا کرے، ان کو اچھی عادتیں سکھانے میں اپنی
صلاحیتوں کو صرف کرے۔
پروفیسر انعام اللہ خاں شیروانی نے
استاد کے اوصاف کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ عام اوصاف اور خاص اوصاف
. عام اوصاف: اعلی سیرت و کردار، احساس ذمہ داری، فرض شناسی،
لگن، مردم شناسی، معاملہ فہمی، قوت فیصلہ، خوش اخلاقی، صبر و استقلال، ہمدردی
وغیرہ۔
خاص اوصاف: علمی لیاقت، زبان دانی،
تعلیمی تجربہ، مطالعہ و مشاہدہ، بچوں کی نفسیات سے واقفیت، تدریسی صلاحیت، اچھی
صحت، ذوق مطالعہ، موثر انداز بیان وغیرہ 2؎
بہر حال ایک اچھے استاد میں ان خوبیوں
اور اوصاف کا ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔معلم اپنے کردار کے ذریعے ہی بچہ پر اثرانداز
ہوسکتا ہے اور سچی محنت و لگن سے وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کو بہتر
انداز میں انجام دے سکتا ہے۔
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار
ہمارے
استاد
یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
حوالہ: 1۔ ''اساتذہ: مقام و منصب اور
ذمہ داریاں''، افکار معلم، جولائی 2014ء، ص7
2۔
''تدریس زبان اردو''، پروفیسر انعام اللہ خاں شیروانی، 2007ء، ص46
* * *
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any doubts.Please let me know
سبسکرائب کریں در تبصرے شائع کریں [Atom]
<< ہوم